Sunni Library



کیا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے بد دعا دی۔؟

جعفر صادق


کیا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے بد دعا دی۔؟

بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے بد دعا دی۔
چنانچہ مسلم شریف کی حدیث لاتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار مجھے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حکم دیا کہ امیر معاویہؓ کو بلاؤ میں بلانے گیا تو وہ کھانا کھارہے تھے ۔ میں نے آ کر عرض کر دیا پھر حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کہ امیر معاویہ کو بلاؤ۔ جب میں گیا تو وہ کھانا کھا رہے تھے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم! وہ کھارہے ہیں۔ تو فرمایا ان کا پیٹ نہ بھرے۔ اور حضور علیہ السلام کی دعا بھی قبول ہے بددعا بھی۔ چنانچہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو حضور علیہ السلام کی بددعا لگی ہے ۔ اس کا جواب دیں ۔

جواب...

اعتراض کرنے والے نے اس حدیث کو سمجھنے میں غلطی کی ۔ کم از کم اتنی ہی بات سمجھ لی ہوتی کہ جو حضورﷺ گالیاں دینے والوں کو معاف کر دیتے ، وہ حضورﷺ اس موقعہ پر حضرت امیر معاویہؓ کو بلا قصور کیوں بد دعا دیتے؟

تیسری بات یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہا نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ کہا بھی نہیں کہ آپ کو
سرکار صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بلا رہے ہیں۔ صرف دیکھ کر خاموش واپس آئے اور حضور علیہ السلام سے واقعہ عرض کیا۔


چوتھی بات یہ ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا نہ کوئی قصور تھا، نہ کوئی خطا اور حضور علیہ اسلام یہ بددعا دیں، یہ ناممکن ہے۔


اب اعتراضات کے جوابات سنتے ہیں کہ عرب میں محاورہ اس قسم کے الفاظ پیار و محبت کے موقع پر بھی بولے جاتے ہیں
ان سے بددعا مقصود نہیں ہوتی ۔
مثلا تیرا پیٹ نہ بھرے، تجھے تیری ماں روئے وغیرہ کلمات غضب کیلئے نہیں بلکہ کرم کیلئے ارشاد ہوئے ہیں اور اگر مان بھی لیا جائے کہ سرکار علیہ السلام نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو بد دعا دی تو بھی یہ بددعا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے نتیجے میں رحمت بنی اللہ تعالی نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو اتنا بھرا اور اتنا مال دیا کہ انہوں نے سینکڑوں کا پیٹ بھر دیا۔

 ایک ایک شخص کو بات بات پر لاکھوں لاکھوں روپیہ انعام دیئے۔ کیونکہ حضور علیہ السلام نے اپنے رب عز وجل سے عہد لیا تھا کہ مولى عزوجل ! اگر میں کسی مسلمان کو بلا وجہ لعنت یا بد دعا کروں تو اسے رحمت اجر اور پاکی کا ذریعہ بنا دینا۔
حدیث .....

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے کتاب الدعوات میں حدیث ہے کہ فرمایا حضور علیہ السلام نے کہ اے اللہ! جس کسی کو برا کہہ دوں تو قیامت میں اس کیلئے اس بد دعا کو قرب کا ذریعہ بنا۔ (بحوالہ مسلم شریف)

اب سمجھ میں آ گیا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پر لگائے گئے سارے الزامات بے بنیاد ہیں اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کاتب وحی ، عاشق رسول اور جید صحابی رسول ہیں۔

 


*اللہ تعالیٰ ان کے پیٹ کو نہ بھرے۔“

[صحيح مسلم : 325/2، ح : 2604]*

*یہ حدیث سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت بیان کرتی ہے۔ اس سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی تنقیص ثابت نہیں ہوتی، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کلام بطور بددعا نہیں تھا، بلکہ بطور مزاح اور بطور تکیہ کلام تھا۔ کلامِ عرب میں ایسی عبارات کا بطور مزاح یا بطورِ تکیہ کلام استعمال ہونا ایک عام بات ہے۔ عربی لغت و ادب کے ادنیٰ طلبہ بھی اس سے واقف ہیں۔*

*◈ مشہورلغوی، ابومنصور، محمد بن احمد، ازہری (م : 370 ھ) ایسے کلمات کے بارے میں : مستند لغوی ابوعبید سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :*

*وهٰذا علٰي مذهب العرب فى الدعائ على الشيئ من غير إرادة لوقوعه، لا يراد به الوقوع .*

*’’ ایسی باتیں عربوں کے اس طریقے کے مطابق ہیں، جس میں وہ کسی کے بارے میں بددعاکرتے ہیں لیکن اس کے وقوع کا ارادہ نہیں کرتے، یعنی بددعا کا پورا ہو جانا مراد ہی نہیں ہوتا۔“

[تهذيب اللغة : 145/1]*

سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا جو کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی والدہ تھیں، ان کے ہاں ایک لڑکی، تھی۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکی کو دیکھا تو فرمایا : یہ تو ہے ؟ تو تو بڑی ہو گئی ہے۔ تیری عمر بڑی نہ ہو۔ یہ سن کر وہ لڑکی روتی ہوئی سیدہ ام سلیم کی طرف دوڑی۔ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے پوچھا : بیٹی ! تجھے کیا ہوا ؟ اس نے عرض کیا : میرے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بددعا فرما دی ہے کہ میری عمر نہ بڑھے۔ اب تو میری عمر کبھی نہیں بڑھے گی۔ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا جلدی سے اپنی چادر زمین پر گھسیٹتے ہوئے گئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ام سلیم ! آپ کو کیا ہوا ؟ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے نبی ! آپ نے اس لڑکی کے لیے بددعا فرمائی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بات کیا ہے ؟ عرض کیا : لڑکی کہتی ہے کہ آپ نے اس کو یہ بددعا دی ہے کہ اس کی عمر نہ بڑھے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا : ام سلیم ! کیا آپ کو معلوم ہے کہ میں نے اپنے رب سے یہ شرط منظور کرائی ہے اور دُعا کی ہے کہ *میں ایک انسان ہوں، انسانوں کی طرح راضی بھی ہوتا ہوں اور ناراض بھی۔*

*لہٰذا جس کے لیے بھی میں بددعا کر دوں جس کا وہ مستحق نہ ہو، تو اس بددعا کو اس کے لیے گناہوں سے پاکیزگی اور طہارت بنا دے، نیز اس بددعا کو روزِ قیامت اپنے تقرب کا ذریعہ بنا دے۔“

[صحيح مسلم : 2603]

*شارحِ صحیح بخاری، علامہ ابن بطال رحمہ اللہ (م : 449 ھ) اس طرح کی ایک عبارت کے بارے میں فرماتے ہیں :*

*هي كلمة لا يراد بها الدعائ، وإنما تستعمل فى المدح، كما قالوا للشاعر، إذا أجاد، : قاتله الله، لقد أجاد .*

*’’ یہ ایسا کلمہ ہے کہ اس سے بددعا مراد نہیں ہوتی۔ اسے صرف تعریف کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جیسا کہ جب کوئی شاعر عمدہ شعر کہے تو عرب لوگ کہتے ہیں : قاتله الله ”اللہ تعالیٰ اسے مارے“، اس نے عمدہ شعر کہا ہے۔“

[شرح صحيح البخاري : 329/9]*


( "اللہ؛ معاویہ کا پیٹ نہ بھرے "حدیث سے مرزا اور اسکے حواریوں کا باطل استدلال)

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كُنْتُ أَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَوَارَيْتُ خَلْفَ بَابٍ قَالَ فَجَاءَ فَحَطَأَنِي حَطْأَةً وَقَالَ اذْهَبْ وَادْعُ لِي مُعَاوِيَةَ قَالَ فَجِئْتُ فَقُلْتُ هُوَ يَأْكُلُ قَالَ ثُمَّ قَالَ لِيَ اذْهَبْ فَادْعُ لِي مُعَاوِيَةَ قَالَ فَجِئْتُ فَقُلْتُ هُوَ يَأْكُلُ فَقَالَ لَا أَشْبَعَ اللَّهُ بَطْنَهُ .

