شیعہ اعتراض:
اس موضوع میں تحقیق کرنے والا جب صرف حقیقت کا متلاشی ہو گا تووہ دیکھے گا کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے حق میں وضاح اور جلی نصوص موجود ہیں ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان گرامی ’’ من کنت مولاہ فعلي مولاہ ۔‘‘’’ جس کا میں مولا ہوں علی بھی اس کا مولا ہے ‘‘ یہ جملہ آپ نے حجۃ الوداع سے واپسی پر ارشاد فرمایا۔ لہٰذا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مبارک دینے کے لیے ایک سٹیج تیار کیا گیا اور ان مبارک دینے والوں میں خود حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ وہ دونوں یوں کہہ رہے تھے: اے ابن ابو طالب! آپ کو مبارک ہو، آپ مومن مرد اورمومن عورت کے مولی قرار پائے ہیں ۔
یہ ایسی نص ہے جس پر شیعہ اور اہل سنت کا اجماع ہے اور میں نے اس بحث میں صرف اہل سنت و الجماعت کے مصادر پر اکتفا کیا ہے۔
علمائے کرام کا اس پر ردّ
٭حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بارے میں اہل سنت و الجماعت کا اختلاف ہے۔ ایک جماعت کا عقیدہ ہے کہ آپ کی خلافت نص سے ثابت ہے، خواہ اسے نص جلی تسلیم کیا جائے یا نص خفی۔ جبکہ اہل سنت کی ایک دوسری جماعت کا خیال ہے کہ آپ کی خلافت کا انعقاد اہل حل و عقد کی بیعت سے ہوا تھا۔ فریق اول نے وجود نص پر قوی دلائل پیش کیے ہیں ۔بہرحال دونوں صورتوں میں حق اہل سنت و الجماعت سے باہر نہیں ہے۔
٭تنقید نگار کا یہ کہنا کہ شیعہ خلافت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نص کا دعویٰ کرتے ہیں او اس سلسلہ میں کئی احادیث پر اعتماد کرتے ہیں یہ دعوی محل نظر ہے جبکہ دوسری جانب سے اگر فرض کریں کہ خلافت کے بارے میں وجود نص کا عقیدہ برحق ہے تو پھر بھی یہ شیعہ کے دعوی کی دلیل نہیں ہے۔ اس لیے کہ شیعہ کا
فرقہ راوندیہ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی خلافت کا قائل ہے ۔ وہ ایسی ثابت نص کا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے حق میں دعویٰ کرتے ہیں جیسے شیعہ اثنی عشریہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بارے میں نصوص کے دعوے دار ہیں ۔
حقیقت ِدعوي :.... ’’ من کنت مولاہ فعلي مولاہ ۔‘‘’’ جس کا میں مولا ہوں علی بھی اس کا مولا ہے ۔‘‘
ردّ: ....اہل علم کا اس حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض اہل علم نے اسے ضعیف کہا ہے اور بعض نے حسن۔
یہ دعوی کرنا کہ یہ حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں نص جلی ہے.... الخ۔
ردّ: ....ہم کہتے ہیں خود یہ روایت ایسی کسی بھی نص کے وجود کے خلاف بہت بڑی دلیل ہے اس لیے کہ یہ نص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجۃ الوداع سے واپسی پر غدیر خم کے مقام پر سامنے آئی اور یہ بات معلوم شدہ ہے کہ حجۃ الوداع سے واپس تمام لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ نہیں پلٹے تھے۔ بلکہ آپ کے ساتھ صرف اہل مدینہ ہی تھے ۔اور جو کچھ شیعہ کا دعویٰ ہے؛ اگر واقعی ایسے ہی ہوتا تو آپ حجۃ الوداع کے موقع پر اس کا اعلان کرتے، کیونکہ اس وقت تمام مسلمان جمع تھے (یوں سبھی لوگوں کو اطلاع ہو جاتی) مگر حج کے موقع پر تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امامت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کسی بات کا ذکر تک نہیں کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت کے بارے میں نہ ہی وحی اتری اور نہ ہی کوئی نصوص پائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے دین میں ایسی کوئی چیز نہیں اور نہ ہی اس کی تبلیغ کا حکم دیا گیا لہٰذا یہ روایت آپ کی خلافت کی دلیل نہیں ہو سکتی۔ چہ جائیکہ اسے واضح اور جلی کہا جائے۔
۳۔ جہاں تک مولاہ کلمہ کا تعلق ہے، تو اس سے مراد خلافت ہر گز نہیں اور مولیٰ کے متعدد معانی ہونے کے باوجود یہ لفظ اس معنی پر دلالت بھی نہیں کرتا۔ مختار الصحاح میں رازی نے کہا ہے: المولی سے مراد، آزاد کردہ، آزاد کرنے والا، ناصر و مددگار اور حلیف اور چچازادہوتے ہیں ۔ موالات کی ضد معادات آئی ہے اور ولایت (واؤ کے نیچے زیر کے ساتھ) سلطان اور حاکم کا معنی دیتی ہے۔ ولایت واؤ کے نیچے زیر اور اوپر زبر کے ساتھ پڑھا اور لکھا جاتا ہے۔
