عبداللہ بن عباس سے روایت ہے، عمر بن خطاب کو خبر پہنچی کہ سمرہ نے شراب بیچی۔ انہوں نے کہا: اللہ کی مار سمرہ پر، کیا اس کو خبر نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا: ”اللہ نے لعنت کی یہودیوں پر، ان پر چربی کا کھانا حرام ہوا تو چربی کو پگھلایا پھر اس کو بیچا۔
اس روایت کو بخاری نے بھی نقل کیا ہے لیکن اس صحابی کے نام کی جگہ پر فلانا لکھا ہے۔
ایک اہم نکتہ :
جیساکہ یہ روایت اہل سنت کی دوسری معتبر کتابوں میں سمرہ بن جندب کے نام کے ذکر کے ساتھ نقل ہوئی ہے ۔لیکن اہل سنت کے امام المحدثین جناب بخاری نے اس حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لئے اس شراب فروش صحابی کے نام کو ذکر کرنے کے بجاٗئے فلانا کہہ کر روایت میں تحریف کرنے کی کوشش کی ۔
صحابی تھا۔
کچھ سادہ سوالات :
کیا شراب کی تجارت کرنے والے صحابی کو عادل اور ہدایت کا ستارا کہنا صحیح ہے ؟
کیا خلیفہ دوم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث سے استدلال کر کے جس پر لعنت بھیجی اس کو ثقہ اور قابل اعتماد کہنا صحیح ہے ؟
حضرت عمر فاروق رضہ نے شراب فروخت کرنے والے کو بدعا دی کیا فلاں شخص سے مراد کوئی اور صحابہ ہے ؟ شیعہ صحابہ کہتے ہیں اس پر اہل علم لوگ روشنی ڈالیں
Sahih Bukhari - 2223
کتاب:کتاب خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
باب:مردار کی چربی گلانا اور اس کا بیچنا جائز نہیں
عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ فلاں شخص نے شراب فروخت کی ہے، تو آپ نے فرمایا کہ اسے اللہ تعالیٰ تباہ و برباد کر دے۔ کیا اسے معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، اللہ تعالیٰ یہود کو برباد کرے کہ چربی ان پر حرام کی گئی تھی لیکن ان لوگوں نے اسے پگھلا کر فروخت کیا۔
سوال: مسند حمیدی میں سیدنا سمرہ بن جندب رضی الله عنه سے متعلق ہے کہ وہ شراب کا کاروبار کیا کرتے تھے۔ سیدنا عمرؓ نے ان کیلئے بد دعا بھی کی، تنبیہ بھی کی، کیا یہ عدالت صحابہؓ پر مضبوط اعتراض نہیں؟ اس کا جواب در کار ہے
جواب:
پہلی بات یہ ذہن میں رکھیں کہ عدالت صحابہ کا نظریہ صحابہ کرام کی عصمت کی بنیاد پر نہیں ہے۔ اہل سنت کے نزدیک صحابہ کرام سے بشری تقاضوں کے تحت کبھی کبھار خطائیں بھی ہوئی ہیں، لیکن بنص قرآن اللہ عزوجل نے ان لغزشوں کو معاف فرما کر تمام صحابہ کرام سے جنت کا وعدہ فرمادیا ہے۔
دوسری بات مسند حمیدی کی اس روایت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ شراب کا کاروبار کرتے تھے، اگرچہ یہی روایت صحیح بخاری میں بھی ہے لیکن وہاں حضرت سمرہ کا نام بیان نہیں ہوا۔ یہ واقعہ دراصل حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور کا ہے۔عہد فاروقی میں ایک عامل (کچھ روایات کے مطابق حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ)نے ایک ذمی (وہ مشرک یا اہل کتاب، جو اسلامی حکومت کی امان میں رہتا ہو اور اس نے شرائط ذِمّہ (جزیہ) کو قبول کر لیا ہو، جزیہ گزار ) سے جو شراب فروش تھا اور وہ شراب لے کر جارہا تھا، اس شراب پر ٹیکس وصول کرلیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس واقعہ کی اطلاع پا کر ناراضگی کا اظہار کیا اور اس کی مذمت کرتے ہوئے آپ رض نے یہ حدیث سنائی ۔ حضرت سمرہ بن جندب شراب کی حرمت کے قائل تھے لیکن انہیں اس مسئلے کا علم نہ تھا کہ شراب سے متعلق ہر قسم کا کاروبار ایک مسلمان کے لئے قطعا حرام ہے ۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ محرمات منصوصہ کوحلال بنانے کے لئے کوئی حیلہ ، بہانہ تراشنا، یہ فعل یہود ہے،اللہ ہر مسلمان کو اس سے محفوظ رکھے ۔ آمین۔
ابن جوزی اور قرطبی وغیرھا لکھتے ہیں کہ حضرت سمرہ کی اس بیع خمر کی کیفیت کے بیان میں تین اقوال ہیں:
ایک یہ کہ اہل کتاب سے بطور جزیہ اسے وصول کر کے، جائز سمجھتے ہوۓ فروخت کر دیا، ابن ناصر سے بھی یہی منقول ہے۔ ان حضرات نے اسے راجح قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ مناسب یہ تھا کہ انہی کو کہتے کہ اسے بیچ کر اس کی قیمت بطور جز میں دے دیں ۔
دوسرا قول جسے خطابی نے ذکر کیا ہے یہ کہ دراصل انہوں نے وہ عصیر بیچا تھا جس سے
شراب بنائی جاتی تھی ۔ کہتے ہیں یہ ممکن نہیں کہ عین شراب فروخت کی ہو حالانکہ اس کی تحریم بیع عام ہو چکی تھی ۔
تیسرا قول یہ ہے کہ انہوں نے شراب کو مخلل کر کے (یعنی اس میں سرکہ ڈالکر اسکی صفت اسکار ختم کر دی ) بیچا تھا۔ حضرت عمر کی رائے تھی کہ یہ بھی جائز نہیں ، اکثر علماء یہی رائے رکھتے ہیں جب کہ سمرہ وغیرہ بعض کا اعتقاد تھا تخلیل خمر حلال ہے ۔
قرطبی نے بھی پہلے قول کو اشبہ (یعنی اربح ) قرار دیا ہے ۔ ابن حجر لکھتے ہیں لازم نہیں کہ یہ شراب جزیہ کے ذریعہ سے ملی ہو، اموال غنیمت میں سے ہونا بھی محتمل ہے، اسماعیلی نے یہ توجیہہ ذکر کی ہے کہ حضرت سمرہ کو حرمت خمر کا تو علم تھاممکن ہے حرمت بیع خمر کا علم نہ ہو، اسی لئے حضرت عمر نے صرف زبانی مذمت کی کوئی سزا نہ دی۔
ابن حجر لکھتے ہیں میں نے کہیں نہیں پڑھا کہ سمرہ حضرت عمر کی طرف سے امور مملکت میں سے کسی معاملہ کے عامل تھے مگر ابن جوزی نے لکھا ہے کہ وہ ان کی طرف سے عامل بصرہ تھے مگر یہ وہم ہے۔ بصرہ کے عامل وہ زیاد اور اس کے بیٹے عبید اللہ کی طرف
سے بنے تھے یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت عمر کے کسی عامل نے حضرت سمرہ کو جزیہ کی وصولی پر مقرر کیا ہو۔