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ ،: میں لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے ، میں دروازے کے پیچھے چھپ گیا ، کہا : آپ آئے اور میرے دونوں شانوں کے درمیان اپنے کھلے ہاتھ سے ہلکی سی ضرب لگائی ( مقصود پیار کا اظہار تھا ) اور فرمایا : " جاؤ ، میرے لیے معاویہ کو بلا لاؤ ۔ " میں نے آپ سے آ کر کہا : وہ کھانا کھا رہے ہیں ۔ آپ نے دوبارہ مجھ سے فرمایا : " جاؤ ، معاویہ کو بلا لاؤ ۔ " میں نے پھر آ کر کہا : وہ کھانا کھا رہے ہیں ، تو آپ نے فرمایا : " اللہ اس کا پیٹ نہ بھرے ۔ "

رواہ مسلم ۔ ح:6628.

اس روایت میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ( اللہ اس کے پیٹ کو نہ بھرے) اس سے کچھ ھواء پرست لوگ یہ دلیل لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ الفاظ معاویہ کی مذمت اور انکے بد دعا ہے ۔

حالانکہ حقیقت پر غور کیا جائے تو یہ الفاظ معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت کو بیان کر رہے ہیں کیونکہ امام مسلم رحمہ اللہ بھی اس حدیث سے فضل معاویہ سمجھے ہیں تبھی تو اس روایت کو ان احادیث کے ساتھ لائے ہیں جن کے الفاظ ہیں۔

اللَّهُمَّ إنَّما أنا بَشَرٌ، فأيُّما رَجُلٍ مِنَ المُسْلِمِينَ سَبَبْتُهُ، أوْ لَعَنْتُهُ، أوْ جَلَدْتُهُ، فاجْعَلْها له زَكاةً ورَحْمَةً. وفي روايةٍ: عَنِ النبيِّ ﷺ، مِثْلَهُ، إلّا أنَّ فيه زَكاةً وأَجْرًا۔

صحيح مسلم2601.

ترجمہ:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اےاللہ میں انسان ہوں جس بھی مسلمان شخص کومیں نےبرا بھلا بولا ؛ یا اس پر لعنت کی یا اسے سزا دی تو اس کو اس کے لئے گناہوں سے کفارہ اور رحمت بنا دے ایک روایت میں ہے کہ اس کے لیے اجر بنا دے ۔

اسی طرح یہ واقعہ بھی مسلم شریف میں اسی ضمن میں موجود ہے

قال حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ كَانَتْ عِنْدَ أُمِّ سُلَيْمٍ يَتِيمَةٌ وَهِيَ أُمُّ أَنَسٍ فَرَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيَتِيمَةَ فَقَالَ آنْتِ هِيَهْ لَقَدْ كَبِرْتِ لَا كَبِرَ سِنُّكِ فَرَجَعَتْ الْيَتِيمَةُ إِلَى أُمِّ سُلَيْمٍ تَبْكِي فَقَالَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ مَا لَكِ يَا بُنَيَّةُ قَالَتْ الْجَارِيَةُ دَعَا عَلَيَّ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا يَكْبَرَ سِنِّي فَالْآنَ لَا يَكْبَرُ سِنِّي أَبَدًا أَوْ قَالَتْ قَرْنِي فَخَرَجَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ مُسْتَعْجِلَةً تَلُوثُ خِمَارَهَا حَتَّى لَقِيَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَكِ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ فَقَالَتْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَدَعَوْتَ عَلَى يَتِيمَتِي قَالَ وَمَا ذَاكِ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ قَالَتْ زَعَمَتْ أَنَّكَ دَعَوْتَ أَنْ لَا يَكْبَرَ سِنُّهَا وَلَا يَكْبَرَ قَرْنُهَا قَالَ فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ أَمَا تَعْلَمِينَ أَنَّ شَرْطِي عَلَى رَبِّي أَنِّي اشْتَرَطْتُ عَلَى رَبِّي فَقُلْتُ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أَرْضَى كَمَا يَرْضَى الْبَشَرُ وَأَغْضَبُ كَمَا يَغْضَبُ الْبَشَرُ فَأَيُّمَا أَحَدٍ دَعَوْتُ عَلَيْهِ مِنْ أُمَّتِي بِدَعْوَةٍ لَيْسَ لَهَا بِأَهْلٍ أَنْ يَجْعَلَهَا لَهُ طَهُورًا وَزَكَاةً وَقُرْبَةً يُقَرِّبُهُ بِهَا مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ۔ رواہ مسلم 6627.

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس ایک یتیم لڑکی تھی اور یہی ( ام سلیم رضی اللہ عنہا ) ام انس بھی کہلاتی تھیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھا تو فرمایا : "" تو وہی لڑکی ہے ، تو بڑی ہو گئی ہے! تیری عمر بڑی نہ ہو "" وہ لڑکی روتی ہوئی واپس حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس گئی ، حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے پوچھا : بیٹی! تجھے کیا ہوا؟ اس نے کہا : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے خلاف دعا فرما دی ہے کہ میری عمر زیادہ نہ ہو ، اب میری عمر کسی صورت زیادہ نہ ہو گی ، یا کہا : اب میرا زمانہ ہرگز زیادہ نہیں ہو گا ، حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا جلدی سے دوپٹہ لپیٹتے ہوئے نکلیں ، حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا : "" ام سلیم! کیا بات ہے؟ "" حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا : اللہ کے نبی! کیا آپ نے میری ( پالی ہوئی ) یتیم لڑکی کے خلاف دعا کی ہے؟ آپ نے پوچھا : "" یہ کیا بات ہے؟ "" حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا : وہ کہتی ہے : آپ نے دعا فرمائی ہے کہ اس کی عمر زیادہ نہ ہو ، اور اس کا زمانہ لمبا نہ ہو ، ( حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ) کہا : تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے ، پھر فرمایا : "" ام سلیم! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں نے اپنے رب سے پختہ عہد لیا ہے ، میں نے کہا : میں ایک بشر ہی ہوں ، جس طرح ایک بشر خوش ہوتا ہے ، میں بھی خوش ہوتا ہوں اور جس طرح بشر ناراض ہوتے ہیں میں بھی ناراض ہوتا ہوں ۔ تو میری امت میں سے کوئی بھی آدمی جس کے خلاف میں نے دعا کی اور وہ اس کا مستحق نہ تھا تو اس دعا کو قیامت کے دن اس کے لیے پاکیزگی ، گناہوں سے صفائی اور ایسی قربت بنا دے جس کے ذریعے سے تو اسے اپنے قریب فرما لے ۔ ""

اس حدیث کے حوالے سے امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا :

قد فهم مسلم رحمه الله من هذا الحديث أن معاوية لم يكن مستحقا للدعاء عليه ، فلهذا أدخله في هذا الباب.