فیروز آبادی نے کہا ہے: اَلْوَلِیُّ قربت اور نزدیکی کے معنی میں آتا ہے، اسی سے ’’الولی‘‘ آتا ہے جو کہ دوست اور مددگار کا معنی دیتا ہے: ولی الشیء و علیہ ولایۃ و ولایۃ کسرہ کے ساتھ یہ مصدر ہے
جو کہ امارت، خطہ اور سلطان کے معنی میں آتا ہے۔ مولی مالک کوبھی کہتے ہیں اور غلام کو بھی۔ آزاد کردہ غلام کو بھی اور آزاد کرنے والے کو بھی۔ دوست اور بیٹے کو بھی۔ چچا کو اور مہمان کو بھی اور شریک کو بھی اور بھانجے کو بھی مولیٰ کہا جاتا ہے اور الولی رب، ناصر، منعم اور منعم علیہ، محب، تابع اور سسرالیوں کو کہا جاتا ہے۔‘‘
یہاں سے یہ معلوم ہوا کہ لفظ مولی، نصرت کے علاوہ دوسرے معنوں میں بھی آتا ہے، جیسا کہ سابقہ تفصیل سے معلوم ہوتا ہے۔ اب اس معنی کو صرف سلطان کے ساتھ خاص کرنا دلیل واضح کا محتاج ہے۔ مزید برآں یہ کہ مولی کو والی کے معنی پر محمول کرنا بہت مشکل ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’اس کلام میں کوئی ایسی واضح چیز نہیں ہے جس سے معلوم ہوتاہو کہ اس سے مراد خلافت ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ مولی بھی ولی کی طرح ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’تمھارے دوست تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے، وہ جو نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہ جھکنے والے ہیں ۔‘‘
اور فرمان الٰہی ہے:
’’تم دونوں اگر اللہ کی طرف رجوع کرو توضرور تمہارے دل راہ سے کچھ ہٹ گئے ہیں اور اگر ان پر زور باندھوتو بیشک اللہ ان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے، اور اس کے بعد فرشتے مدد پر ہیں ۔‘‘
پس اس سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مومنین کے ولی ہیں او مومنین آپ سے محبت کرنے والے، آپ کے تابعدار اور دوست ہیں ۔ جیسا کہ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے ولی اور دوست ہیں اور اہل ایمان اللہ تعالیٰ کے محب ، تابعدار اور دوست ہیں اور اہل ایمان آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔
پس موالات معادات کی ضد ہے یعنی دوستی دشمنی کا الٹ ہے۔ یہ دونوں اطراف سے ہوتی ہے۔ بھلے ان میں سے ایک فریق قدر ومنزلت کے اعتبار سے بہت بڑا ہو اور اس کی طرف سے دوستی احسان اور مہربانی ہو اور دوسرے کی طرف سے اطاعت اور عبادت گزاری ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان سے محبت کرتے ہیں اور اہل ایمان اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں ۔ اسی لیے کہ دوستی، دشمنی جنگ اور دھوکا بازی کا الٹ معنی دیتی ہے۔ کفار اللہ اور اس کے رسول سے محبت نہیں کرتے وہ اللہ اور اس کے رسول کے نافرمان اور ان کے دشمن ہیں ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں اس قول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب و موجب
اس میں کوئی اختلاف والی بات نہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے لیے نکلے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن میں تھے، آپ وہاں سے تشریف لائے مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی اور آپ کے ساتھ حج کیا۔ یمن میں آپ کے اور آپ کے ساتھیوں کے درمیان کئی امور پیش آئے جن کی وضاحت ان روایات سے ہوتی ہے:
۱۔ عمرو بن شماس اسلمی نے روایت کیا ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کیساتھ یمن میں تھا۔ بعض ترش رو لوگوں نے آپ کے ساتھ جفا کاری کا مظاہرہ کیا یہ بات آپ نے دل میں محسوس کی۔ جب مدینہ تشریف لائے تو اپنے ملنے والوں سے اس کی شکایت کی۔ ایک دن آپ تشریف لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے۔ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا، حتیٰ کہ وہ آپ کے پاس بیٹھ گئے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمرو بن شماس! تم نے مجھے اذیت دی ہے۔ میں نے کہا:
