مرزا علی انجینئر اور اسکے مقلدین آج کل اکثر یہ جَذْباتی سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ:
"اگر آپ اس دور میں ہوتے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے گروہ میں ہوتے یا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ میں ہوتے؟"
یہ لوگ جب ان گروہوں کے حوالے سے سوال پوچھتے ہیں تو تیسرے گروہ کو چھپا جاتے ہیں اسکا ذکر تک نہیں کرتے۔
کیوں کہ اس دور میں دو گروہ نہیں بلکہ تین گروہ تھے
1⃣: سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا گروہ
2⃣: سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ گروہ
3⃣: صحابہ کا تیسرا گروہ (جو ان میں سے کسی کے ساتھ بھی نہیں تھا)
اب سوال اسطرح بنتا ہے
آپ اس دور میں ہوتے تو کس گروہ میں ہوتے, سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے گروہ میں, سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ میں, یا صحابہ کرام کے تیسرے گروہ میں جسکی تعداد بھی سب سے زیادہ تھی
اب اگر دیکھا جائے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث تیسرے گروہ کے ساتھ کھڑی ہیں تو بے شک معاویہ رضی اللہ عنہ یا علی رضی اللہ عنہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث جس گروہ کے ساتھ ہیں اسی گروہ میں شامل ہونا سب سے افضل ہے کیوں رسول اللہ ﷺ وہی کہتے ہیں جو اللہ کی طرف سے وحی ہوتی یے
جو صحابہ کرام تیسرے گروہ میں تھے انکے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی کچھ احادیث تھیں
1⃣: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی ان صحابہ میں شامل تھے جنہوں نے جنگ صفین میں کسی گروہ کا ساتھ نہیں دیا تھا اسکی وجہ یہ تھی کہ انکے سامنے رسول اللہ ﷺ کی نصیحت موجود تھی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”فتنوں کا دور جب آئے گا تو اس میں بیٹھنے والا کھڑا رہنے والے سے بہتر ہو گا، کھڑا رہنے والا چلنے والے سے بہتر ہو گا اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہو گا جو اس میں جھانکے گا فتنہ بھی اسے اچک لے گا اور اس وقت جسے جہاں بھی پناہ مل جائے بس وہیں پناہ پکڑ لے تاکہ اپنے دین کو فتنوں سے بچا سکے۔“
♦️: یہ حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے علم میں تھی کہ فتنوں کے دور میں خود کو اس سے دور رکھنا ہے اس لیے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس جنگ میں کسی گروہ کا بھی ساتھ نہیں دیا تھا
2⃣: حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے بھی جنگ صفین میں نہ علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا نہ معاویہ رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا اور یہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کوئی عام صحابی نہیں تھے بلکہ رسول اللہ ﷺ کے بہت محبوب تھے
رسول اللہ ﷺ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ, دونوں کو گود میں اٹھا لیتے اور فرماتے: اے اللہ! تو انہیں اپنا محبوب بنا کہ میں ان سے محبت کرتا ہوں۔
اسکے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا:
اسامہ رضی اللہ عنہ مجھے بہت عزیز ہے (صحیح بخاری:3730)
انہی اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک ساتھی حرملہ کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا اور کہا کہ اگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ تم سے سوال کریں کہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے جنگ صفین میں میرا ساتھ کیوں نہیں دیا تو انکو میری طرف سے کہنا کہ
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ اگر شیر کے منہ میں بھی ہوں تب بھی میں انکے ساتھ ہوں لیکن چونکہ یہ جنگ صحابہ کی آپسی جنگ تھی اس لیے میرے نزدیک یہ صحیح نہیں
(صحیح بخاری:7110)
3⃣: سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جو کہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں یہ بھی اسی تیسرے گروہ میں تھے جنہوں نے نہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ساتھ دیا نہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا اور انکے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سعد جنتی ہے(ترمزی:3747)