امام مسلم رحمہ اللہ اس حدیث سے یہی سمجھیں ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اس بد دعا کے کبھی بھی مستحق نہیں تھے تبھی اس روایت کو اس باب کے اندر ذکر فرمایا ہے۔

إمام ابن كثير رحمه اللہ تعالیٰ فرماتا ہیں

(وكان من خصائصه أنه إذا سب رجلا ليس بذلك حقيقًا، يُجعلُ سَبُّ رسول الله صلى الله عليه وسلم كفارة عنه)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے یہ بھی ہے کہ آپ اگر کسی کو (سب) یعنی برا بھلا بولتے ہیں یہ اس کے لئے حقیقی معنی میں مراد نہیں ہوتا بلکہ یہ سب اس کے لیے ( گناہوں کا )کفار ہو جائے گا .

(الفصول في سيرة الرسول صلى الله عليه وسلم 385)

علامہ ابن بطال رحمہ اللہ تعالیٰ اس طرح کی ایک عبارت کے بارے میں فرماتے ہیں : ہِيَ کَلِمَۃٌ لَّا یُرَادُ بِہَا الدُّعَائُ، وَإِنَّمَا تُسْتَعْمَلُ فِي الْمَدْحِ، کَمَا قَالُوا لِلشَّاعِرِ، إِذَا أَجَادَ، : قَاتَلَہُ اللّٰہُ، لَقَدْ أَجَادَ ۔

’’یہ ایسا کلمہ ہے کہ اس سے بددعا مراد نہیں ہوتی اسے صرف تعریف کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جیسا کہ جب کوئی شاعر عمدہ شعر کہے تو عرب لوگ کہتے ہیں : قَاتَلَہُ اللّٰہُ (اللہ تعالیٰ اسے مارے)،اس نے عمدہ شعر کہا ہے۔‘‘

(شرح صحیح البخاري : 329/9)

اسی طرح ابن كثير رحمۃ اللہ علیہ " البداية والنهاية " میں حضرت معاوية بن أبي سفيان رضي الله عنهما کے ترجمے میں بہت ہی خوبصورت ترین بات فرماتے ہیں:

وقد انتفع معاوية بهذه الدعوة في دنياه وأخراه ؛ أما في دنياه : فإنه لما صار إلى الشام أميراً، كان يأكل في اليوم سبع مرات يجاء بقصعة فيها لحم كثير وبصل فيأكل منها ، ويأكل في اليوم سبع أكلات بلحم ، ومن الحلوى والفاكهة شيئاً كثيراً ، ويقول : والله ما أشبع وإنما أعيا، وهذه نعمة ومعدة يرغب فيها كل الملوك .

علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا: یقیناً معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس دعا سے دنیا اور آخرت میں فائدہ لیا ہے؛

دنیا میں فائدہ یوں لیا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ جب شام کے امیر بنے تھے تو آپ ایک دن میں سات مرتبہ کھاتے تھے ؛ انکے سامنے ایک بہت بڑا تھال لایا جاتا تھا جس میں بہت زیادہ گوشت اور پیاز ہوتا تھا پھر آپ اس سے کھاتے تھے اور آپ دن میں سات مرتبہ گوشت کھاتے تھے اور بہت زیادہ مٹھائی اور پھل کھاتے تھے اور کہتے تھے : اللہ کی قسم میرا پیٹ نہیں بھرتا میں کھا کھا کے تھک جاتا ہوں اور یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے کہ اس طرح کا معدہ انسان کے پاس ہو جس کے لیے بادشاہ شوق رکھتے اور ترستے ہیں۔

اسی طرح معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس دعا سے اخروی فائدہ بھی حاصل کیا ۔۔۔۔ چنانچہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا:

وأما في الآخرة : فقد أتبع مسلم هذا الحديث بالحديث الذي رواه البخاري وغيرهما من غير وجه عن جماعة من الصحابة .أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : " اللهم إنما أنا بشر فأيما عبد سببته أو جلدته أو دعوتہ عليه وليس لذلك أهلاً فاجعل ذلك كفارةً وقربة تقربه بها عندك يوم القيامة " .

یعنی آخرت میں فائدہ اس طرح لیا کہ امام مسلم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اس حدیث کے بعد ذکر کیا ہے جس کو بخاری وغیرہ نے بھی کئی اسناد سے کئی صحابہ کرام سے روایت کیا ہے بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ میں ایک انسان ہوں جس کو بھی میں نے دنیا میں برا بھلا کہا ہے یا سزا دی ہے یا بد دعا دی ہے اور وہ اس کا اھل نہیں ہے تو اس بد دعا کو اس کے لیے گناہوں کا کفارہ بنا دے اور اس کو قیامت کے دن تیرے پاس قریب ہونے کا سبب بنا دینا۔

اسی طرح یہ بات یاد رکھیں عرب ان الفاظ کو غیر ارادی طور پر استعمال کرتے ہیں۔

جیساکہ امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:

إِنَّ مَا وَقَعَ مِنْ سَبِّہٖ وَدُعَائِہٖ وَنَحْوِہٖ، لَیْسَ بِمَقْصُودٍ، بَلْ ہُوَ مِمَّا جَرَتْ بِہٖ عَادَۃُ الْعَرَبِ فِي وَصْلِ کَلَامِہَا بِلَا نِیَّۃٍ، کَقَوْلِہٖ : ’تَرِبَتْ یَمِینُکَ‘، ’وعَقْرٰی حَلْقٰی‘، وَفِي ہٰذَا الْحَدِیثِ : ’لَا کَبِرَتْ سِنُّکِ‘، وَفِي حَدِیثِ مُعَاوِیَۃَ : ’لَا أَشْبَعَ اللّٰہُ بَطْنَہٗ‘، وَنَحْوِ ذٰلِکَ، لَا یَقْصُدُونَ بِشَيئٍ مِّنْ ذٰلِکَ حَقِیقَۃَ الدُّعَائِ ۔

’’بعض احادیث میں (صحابہ کرام کے لیے)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو بددعا وغیرہ منقول ہے،وہ حقیقت میں بددعا نہیں، بلکہ یہ ان باتوں میں سے ہے جو عرب لوگ بغیر نیت کے بطور ِ تکیۂ کلام کے طور پر بول دیتے ہیں۔(بعض احادیث میں کسی صحابی کو تعلیم دیتے ہوئے)نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ

’تَرِبَتْ یَمِینُکَ‘

(تیرا داہنا ہاتھ خاک آلود ہو)

(سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ)

’عَقْرٰی حَلْقٰی‘

(تُو بانجھ ہو اور تیرے حلق میں بیماری ہو)

، ایک حدیث میں یہ فرمان کہ

’لَا کَبِرَتْ سِنُّکِ‘

(تیری عمر زیادہ نہ ہو)

اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ

’لَا أَشْبَعَ اللّٰہُ بَطْنَہٗ‘

(اللہ تعالیٰ ان کا پیٹ نہ بھرے)

،یہ ساری باتیں اسی قبیل سے ہیں۔ ایسی باتوں سے اہل عرب بددعا مراد نہیں لیتے۔

یعنی یہاں اصل معنی مراد نہیں ہوتا جس کے لیے کئی مثالیں احادیث میں موجود ہیں۔ ہم دو مثا ذکر کرتے ہیں۔