میں اللہ تعالیٰ کی اور اسلام کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اذیت دی، اس نے مجھے اذیت دی۔
حضرت باقر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یمن مبعوث فرمایا اور پھر وہاں پر آپ کے ایک فیصلے کا قصہ سنایا، جس میں آپ نے کسی مقتول کا خون رائیگاں قرار دیا تھا مقتول کے ورثاء یمن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور ان کی بابت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فیصلہ کی شکایت کرتے ہوئے کہنے لگے:
’’ بے شک حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہم پر ظلم کیا ہے اور ہمارے آدمی کا خون رائیگاں قرار دیا ہے۔
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ بے شک علی ظلم کرنے والے نہیں ہیں ۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حج کا ارادہ فرمایا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یمن خط بھیجا کہ وہ بھی حج کی تیاری کریں ۔ تو آپ اس لشکر کے ہمراہ نکلے جو آپ کے ساتھ یمن میں تھا۔ آپ کے ساتھ وہ زیور بھی تھا جو اہل نجران سے وصول کیا تھا۔ جب مکہ کے قریب پہنچے تو آپ نے لشکر پر ایک آدمی کو اپنا جانشین مقرر فرمایا اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لشکر کی طرف لوٹ جانے کا حکم دیا۔ جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ لوگوں نے وہ زیور پہن رکھا ہے جو ان کے پاس تھا۔ آپ نے اس بات کا انکار کیا اور وہ زیور ان سے واپس لے لیا۔ اس وجہ سے ان لوگوں نے اپنے دلوں میں کچھ تنگی محسوس کی۔ جب وہ مکہ میں داخل ہوئے تو کثرت کے ساتھ حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی شکایات کرنے لگے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منادی کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں اعلان کر دے کہ اپنی زبانوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں روک لو، بے شک وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں سخت ہیں ۔ اپنے دین میں مداہنت کرنے والے نہیں ۔
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر روانہ کیا جس کے امیر حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ اس سریہ میں چلتے رہے۔ آپ اس سریہ میں ایک باندی تک پہنچ گئے۔ لوگوں نے اس بات کا انکار کیا۔ ان میں سے چار اصحاب نے عہد کیا کہ جب ہماری ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو گی تو ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس فعل کے بارے میں بتائیں گے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان چاروں کی شکایت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روگردانی اور اس فرمان کا ذکر کیا:
اس سے صورت حال واضح ہو گئی۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ میں مبعوث فرمایا۔ جب ہم واپس آئے تو آپ نے پوچھا: تم نے اپنے ساتھیوں کو کیسا پایا؟ کہا میں نے شکایت کی یامیرے علاوہ کسی دوسرے نے شکایت کی۔ فرماتے ہیں : میں سر جھکائے ہوئے تھا۔ جب میں نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور سرخ ہو گیا تھا اور آپ فرما رہے تھے:
’’جس کا میں دوست ہوں علی رضی اللہ عنہ بھی اس کے دوست ہیں۔‘‘
آپ سے ہی ایک دوسری روایت میں ہے کہ ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ یمن میں ایک غزوہ پر تھے۔ میں نے آپ میں کچھ سختی دیکھی جب ہم واپس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے تو میں نے کچھ کوتاہی کے ساتھ شکایت کی۔ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور کا رنگ بدل گیا تھا۔
آپ نے فرمایا: اے بریدہ! کیا میں مومنین کو ان کی جانوں سے بڑھ کر عزیز نہیں ہوں ؟ میں نے کہا: کیوں نہیں ، اے اللہ کے رسول! ضرور۔ تو آپ نے فرمایا:
ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک آدمی یمن میں تھا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس پر کچھ سختی کی، اس نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپ کی شکایت کروں گا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس پہنچے تو آپ نے حضرت علی کے بارے میں پوچھا، اس نے برائی بیان کی ۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے مجھ پر کتاب نازل کی ہے اور مجھے بطور خاص رسالت کے لیے چنا ہے کہ جو کچھ تم علی بن ابی طالب کے بارے میں کہتے ہو کیا یہ ناراضی کی وجہ سے کہتے ہو؟
اس نے کہا :’’ہاں اے اللہ کے رسول! ‘‘
تو آپ نے فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں اہل ایمان کو ان کی جانوں سے بڑھ کر محبوب ہوں ؟
اس نے کہا: کیوں نہیں ، ضرور۔
تو آپ نے فرمایا:
یہ روایات دلالت کرتی ہیں کہ اس قول کا سبب وہ تھا جو ہم نے ذکر کیا ہے کہ لوگ آپ کے بارے میں شکوہ کر رہے تھے اور اس سے مراد وصیت ہرگز نہیں ہے۔ خصوصاً جب کہ آپ نے یہ کلمات اس وقت ارشاد فرمائے جب تمام حجاج متفرق ہو کر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تھے۔
امامیہ نے اپنی کتابوں میں یہ قول حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم واقعہ غدیر سے کئی برس قبل بھی متعدد بار ارشاد فرما چکے تھے ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ غدیر خم کے موقع پر یہ جملہ دوبارہ ارشاد فرمانے میں کوئی ایسی خصوصیت نہیں ہے، جو پہلے فرمائے گئے مواقع سے مختلف ہو۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب غدیرکے موقعہ پر یہ ارشاد فرمایا تو آپ کے ساتھ کثیر تعداد میں وہ لوگ موجود تھے جو آپ کے ہمراہ حج کے لیے نکلے تھے اور یمن سے واپس آنے والے بار بار علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں شکوہ کر رہے تھے۔ اس سے کچھ لوگوں کو یہ وہم ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بیان علی رضی اللہ عنہ کی امامت کے لیے تھا۔ ایسے ہی ایک روایت مواخاۃ والے دن کی بھی ہے۔ جیسا کہ ہم اس کا ذکر کر چکے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین و انصار کے مابین مواخاۃ کا رشتہ قائم کیا تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا۔ آپ روتے ہوئے اپنے گھر چلے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کوبھیج کر انھیں بلایا۔ انہوں نے جا کر کہا: اے علی! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلا رہے ہیں ۔ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم کیوں رو رہے ہیں ؟ اے ابو الحسن؟
تو انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ نے مہاجرین و انصار کے مابین مواخاۃ قائم کی، میں کھڑا آ پ کو دیکھ رہا تھا اور آپ کو میرا پتا تھا لیکن آپ نے کسی کو میرا بھائی نہیں بنایا ؟
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک میں نے تجھے اپنی ذات کے لیے ذخیرہ کر رکھا ہے۔ کیا تجھے اس بات کی خوشی نہیں ہو گی کہ تم ایک نبی کے بھائی بنو؟
انہوں نے عرض کی: کیوں نہیں اے اللہ کے رسول! لیکن میرا اتنا نصیب کہاں ؟
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر منبر پر چڑھایا اور ارشادفرمایا: اے اللہ! یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں ۔ آگاہ ہو جاؤ، اس کا مقام میرے ساتھ ایسے ہے جیسے ہارون علیہ السلام کا مقام حضرت موسیٰ کے ساتھ۔ آگاہ ہو جاؤ، جس کا میں دوست ہوں اس کا علی بھی دوست ہے۔
مواخات کا واقعہ شروع ایام ہجرت کا ہے۔
کتاب کا نام: دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین
مصنف: قسم الدراسات والبحوث جمعیۃ آل واصحاب
ناشر: دار المعرفہ ،پاکستان
مترجم: الشیخ شفیق الرحمٰن الدراوی
نمبر | عنوانات |
---|---|
1 | تحقیق من کنت مولاہ فعلی مولاہ اور افسانہ خلافت بلافصل |
2 | خواجہ قمر الدین سیالوی کی نظر میں حدیث غدیر |
3 | خطبہ غدیر خم |