انہی سعد رضی اللہ عنہ سے کسی نے سوال کیا آپ لڑائی میں شرکت کیوں نہیں کر رہے تو سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مل کر فتنہ ختم کرنے کی خاطر جنگ لڑتے تھے جبکہ تم اور تمہارے ساتھی فتنہ برپا کرنے کی خاطر لڑنا چاہتے ہو ۔
4⃣: محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ یہ بھی صحابہ کے تیسرے گروہ میں شامل تھے انہوں نے بھی جنگ صفین میں کسی کا بھی ساتھ نہیں دیا کیوں کہ انکے پاس رسول اللہ ﷺ کی حدیث تھی
محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں بے شک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا :’’ عنقریب فتنہ ، افتراق اور اختلاف ( رونما ) ہو گا ۔ جب یہ صورت حال پیش آئے تو اپنی تلوار لے کر احد پہاڑ پر چڑھ جانا اور اسے ( پہاڑ کے پتھروں پر ) مار کر توڑ دینا ۔ پھر گھر میں بیٹھ رہنا حتی کہ تجھ تک کوئی گناہ گار ہاتھ پہنچ جائے یا فیصلہ کر دینے والی موت آ جائے ۔‘‘
( محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ) تحقیق فتنہ واقع ہو چکا اور میں نے وہی کچھ کیا جو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا ۔
(ابن ماجہ:3962)
غور فرمائیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں جب فتنہ رونما ہو یعنی صحابہ کی آپس میں جنگیں ہوں تو احد پہاڑ پر چڑھ جانا اور اپنی تلوار پہاڑ پر مار مار کر توڑ دینا تاکہ تیری تلوار کسی صحابی پر نہ اٹھ سکے
جبکہ "مرزا محمد علی انجینئر" کہتا ہے کہ اگر اس دور میں ہم زندہ ہوتے تو معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ کے خلاف تلوار اٹھا لیتے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس فتنے سے بچنے کی تلقین فرما رہے ہیں اور اپنی تلواریں توڑ دینے کا حکم دے رہے ہیں کہ اسی میں بھلائی یے
♦️: باقی اب آپ غور فرما لیں اس دور میں آپ ہوتے تو کس گروہ میں ہونا بہتر سمجھتے
یا ان جنگوں سے بچ کر اپنی تلواریں توڑ دینے والے تیسرے گروہ میں ہوتے جنکے ساتھ احادیث کھڑی تھیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت و تاکید بھی تھی کہ چھپ کر بیٹھ جانا, پہاڑ پہ چڑھ جانا, تلوار توڑ دینا لیکن ان فتنوں سے بچ کر رہنا اسی لیے محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں بلکل سب ایسے ہی ہوا جب لڑائی ہوئی یعنی فتنہ رونما ہوا تو میں نے وہی کچھ کیا جو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا اور میں گھر بیٹھا رہا
5⃣: سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا آپ یہ جو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف اتنا بڑا قدم اٹھانے جا رہے ہیں کیا آپ کے پاس رسول اللہ ﷺ کا کوئی فرمان ہے یا آپکی اپنی ذاتی رائے ہے؟
علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:
مجھے رسول اللہ ﷺ نے کچھ نہیں فرمایا ، بلکہ یہ میری اپنی ذاتی رائے ہے ۔
(ابو داؤد:4666)
♦️: غور فرمائیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ یہ نہیں فرما رہے کہ میرے پاس کوئی نص ہے بلکہ وہ اسے اپنا اجتہاد کہ رہے ہیں جبکہ جو تیسرا گروہ ہے انکے پاس کئی احادیث ہیں اور انہی احادیث کی بنیاد پر انہوں نے ان جنگوں میں شرکت نہیں کی اور خود کو دور رکھا اور ان جنگوں سے دور رہنے کی نصحیت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی کہ اپنی تلواریں توڑ دینا گھروں میں بیٹھے رہنا ان فتنوں سے بچ کر رہنا
اب دیکھیں نبی صلی اللہ نے یہ فرمایا تھا کہ صحابی کے سر پر تلوار رکھ دینا جیسا مرزا علی انجینئر نے کہا کہ میں ہوتا تو معاویہ رضی اللہ عنہ پر تلوار رکھ دیتا یا یہ فرمایا تھا کہ اپنی تلوار پہاڑ پہ رکھ دینا؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تو یہی نصیحت ہے کہ تلوار پہاڑ پہ رکھ کر توڑ دینا, باقی یہ فیصلہ اب آپ کر لو کہ تلوار کدھر رکھنی یے پہاڑ پہ یا کسی صحابی کے سر پہ