مثال نمبر: ایک

عَنْ أَبِي ذَرٍّ، ‌‌‌‌‌‏قَالَ:‌‌‌‏ اجْتَمَعَتْ غُنَيْمَةٌ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‌‌‌‌‌‏فَقَالَ:‌‌‌‏ يَا أَبَا ذَرٍّ، ‌‌‌‌‌‏ابْدُ فِيهَا، ‌‌‌‌‌‏فَبَدَوْتُ إِلَى الرَّبَذَةِ فَكَانَتْ تُصِيبُنِي الْجَنَابَةُ فَأَمْكُثُ الْخَمْسَ وَالسِّتَّ، ‌‌‌‌‌‏فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‌‌‌‌‌‏فَقَالَ:‌‌‌‏ أَبُو ذَرٍّ، ‌‌‌‌‌‏فَسَكَتُّ، ‌‌‌‌‌‏فَقَالَ:‌‌‌‏ ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ أَبَا ذَرٍّ لِأُمِّكَ الْوَيْلُ، ‌‌‌‌‌‏فَدَعَا لِي بِجَارِيَةٍ سَوْدَاءَ فَجَاءَتْ بِعُسٍّ فِيهِ مَاءٌ فَسَتَرَتْنِي بِثَوْبٍ وَاسْتَتَرْتُ بِالرَّاحِلَةِ وَاغْتَسَلْتُ فَكَأَنِّي أَلْقَيْتُ عَنِّي جَبَلًا، ‌‌‌‌‌‏فَقَالَ:‌‌‌‏ الصَّعِيدُ الطَّيِّبُ وَضُوءُ الْمُسْلِمِ وَلَوْ إِلَى عَشْرِ سِنِينَ، ‌‌‌‌‌‏فَإِذَا وَجَدْتَ الْمَاءَ فَأَمِسَّهُ جِلْدَكَ فَإِنَّ ذَلِكَ خَيْرٌ ، ‌‌‌‌‌‏رواہ ابوداؤد:332

ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ بکریاں جمع ہو گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوذر! تم ان بکریوں کو جنگل میں لے جاؤ ، چنانچہ میں انہیں ہانک کر مقام ربذہ کی طرف لے گیا، وہاں مجھے جنابت لاحق ہو جایا کرتی تھی اور میں پانچ پانچ چھ چھ روز یوں ہی رہا کرتا، پھر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ نے فرمایا: ابوذر! ، میں خاموش رہا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری ماں تم پر روئے، ابوذر! تمہاری ماں کے لیے بربادی ہو ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے ایک کالی لونڈی بلائی، وہ ایک بڑے پیالے میں پانی لے کر آئی، اس نے میرے لیے ایک کپڑے کی آڑ کی اور ( دوسری طرف سے ) میں نے اونٹ کی آڑ کی اور غسل کیا، ( غسل کر کے مجھے ایسا لگا ) گویا کہ میں نے اپنے اوپر سے کوئی پہاڑ ہٹا دیا ہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پاک مٹی مسلمان کے لیے وضو ( کے پانی کے حکم میں ) ہے، اگرچہ دس برس تک پانی نہ پائے، جب تم پانی پا جاؤ تو اس کو اپنے بدن پر بہا لو، اس لیے کہ یہ بہتر ہے ۔

اس روایت میں جو بد دعا ہے وہ غیر ارادی طور پر ہے۔ اس طرح کئ ایک مثال کتب احادیث میں موجود ہیں۔

دوسری مثال:

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا نُرَى إِلَّا أَنَّهُ الْحَجُّ فَلَمَّا قَدِمْنَا تَطَوَّفْنَا بِالْبَيْتِ فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يَكُنْ سَاقَ الْهَدْيَ أَنْ يَحِلَّ فَحَلَّ مَنْ لَمْ يَكُنْ سَاقَ الْهَدْيَ وَنِسَاؤُهُ لَمْ يَسُقْنَ فَأَحْلَلْنَ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَحِضْتُ فَلَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ فَلَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ الْحَصْبَةِ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ يَرْجِعُ النَّاسُ بِعُمْرَةٍ وَحَجَّةٍ وَأَرْجِعُ أَنَا بِحَجَّةٍ قَالَ وَمَا طُفْتِ لَيَالِيَ قَدِمْنَا مَكَّةَ قُلْتُ لَا قَالَ فَاذْهَبِي مَعَ أَخِيكِ إِلَى التَّنْعِيمِ فَأَهِلِّي بِعُمْرَةٍ ثُمَّ مَوْعِدُكِ كَذَا وَكَذَا قَالَتْ صَفِيَّةُ مَا أُرَانِي إِلَّا حَابِسَتَهُمْ قَالَ عَقْرَى حَلْقَى أَوَ مَا طُفْتِ يَوْمَ النَّحْرِ قَالَتْ قُلْتُ بَلَى قَالَ لَا بَأْسَ انْفِرِي قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَلَقِيَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُصْعِدٌ مِنْ مَكَّةَ وَأَنَا مُنْهَبِطَةٌ عَلَيْهَا أَوْ أَنَا مُصْعِدَةٌ وَهُوَ مُنْهَبِطٌ مِنْهَا

ترجمہ:

ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے اسود نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ہم حج کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے۔ ہماری نیت حج کے سوااور کچھ نہ تھی۔ جب ہم مکہ پہنچے تو ( اور لوگوں نے ) بیت اللہ کا طواف کیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا کہ جو قربانی اپنے ساتھ نہ لایا ہو وہ حلال ہوجائے۔ چنانچہ جن کے پاس ہدی نہ تھی وہ حلال ہوگئے۔ ( افعال عمرہ کے بعد ) آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات ہدی نہیں لے گئی تھیں، اس لئے انہوں نے بھی احرام کھول ڈالے۔ عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں حائضہ ہوگئی تھیں س لیے بیت اللہ کا طواف نہ کرسکی ( یعنی عمرہ چھوٹ گیا اورحج کرتی چلی گئی ) جب محصب کی رات آئی، میں نے کہا یا رسول اللہ ! اور لوگ تو حج اور عمرہ دونوں کر کے واپس ہورہے ہیں لیکن میں صرف حج کر سکی ہوں۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ جب ہم مکہ آئے تھے تو تم طواف نہ کرسکی تھی؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اپنے بھائی کے ساتھ تنعیم تک چلی جااور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ ( پھر عمرہ ادا کر ) ہم لوگ تمہارافلاں جگہ انتظارکریں گے اور صفیہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ معلوم ہوتاہے میں بھی آپ ( لوگوں ) کو روکنے کاسبب بن جاوں گی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عقری حلقی (تو بانجھ ہو اور تیرے حلق میں بیماری ہو)

کیا تو نے یوم نحرکا طواف نہیں کیاتھا؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں میں تو طواف کرچکی ہوں۔ آپ نے فرمایا پھر کوئی حرج نہیں چل کوچ کر۔ عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میری ملاقات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی تو آپ مکہ سے جاتے ہوئے اوپر کے حصہ پرچڑھ ررہے تھے اور میں نشیب میں اتر رہی تھی یا یہ کہا کہ میں اوپر چڑھ رہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس چڑھاو کے بعد اتررہے تھے۔

صحیح بخاری حدیث نمبر: 1561


مرزائی دوسرا اعتراض یہ کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا پھر بھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نہیں آئے!!!

جواب:

اولا:

اس روایت میں یہ نہیں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو کہا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو بلا رہے ہیں اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے جانے سے جواب دے دیا ہو بلکہ روایت کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ آئے تھے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو کھاتے دیکھا اور چلے گئے اور آکر رسول اللہ سلم کو بتایا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کھانا کھا رہے ہیں۔

ثانیاً:

اگر بالفرض مان لیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ہوگا پھر بھی فورا نہیں آئے کیونکہ آپ کھانا کھارہے تھے اور اسلام نے تو یہاں تک اصول بیان کیا ہے کہ انسان اگر بھوکا ہو تو پہلے کھانا کھائے اور فرض نماز بعد میں پڑھے ، ہمیں کیا حق بنتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کا حکم لگائیں ۔

مرزائی صاحبان !

