مکمل حدیث ترجمہ کے ساتھ دیکھیں ،پھر اس کے مفہوم و مراد بتاتے ہیں :
ترجمہ:
قیس سے روایت ہے، میں نے جناب عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: (سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ جنگ صفین میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف تھے) تم نے جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مقدمہ میں (یعنی ان کا ساتھ دیا اور لڑے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے) یہ تمہاری رائے ہے یا تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باب میں کچھ فرمایا تھا .
سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے کوئی بات ایسی نہیں فرمائی جو اور عام لوگوں سے نہ فرمائی ہو لیکن سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے اصحاب میں بارہ منافق ہیں ان میں سے آٹھ جنت میں نہ جائیں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں گھسے .“ (یعنی ان کا جنت میں جانا محال ہے) اور آٹھ کو ان میں سے دبیلہ سمجھ لے گا (دبیلہ پھوڑا یا دمل) اور چار کے باب میں اسود یہ کہتا ہے جو راوی ہے اس حدیث کا کہ مجھے یاد نہ رہا شعبہ نے کیا کہا ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح مسلم میں دوسری سند سے یہ حدیث ملاحظہ فرمائیں :
اس میں ( میرے صحابہ کی بجائے میری امت میں سے بارہ منافق کا لفظ ہے :
ترجمہ:
جناب قیس سے روایت ہے، میں نے جناب عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: (سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ جنگ صفین میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف تھے) تم نے (سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے)جو جنگ کی اور لڑے یہ تمہاری رائے ہے ؟
کیونکہ کسی کی رائے درست بھی ہوسکتی ہے ، اورغلط بھی ، یا تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باب میں کچھ فرمایا تھا .
سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے کوئی بات ایسی نہیں فرمائی جو اور عام لوگوں سے نہ فرمائی ہو لیکن سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں بارہ منافق ہیں ، یہ جنت میں نہ جائیں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں گھسے .نہ اس کی خوشبو پائیں گے “ (یعنی ان کا جنت میں جانا محال ہے)
اور آٹھ کو ان میں سے دبیلہ سمجھ لے گا (دبیلہ پھوڑا یا دمل)
یعنی ایک آگ کا چراغ ان کے مونڈھوں میں پیدا ہو گا ان کی چھاتیاں توڑ کے نکل آئے گا (یعنی اس میں انگار ہو گا جیسے چراغ رکھ دیا ۔‘‘
علامہ النووی ؒ اس حدیث کے تحت شرح میں لکھتے ہیں :
نبی مکرم ﷺ نے جو فرمایا کہ میرے صحابہ سے بارہ منافق ہیں ،تو اس کا مطلب صرف صحبت سے منسوب ہونا ہے (نہ کہ اصل صحابی )
جیسے دوسری سند سے یہاں لفظ ( میری امت سے ) ہے ‘‘
یعنی یہاں صحابی کے لفظ سے مراد سچے اور عادل صحابہ نہیں ، بلکہ اس دور میں اسلام سے منسوب ،اور ایمان کا دعوی رکھنے والے منافقین ہیں ،
کیونکہ صحابی تعریف ہی اسلام میں یہ ہے کہ :
’’ جس نے حالت ایمان میں جناب نبی کریم ﷺ کو دیکھنے کا شرف پایا ‘‘
امام بخاری ؒ صحیح بخاری باب فضائل صحابہ میں فرماتے ہیں :
یعنی : جس مسلمان نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار اسے نصیب ہوا ہو وہ آپ کا صحابی ہے۔
اور منافقین کے متعلق یہ حقیقت تو معلوم ہی ہے کہ وہ مومن نہیں
قرآن مجید میں ارشاد ہے :
یعنی کچھ لوگ ایمان لانے کا دعوی تو کرتے ہیں ،لیکن حقیقت میں وہ مومن نہیں ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں بظاہر اپنے آپ کو مومنین کہنے اور ان کے ساتھ ہونے کے سبب لفظ ( صحبت ) ان کیلئے استعمال کردیا
جیسے قرآن کریم میں خود رسول اکرم ﷺ کو مکہ والوں کا ( صاحب ) ساتھ رہنے والا کہا گیا ہے :
کہہ دیجیئے! کہ میں تمہیں صرف ایک ہی بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم اللہ کے واسطے [ضد چھوڑ کر] دو دو مل کر یا تنہا تنہا کھڑے ہو کر سوچو تو سہی، تمہارے اس رفیق کو کوئی جنون نہیں، وه تو تمہیں ایک بڑے [سخت] عذاب کے آنے سے پہلے خبر دار کرنے والاہے۔‘‘
تو صرف مکہ میں ایک طویل عرصہ ساتھ رہنے کے سبب پیغمبر اکرم ﷺ کو ان کا ساتھی (صاحب ) کہا گیا ،
اور اسلئے بھی (صاحب ) کہا کہ اتنے طویل عرصہ جس کے ساتھ رہتے ہو اس کی صداقت و عدالت اور اخلاق کو تم خوب پہچانتے ہو،
چالیس سال سے جو آدمی تمہارے ساتھ اتنے اعلی اخلاق کا نمونہ بن کر زندگی گزارتا رہا تم اسے (عقل وخرد سے عاری ) کیسے قرار دے سکتے ہو ،
اب کون اس آیت میں وارد لفظ (صاحب ) جس سے صحابی بنتا ہے اس کی بنیاد پر کہہ سکتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ تو مکہ والوں کے صحابی ہیں ؟
اسی طرح حدیث میں وارد لفظ
سے مراد انصار و مہاجرین کے مخلصین نہیں ، جن کی تعریف و مدح میں قرآن کریم کی آیات وارد ہیں
اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وه سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی لئے ہم برملا کہتے ہیں :
اللہ کے سچے آخری دین پر اپنا تن من، دھن نچھاور کرکے دین کی نصرت کرنے والوں کے متعلق شکوک و شبہات اور بدگمانیاں پیدا کرنے والوں پر اللہ کی لعنت برسے ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