معزز قارئین ہمارے اھلسنت برادران نے نجانے معاویہ میں ایسا کیا دیکھا ہے کہ اسکے گیت گاتے رہتے ہیں، حالانکہ معاویہ کے کالے کارنامے تاریخ اھلسنت و کتب احادیث اھلسنت میں روز روشن کی طرح عیاں ہیں ان ہی کالے کارناموں میں معاویہ کا ایک کارنامہ بتوں کی تجارت کرنا بھی ہے، جسے اللہ و رسول ص نے حرام قرار دیا پہلے ہم اہلسنت کے قدیم عالم طبری کی کتاب تہذیب الآثار سے روایت نقل کرتے ہیں اسکے بعد ہم بتوں کی تجارت کتاب اھلسنت سے حرام ثابت کریں گے ملاحظہ کیجیے روایت:
ترجمہ:
ابووائل کہتا ہے کہ میں مسروق کے ساتھ تھا ایک کشتی گذری جس میں سونے چاندی کے بنے ہوئے بت تھے، جسے معاویہ تجارت کے لئے ہندوستان بھیج رہا تھا۔ تب مسروق نے کہا اگر مجھے یقین ہوتا کہ یہ مجھے قتل کردیں گے تو میں یہ پوری کشتی کو غرق کردیتا لیکن میں آزمائش سے ڈرتا ہوں ۔
سند روایت
راوی اوّل:
راوی دوم:
راوی سوم:
راوی چہارم:
راوی پنجم:
صحیح بخاری کے مطابق اللہ و رسول ﷺ نے بتوں کی تجارت کو حرام قرار دیا ہے۔
بخاری نے اپنی صحیح میں روایت نقل کی ہے کہ :
ترجمہ:
اللہ اور رسول نے شراب ، مردار، سور اور بتوں کا بیچنا حرام قرار دے دیا ہے۔
بخاری کی روایت نے تبصرہ کردیا ہے۔ اس لیے ہمارہ تبصرہ بنتا نہیں ہے۔ یعنی یہ ثابت ہوا کہ معاویہ حرام کاموں کو انجام دیتا تھا۔
والســلام
شیعہ رافضی کا دجل و فریب ملاحظہ فرمائیں کہ کس طرح کمال فنکاری سے ترجمے میں خیانت کر کے عوام کو دھوکہ دیا ہے۔
روایت میں کہیں بھی نہیں لکھا کہ بت فروشی کرنا حضرت امیر معاویہؓ کا پیشہ تھا یا وہ بطور تجارت بتوں کی خرید و فروخت کرتے تھے۔
یہ چالاکیاں صرف شیعہ حضرات کے ہاں ملیں گی کہ وہ روایات کا غلط ترجمہ یا اس کا اصل مفہوم اس طرح بدل دیں گے کہ عام لوگ پریشان ہوکر صحابہ کرام سے بدظن ہوجائیں۔ ایسا کرنا ان کی مجبوری بھی ہے اگر وہ دین اسلام کے اولین راویوں کی شان و عظمت تسلیم کر لیں تو پھر سارے جھگڑے ہی ختم ہوجائیں۔قرآن و سنت کی ان کے ہاں کوئی اہمیت نہیں ہے، ان کے نزدیک تو چوتھی صدی میں تصنیف کی گئی کتب ہی دین کا اصل ماخذ ہیں۔
اب آتے ہیں اصل اعتراض کی طرف۔۔ مذکورہ روایت کی سند و متن سے اعتراض کا رد
شیعہ رافضی نے طبری کی ایک روایت سے حضرت معاویہؓ کی شان میں گستاخی کی کوشش کی ہے۔
روایت یہ ہے کہ اعمش کہتے ہیں کہ ابو وائل نے کہا کہ میں مسروق کے ساتھ تھا پس ایک کشتی گذری جس میں سونے چاندی کے بت تھے جس کو حضرت امیر معاویہ نے ہندوستان فروخت کرنے کے لیے بھیجا تھا، تو مسروق نے کہا کہ اگر میں جان لیتا کہ وہ مجھے قتل کر دیں گے تو میں اس کو غرق کر دیتا لیکن میں فتنہ سے ڈرتا ہوں ۔
جواب:
بلا ذری نے بھی
اس کو نقل کیا ہے لیکن ان دونوں کے علاوہ کسی نے بھی اپنی کتاب میں اس کو نقل نہیں کیا حتی کہ روافض کی کتابوں میں بھی یہ روایت نہیں ملتی ۔
یہ روایت سنداً ومتناً دونوں طرح صحیح نہیں ہے ۔
روایت پرسندا کلام ہے
اس روایت میں امام اعمش کا عنعنہ ہے اور امام اعمش مدلس ہیں علاوہ ازیں ان پر تشیع کا دھبہ ہے۔
" امام احمد نے فرمایا و شخص کس قدر غلیظ شیعہ ہوگا جو یہ کہتا ہو کہ حضرت معاویہ بتوں کی تجارت کرتے تھے۔
نیز اس روایت کو مصنف ابن ابی شیبہ ( رقم 22684) نے نقل کیا ہے ، لیکن اس میں حضرت معاویہ کا ذکر نہیں ہے ۔
حضرت معاویہ کے بارے میں مسروق کا یہ قول اس لیے بھی بعید معلوم ہوتا ہے که مسروق معاویہ کے بلند مقام کو بہتر طریقے پر ملحوظ رکھتے تھے جب بعض مسائل میں معاویہ نے مسلمانوں کو کافر کا وارث قرار دیا اور کافر کو مسلمان کا وارث نہیں بنایا تو اس مسئلہ پر مسروق نے کہا
(اسلام کے اندر (اس مسئلہ میں اس سے زیادہ پسند یدہ فیصلہ نہیں ہے
معلوم ہوا مسروق حضرت امیر معاویہؓ کے فیصلوں کو پسند کرتے تھے ان کو کسی قسم کا عناد اور رنجیش نہیں تھی ۔ خلیفہ ابن خیاط لکھتے ہیں کہ
قاضی شریح جب کوفہ سے بصرہ گئے تو حضرت معاویہ کی طرف سے ان کے قائم مقام مسروق کو کوفہ کا قاضی بنایا گیا‘‘
اگر وہ معاویہؓ کو قابل اعتراض سمجھتے تو منصب قضا قبول نہیں کرتے ۔
نیز مذکورہ روایت میں حضرت مسروق نے حضرت معاویہؓ کی طرف سے ظلم و زیادتی کے اندیشے کو ظاہر کیا جبکہ حضرت معاویہ حق گوئی کی پاداش میں ظلم و زیادتی روا نہیں رکھتے تھے مذکورہ روایت کے راوی اعمش نے خود معاویہ کے عدل وانصاف کے معاملے کو بڑی اہمیت دی ہے۔
جبکہ طبری کی روایت میں یہ ہے کہ ان کشتیوں میں ہدایا تھے ۔
مدلس کی عن والی روایت اہل سنت کے ہاں قابل حجت نہیں۔۔۔
مسئلہ یہ ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو بدنام کرنے والے پہلے درجے کے بت پرست ہیں، قبریں، چٹانیں، تصویریں، مجسمے اور زندہ انسان کچھ بھی نہیں چھوڑا! شیعہ حضرات پہلے جا کر اپنا گھر صاف کریں، پھر دوسروں کے گھروں پر پتھر پھینکیں!