اگر آپ لوگ اتنے معتدل مزاج انسان ہیں اور اپنے آپ کو بڑے حق پرست تصور کرتے ہیں تو مندرجہ ذیل میں ایک حدیث پڑھیں اور نتائج پر غور کریں پھر وہ حکم لگائیں جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر آپ نے لگایا ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ , قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ , قَالَ : أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ أَخْبَرَهُ ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ أَخْبَرَهُ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَقَهُ وَفَاطِمَةَ بِنْتَ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَام لَيْلَةً فَقَالَ : أَلَا تُصَلِّيَانِ ؟ , فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْفُسُنَا بِيَدِ اللَّهِ فَإِذَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَنَا بَعَثَنَا ، فَانْصَرَفَ حِينَ قُلْنَا ذَلِكَ وَلَمْ يَرْجِعْ إِلَيَّ شَيْئًا ، ثُمَّ سَمِعْتُهُ وَهُوَ مُوَلٍّ يَضْرِبُ فَخِذَهُ , وَهُوَ يَقُولُ : وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا .

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات ان کے اور فاطمہ رضی اللہ عنہما کے پاس آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم لوگ ( تہجد کی ) نماز نہیں پڑھو گے؟ میں عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہماری روحیں اللہ کے قبضہ میں ہیں، جب وہ چاہے گا ہمیں اٹھا دے گا۔ ہماری اس عرض پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن واپس جاتے ہوئے میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ران پر ہاتھ مار کر ( سورۃ الکہف کی یہ آیت پڑھ رہے تھے ) آدمی سب سے زیادہ جھگڑالو ہے «وكان الإنسان أكثر شىء جدلا‏» ۔

1127بخاري

مذکورہ حدیث پر غور کریں معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو رات کے ٹائم تہجد کے لیے اٹھنے کا حکم دیا لیکن سامنے سے انہوں نے بشری تقاضہ کے مطابق اس بات کو اس وقت قبول کرنےسے کوتاہی کرلی کیونکہ ان کا خیال یہی ہوگا کہ تہجد فرض نہیں لہذا اللہ نے جب توفیق دی تو اٹھ کر پڑھیں گے۔

مرزا صاحب ! اگر کوئی ناصبی کھڑا ہوجائے اور کہنے لگ جائے کہ معاذاللہ علی رضی اللہ عنہ اور فاطمہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی نافرمانی کر دی ؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے افسوس میں آیت پڑھ دی، تو آپ کیا جواب دینگے؟؟

ہم تو اس شخص کو منہ توڑ جواب دیں گے حضرت علی اور فاطمہ رضی اللہ عنہما کی گستاخی مت کر ان جنتی انسانوں کا ارادہ یہی تھا کہ تہجد فرض نہیں ہم بعد میں اٹھ کر لیں گے۔

مرزا صاحب ! معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف تو آپ چیخ چیخ کر زبان درازی کرتے ہیں اور باطل کو حق بنانے کی ناکام کاوش کرتے ہیں لیکن اس مذکور حدیث پر آپ خاموش کیوں؟؟

آپ کی عدل پرستی کہاں گئی؟؟

مجھے پتہ ہے اگر تو نے یہ حدیث اور اسکا وہ باطل مفہوم عوام کے سامنے بیان کر دیا جس طرح کا مفہوم آب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف نکالتے ہیں تو تجھے تیرے حواری گریباں سے پکڑ کر گھسیٹیں گے۔


معاویہؓ کا پیٹ نہ بھرے--- یہ الفاظ ظاہری طور پر بھی بددعا نہیں ہیں کیوں کہ آحادیث میں پیٹ کا بھرا ہوا بطور تنقیص آیا یے اور پیٹ کا نہ بھرنا بطور فضیلت آیا یے

پھر بھی اگر کوئی جاہل کہتا ہے کہ یہ الفاظ تو بددعا معلوم ہوتے ہیں اسکو کہیں اسطرح کے الفاظ تو پھر اور جگہ بھی آئیں ہیں انکی پھر تفصیل کیوں بتانے بیٹھ جاتے ہو کہ یہ بددعا نہیں ہیں؟

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

1⃣:صفیہ تو بانجھ ہو

2⃣: ام انس! تیری عمر کھبی نہ بڑھے

3⃣: ابو ذرا تیری ماں تجھے گم پائے

تو کیا اس کو بددعا تسلیم کرو گے؟ دیکھنے سے تو یہ الفاظ بددعا ہی معلوم ہو رہے ہیں یا اسطرح کہو گے کہ نہیں یہ بددعا نہیں اسکا فلاں مطلب یے اسکا فلاں مطلب ہے

⬅️: معاویہؓ کا پیٹ نہ بھرے "

مجھے ہنسی آتی یے مرزا کے علمی یتیم مقلدین پر چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہیں انکی 

"معاویہؓ کا پیٹ نہ بھرے " کو کہتے بددعا ہے

پہلی بات یہ لوگ اتنا نہیں سوچتے کہ حدیث میں یہ ذکر ہی نہیں ہے کہ سیدنا معاویہؓ تک پیغام پہنچا ہو تب انہوں نے کہا ہو میں کھانا کھا رہا ہوں جب ان تک پیغام ہی نہیں پہنچا تو انکا کیا قصور؟

اور ہاں آج ہم کسی قسم کا کوئی اور حوالہ نہیں دیں گے صرف احادیث سے ہی انکی سانسیں بند کر دیں گے ان شاء اللہ

دلیل 1⃣: پہلی بات معاویہؓ کا پیٹ نہ بھرے بددعا نہیں ہے بلکہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے:

اللہ معاویہؓ کا پیٹ بھر دے تو یہ بددعا کہی جا سکتی تھی کیوں کہ دنیا میں پیٹ کا بھرا ہونا بطور مذمت اور پیٹ کا نہ بھرا ہونا بطور فضیلت احادیث میں بیان ہوا ہے

پیٹ کے نہ بھرنے کو احادیث میں اچھا جبکہ پیٹ کے بھر جانے کو برا کہا گیا ہے

♦️: ترمزی حدیث نمبر 2380 میں پیٹ کا بھرا ہونا بطور مذمت آیا ہے جبکہ پیٹ کا نہ بھرا ہونا بطور فضیلت آیا ہے

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”کسی آدمی نے کوئی برتن اپنے پیٹ سے زیادہ برا نہیں بھرا، آدمی کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں اور اگر زیادہ ہی کھانا ضروری ہو تو پیٹ کا ایک تہائی حصہ اپنے کھانے کے لیے، ایک تہائی پانی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس لینے کے لیے باقی(خالی) رکھے

(ترمزی:2380)

♦️: دنیا میں پیٹ نہ بھرنے کو مومن کی شان بتایا گیا یے جبکہ پیٹ بھرا ہونا مومن کی شان نہیں یے بلکہ پیٹ خالی کا حکم ہے یعنی اتنا کھانا ہے کہ پیٹ نہ بھر سکے

♦️اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات فرمائی تھی وہ تھی اللہ معاویہ رضی اللہ عنہ کا پیٹ نہ بھرے 

یعنی کھبی پیٹ نہ بھرے مطلب اگر پیٹ بھر گیا تو اس حدیث کے خلاف ہو جائے گا جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھانا بلکہ پیٹ خالی رکھنا یے تو معاویہ رضی اللہ عنہ کو یہ دعا ہی تھی

کہ پیٹ نہ بھرے اور یہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے پیٹ بھر کر نہیں کھانا بللہ پیٹ خالی رکھنا ہے

♦️دلیل 2⃣: جس کا دنیا میں کھانے کی وجہ پیٹ بھرا رہا قیامت کے دن وہ سب سے زیادہ بھوکے رہیں گے

(سلسلہ احادیث صحیحہ:2693) 

♦️ یعنی قیامت کے دن بھوکے وہ رہیں گے جو دنیا میں پیٹ بھر بھر کر کھاتے رہے

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا تھا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو وہ تھا انکا پیٹ نہ بھرے تو اگر انکا پیٹ دنیا میں بھرا رہتا تو اس حدیث کے  مطابق وہ قیامت کے دن بھوکے رہتے اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا دی کہ انکا پیٹ نہ بھرے کیوں کہ پیٹ بھرنے والے قیامت کے دن بھوکے رہیں گے اب بتائیں یہ دعا ہے یا نہیں؟ 

♦️ابن بطال رحمہ اللہ نے فرمایا،

پیٹ نہ بھرے بددعا نہیں۔

♦️امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا: امام مسلم یہی سمجھیں ہیں کہ یہ بددعا نہیں ہے۔

♦️امام ابن عساکر رحمہ اللہ نے فرمایا

پیٹ نہ بھرے یہ بددعا نہیں۔

♦️امام ذھبی رحمہ اللہ نے فرمایا

پیٹ نہ بھرے یہ بددعا نہیں۔

♦️علامہ البانی رحمہ اللہ نے فرمایا

پیٹ نہ بھرنا یہ بددعا نہیں۔

♦️امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا

پیٹ نہ بھرنا یہ بددعا نہیں

فرمان رسول اور علماء محدثین کے اقوال سے یہ معلوم ہوا کہ اے اللہ! معاویہ کا پیٹ نہ بھرے ،یہ جملہ بددعا نہیں بلکہ دعا ہے، پیٹ بھرا ہونا تنقیص کا باعث ہے نہ کہ پیٹ نہ بھرنا جیسا کے اوپر آحادیث سے ثابت ہو چکا ہے

♦️نوٹ: آحادیث میں ہے جسکا دنیا میں پیٹ بھرا ہوگا وہ قیامت کے دن بھوکا ہوگا

اب مرزا کے مقلدین مجھے بتائیں میں انکے لیے کیا دعا کروں؟

اللہ تمہارا پیٹ دنیا میں بھر دے یا کھبی نہ بھرے۔


معاويہ رضی الله عنہ کا پیٹ نہ بھرے حدیث

--------------------------------------------------------------

   معاوية بن أبي سفيان رضي الله عنه

-------------------------------------------------------------

علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (1420-1332ھ)فرماتے ہیں :

وَقَدْ یَسْتَغِلُّ بَعْضُ الْفِرَقِ ہٰذَا الْحَدِیثَ، لِیَتَّخِذُوا مِنْہُ مَطْعَنًا فِي مُعَاوِیَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَلَیْسَ فِیہِ مَا یُسَاعِدُہُمْ عَلٰی ذٰلِکَ، کَیْفَ؟ وَفِیہِ أَنَّہٗ کَانَ کَاتِبَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہَ وَسَلَّمَ؟

 ’’بعض گمراہ فرقے اس حدیث کو غلط استعمال کرتے ہوئے اس سے سیدنا معاويهؓ کی تنقیص ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں،حالانکہ اس حدیث میں ایسی کوئی بات ہی نہیں جو ان گمراہوں کی تائید کرتی ہو۔اس حدیث سے  سیدنا معاويهؓ تنقیص کیسے ثابت ہو گی اس میں تو یہ ذکر ہے کہ آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب ِوحی تھے۔‘‘

(سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ وشيء من فقہہا وفوائدہا : 82)


اس کیٹیگری میں موجود دیگر آرٹیکلز


نمبر عنوانات
1 حضرت سیدنا حسنؓ کی حضرت امیر معاویہؓ سے صلح
2 حضرت امیر معاویہ کی وفات کی وجہ ان کے جسم میں پھوڑا (دبیلہ) ہوجانا تھا!
3 سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے صفین کے مقتولین کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ ھمارے اور ان کے مقتولین جنت ميں جائيں گے۔
4 سیدنا سفینہ رضی اللہ عنہ نے خاندان بنوامیہ سے متعلق فرمایا: ’’ان کی حکومت شریرترین بادشاہت میں سے ایک ہے۔
5 کیا بنو امیہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر  اموی بد ترین بادشاہ تھے نعوذ باللہ
6 کیا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کو سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تمہارے باپ سے زیادہ خلافت کا حق دار ہوں؟؟؟
7 صلح کے بعد حسن رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے تعلقات
8 کیا معاویہ رضی اللہ عنہ کا شمار بارہ خلفاء میں ہوتا ہے؟
9 حضرت امیر معاویہ ؓ اور بت فروشی (شیعہ اعتراض کا تحقیقی رد)۔
10 رافضی پروفیسر کو سیدنا معاویہؓ کے متعلق مولوی کا منہ توڑ جواب
11 کیا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کا لشکر باغی ہے ؟ بخاری حدیث نمبر 2812 کی وضاحت
12 کیا شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل کا انکار کیا؟
13 حضرت امیر معاویہؓ پر علامہ بدرالدین عینیؒ کا اعتراض ؟
14 کیا صحیح مسلم کی حدیث میں حضرت امیر معاویہ رض نے سیدنا علی رض کو گالیاں دینے کا حکم دیا؟
15 کیا سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ناحق قتل کرواتے تھے اور ناجائز مال کھانے کا حکم دیا کرتے تھے؟ (صحیح مسلم، مسند احمد)
16 "اگر آپ اس دور میں ہوتے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے گروہ میں ہوتے یا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ میں ہوتے؟"
17 کیا حضرت معاویہؓ نے حضرت حسن ؓ کے ساتھ معاہدے کی شرائط پوری نہ کیں؟
18 صلح حسنؓ اور امیر معاویہؓ کی ایک شرط کی حقیقت
19 فتنوں کا زمانہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ
20 کیا معاويہ بن أبي سفيان ؓ سیدنا علی ؓ کو گالیاں دیتے یا دلواتے تھے؟
21 حضرت امام حسن ؓ کی وفات ، حضرت امیر معاویہ ؓ اور روایات میں آگ کا انگارہ کے الفاظ (پارٹ2)
22 حضرت امیر معاویہ کا قبول اسلام فتح مکہ سے پہلے (تحقیق)
23 حضرت امام حسن ؓ کی وفات ، حضرت امیر معاویہ ؓ اور روایات میں آگ کا انگارہ کے الفاظ(پارٹ1)
24 خلافت علیؓ کے بعد شر تھا جس میں بر سر ممبر علیؓ پر لعنت کی جاتی تھی(عمدۃالقاری)
25 معاویہؓ نے اپنے زمانہ میں حضرت علیؓ پر سب و شتم کی بدعت جاری کی ہے(تاریخ اسلام، مسلمانوں کا عروج و زوال)۔
26 عمرؓ بن عبدالعزیز کے دور میں حضرت علیؓ پر سب و شتم کا سلسلہ بند ہوا (تاریخ ملت)
27 آل فاطمہؓ کی توہین حضرت علیؓ پر تبرا بازی فضائل معاویہؓ گھڑے گئے(سیرت النبی شبلی)
28 1.معاویہ نے رسوا کن اور حیا سوز بدعت ممبروں پر تبرا بازی ایجاد کی۔ 2۔ بحکم امیر معاویہ منابر پر حضرت علیؓ کی شان میں گستاخی کی گئی
29 60 سال تک خطبوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم ہوتا رہا۔  (الخلفاء الراشدون)
30 سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دینے کا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب جھوٹا واقعہ
31 معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے احکامات رسالت کی خلاف ورزی کی۔(مومن کے ماہ وسال)
32 معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے سود کھایا ہے وہ حلق تک جہنم میں ہے ۔ (شرح معانی الاثار، نکیرات الاعیان)
33 ️ معاویہ (رضی اللہ عنہ) اور عمرو بن العاص (رضی اللہ عنہ) نے امامِ حق کے خلاف بغاوت کی. (ما قال اصحاب الانابه)
34 حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے بُغض علی سے سنت کو ترک کر دیا۔(معاویہ ؓ کے ڈر سے لبیک نہ پڑھنا) سیدنامعاویہ رض لوگوں کو تلبیہ سے روکتے تھے؟
35 معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے حد سرقہ کو ترک کیا۔ (احکام السلطانيہ)
36 معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے خلاف سنت کافروں کو مسلمانوں کا وارث قرار دیا۔ (البدایہ والنہایہ، المغنی)
37 ️ معاویہ ظالم اور حد سے بڑھنے والا باغی تھا۔ (الجواهر المضیہ)
38 ️ امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) خطاء کار اور امام حق پر بغاوت کرنے والا تھا۔(التمہید ابو الشکور السلمی)
39 معاویہ (رضی اللہ عنہ) ظالم اور خارجی تھا۔(ادب القاضی)
40 معاویہ (رضی اللہ عنہ) راہ حق سے ہٹا ہوا ائمہ پر خروج کرنے والا تھا۔ (ادب القاضی)
41 1: معاویہ (رضی اللہ عنہ) آگ کے ایک صندوق میں ہے۔ 2: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان، معاویہ، مروان بن حکم پر لعنت کی ہے۔ (خلافت بغداد کا دور انحطاط)
42 ️ امیر معاویہ (رضى الله عنہ) مجبوراً اسلام میں داخل ہوا اور بخوشی اسلام سے نکل گیا۔ ( الکامل)
43 اصحابِ جمل وصفین ( حضرت عائشہ و معاویہ وغیرہ) ظالم ہیں۔( دراسات للبيب)
44 معاویہ (رضى الله عنہ) نے غلبہ سے حکومت حاصل کر کے پھر سُنت سیہ کو ایجاد کیا بڑا گناہ کیا ہے۔ (ابوالکلام آزاد زعیم السیاسی)
45 معاویہ (رضی اللہ عنہ) باغی تھا حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر جلیل القدر بدری صحابہ رضی اللہ عنہ سے جنگ کی ہے۔ (احکام القرآن)
46 معاویہ (رضی اللہ عنہ) امام پر خروج کرنے والے ظالم بادشاہ تھا۔ ( تبیین الحقائق )
47 معاویہ (رضی اللہ عنہ) باغی اور سلطان جابر تھا۔ (البحرالرائق، فتح القدير، لسان الاحکام فی معرفتہ الاحکام، الہدایه، فتاویٰ جامع الفوائد)
48 امیر معاویہ (رضى الله عنه) کی حکومت غیر قانونی اور ظالمانہ تھی۔ (ادب القاضی)
49 1: امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے دینار پر اپنی تصویر بنا کر قیصر و کسریٰ کا اتباع کیا۔ (امیر معاویہ از انیس زکریا نصولی) 2: معاویہ (رضی اللہ عنہ) اور اس کا باپ مؤلفۃ القلوب میں سے تھے جو کفر کو چُھپاتے تھے۔ (الحسن و الحسین رضاء مصری) 3: رسول پاکﷺ نے معاویہ (رضی اللہ عنہ) اس کے بھائی عتبہ اور ابوسفیان (رضی اللہ عنہ) پر لعنت کی۔ (الحسن و الحسین رضا، مصری) 4: رسول پاکﷺ نے سات مقامات پر ابوسفیان (رضی اللہ عنہ) پر لعنت کی۔ (ایضاً) 5: معاویہ (رضی اللہ عنہ) خود گمراہ تھا اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا تھا۔(طبری) 6: معاویہ (رضی اللہ عنہ) باطن میں باغی تھا ظاہر میں دم عثمانؓ کا نام لے کر اپنی بغاوت پر پردہ ڈالتا تھا۔ (البیان الاظہر)
50 معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے اہلبیت کی قدر نہ پہچانی۔ (عون المعبود)
51 حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) جاہلیت کے بُتوں میں سے ایک بُت ہے (البدایہ والنہایہ)
52 لوگ معاویہ (رضی اللہ عنہ) پر اسی طرح تبرا کرتے تھے جس طرح حضرت علیؓ کرتے تھے۔ (احکام القرآن
53 سب سے پہلے امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے نماز کی تکبیرات کو گھٹایا. (مؤطا امام مالک، کتاب الدلائل)
54 معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے حجر بن عدی کو محض محبت علی رضی اللہ عنہ کی وجہ سے قتل کیا۔ (تتمہ المختصر فی اخبار البشر)
55 ️ سانحہ کربلا کی بنیاد امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے رکھی۔ (تشکیل جدیدالبیان اسلامیہ)
56 ️ معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے محمد بن ابی بکر کو قتل کر کے لاش گدھے کی کھال میں رکھ کر جلا دی۔ (خلافت وملوکیت)
57 امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) شہادت امام حسن رضی اللہ عنہ سن کر خوش ہوا اور سجدہ شکر بجا لایا. (ربیع الابرار، و نصوص الاخیار)
58 امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) کی ماں ہندہ کے سینے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حمزہؓ کی دشمنی بھری ہوئی تھی۔ (شاهنامہ اسلام )
59 ️ سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) پر لعنت کی. (الکامل)
60 ️ امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے حضرت حسنؓ کو شہید کروایا۔ (مروج الذاہب،سیر الاولیاء)
61 ️ معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے ناحق مال کھانے اور لوگوں کو ناحق قتل کرنے کا حکم دیا۔ (مسند ابی عوانہ)
62 "چار آدمیوں نے حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) کا باپ ہونے کا دعوی کیا" (ربیع الابرار)
63 "امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) نامعلوم باپ کا بیٹا تھا" حوالہ "انسانیت موت کے دروازے پر، اور شہادت حسین از ابوکلام آزاد")
64 امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے اپنی والدہ کی توہین کی۔ (کتاب روض الاحبار)
65 امیر معاویہ نے بت فروشی کر کے بت پرستی میں مدد کی ہے۔(کتاب المبسوط)
66 "معاویہ" کے معنیٰ کتیا کے ہیں جو کتوں کے ساتھ مل کر بھونکتی ہے۔ تہذیب الکمال،  فی اسماءالرجال، شرح عقائد النبراس، ربیع الابرار و نصوص الابرار، تاریخ الخلفاء)
67 امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ کی والدہ ایک فاحشہ عورت تھی۔(دیوانِ حسان)
68 امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) کی فضیلت میں ایک روایت بھی صحیح نہیں۔ (فتح الباری اللالی المصنوعہ فی الاحادیث الموضوعہ منہاج السنہ، فوائد المجموعہ فی بیان احادیث الموضوعہ، شرح السفر السعادت مشکوۃ فارسی، تنزیہ الشرعیہ المرفوعہ، کتاب الموضوعات، کشف الخفاء، منہاج السنہ، ضیاء النور، احیاء السنہ)
69 جنگ صفین میں معاویہ (رضی اللہ عنہ) گمراہی ظاہر ہو گئی  (اسدالغابہ)
70 امیر معاویہ (رضى الله عنہ) نے اسلامی شرع سے انحراف کیا احکام قرآن و سنت سے روگردانی کی.  (حضرت علیؓ تاریخ اور سیاست کی روشنی میں)
71 امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) دُشمنانِ رسولﷺ میں سے تھے (تاریخ الامم الاسلامیہ)
72 امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) کی نسبت "حضرت" اور "رضی اللہ عنہ" کہنا بڑی جرات اور بے باکی ہے (حیات وحید الزمان)
73 معاویہ (رضی اللہ عنہ) اور ان کی جماعت سُنتِ رسولﷺ کے دشمن تھے۔ (اسدالغابہ)
74 معاویہ (رضی اللہ عنہ) کی جبری حکومت تھی معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے زبردستی تشدد سے یزید کی بیعت لی (تہذیب و تمدن اسلامی)
75 1: ۔معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے حکومت جبری لی تھی۔ 2: ۔معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کرتے ہوئے ایک ولدالزنا کو اپنا بھائی بنا لیا (مسلمانوں کا عروج و زوال، الکوکب الدُرِی)
76 معاویہ کا دورحکومت ظلم و استبداد کا دور تھا۔ (تحفہ اثناء عشریہ)
77 معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے سنت بد ایجاد کی، قوت اور رشوت کے ذریعے بیعت لی۔ (امامت عظمیٰ)
78 امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے قیصر و کسریٰ کی سُنت پر عمل کرتے ہوئے یزید کو نامزد کیا۔ (کلیات شبلی
79 سانحہ کربلا کی بنیاد امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے رکھی۔ (تشکیل جدیدالبیان اسلامیہ)
80 اسلام میں پہلا باغی امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) ہے۔ (شرح مقاصد)
81 معاویہ (رضی اللہ عنہ) اذان میں شہادت رسالت کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ (مروج الذہب للمسعودی، الاخبارالموقفات)
82 امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) سود خور تھا۔ (ابن ماجہ، السنن الکبریٰ، طحاوی)
83 معاویہ (رضی اللہ عنہ) بدعتی امرا میں سے ایک ہے۔ (المستدرک، تاريخ دمشق الکبير) .
84 دربارِ معاویہ (رضی اللہ عنہ) میں میں غدر کی نسبت رسول اللہﷺ کی طرف دی جاتی تھی۔ (الصارم المسلول)
85 امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) حضرت علیؓ اور اولاد علیؓ سے تعصب رکھتا تھا۔ (مسند احمد بن حنبل)
86 1.معاویہ (رضی اللہ عنہ) کے دور حکومت میں حضرت علیؓ کی توہین کی جاتی تھی۔ (کتاب آثار قیامت) 2.امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے اسلام پر کاری ضرب لگائی۔ (سنت کی آئینی حیثیت)
87 1: معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے خلاف سنت تسمیہ کو ترک کر دیا اور بہت سی بدعات کا ارتکاب کیا۔ (دراسات اللبيب) 2: معاویہ (رضی اللہ عنہ) لوگوں کو جبراً مذہب علی اختیار کرنے سے روکتا تھا۔ (دراسات اللبيب)
88 امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) شراب پیتا تھا (مسند امام بن حنبل)
89 شیعہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن مجید کے پندرہویں پارہ کی آیت نمبر 60 میں الشجرہ الملعونہ سے مراد بلا اختلاف ائمہ مفسرین اور بالاتفاق شیعہ سنی بنو امیہ ہیں اس لیے بنو امیہ قرآن کے فرمان کے مطابق ملعون ہوئے اس لئے ان پر لعنت بھیجنا ضروری ہے
90 ممبر نبوی پر بندر (بنو اُمیہ) ناچ رہے ہیں شیعہ حضرات بنو اُمیہ کی مذمت میں درج ذیل آیت پیش کر کے اس کا شان نزول یہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں بنو اُمیہ کو ممبر پر چڑھتے دیکھا، تو آنحضرتﷺ غمناک ہوئے اس کے بعد رسولﷺ کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھا گیا آیت یہ ہے  وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ ہم نے جو خواب آپ کو دکھایا وہ لوگوں کے لئے آزمائش ہے
91 شیعہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سفیان (رضی اللہ عنہ) کو گدھے پر سوار دیکھا اس کا ایک بیٹا معاویہ (رضی اللہ عنہ) سواری کو آگے سے کھینچ رہا تھا جبکہ دوسرا بیٹا یہ یزید سواری کو پیچھے سے ہانک  رہا تھا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھ کر فرمایا سوار سواری کو کھینچنے والے اور ہانکنے والے پر لعنت ہو۔ دوم یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابوسفیان (رضی اللہ عنہ) نے عبدمناف کو کہا تھا کہ اہل اسلام کو جلدی اپنی گرفت میں لے لو جنت دوزخ نہیں ہے۔ سوم یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابو سفیان (رضی اللہ عنہ) نے جبل احد پر کھڑے ہو کر اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ یہ وہ مقام ہے جہاں سے ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اصحابِ محمد  (رضی اللہ عنہ) کو ہٹایا تھا۔
92 شیعہ کہتے ہیں کہ امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ و جدل کیا ہے ملک میں فتنہ فساد برپا کیا خونریزی کو حلال جاننا اس طرح آپ سے قتال کرنے والوں نے اسلام کی رسی کو اپنی گردن سے نکال دیا۔
93 شیعہ حضرات کی طرف سے حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) پر یہ بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنا اثر رسوخ ورعب دبدبہ سے اپنے بیٹے یزید کی بیعت حاصل کی تھی اور اسلام میں قیصر وکسری کی سنت کو رائج کیا تھا جبکہ انہیں یزید کے فسق و فجور کا علم تھا۔
94 شیعہ حضرات حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) پر یہ طعن کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) کو تحریر لکھنے کے لیے طلب فرمایا اور امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے بہانہ بنا کر اس کو ٹالا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بد دعا دی کہ اللہ تیرے شکم کو کبھی سیر نہ کرے۔
95 شیعہ حضرات یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب تم معاویہ (رضی اللہ عنہ) کو منبر پر دیکھو تو اسے قتل کر دو
96 شیعہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا معاویہ (رضی اللہ عنہ) ایک تابوت میں دوزخ کے نچلے درجے میں ہو گا اور کہے گا اس سے قبل میں نافرمان اور مفسد تھا۔
97 امیر معاویہ کی بیوی کے غیر مردوں سے ناجائز تعلقات تھے۔ معاذاللہ۔ (حیات ایوان)
98 ایک گواہ اور ایک قسم کے ساتھ فیصلہ کی بدعت معاویہ نے پیدا کی۔ (موطا امام محمد،شرح الوقایہ التوضيح)
99 امیر معاویہ نے اسلام میں بری سنت حضرت علیؓ پر لعن طعن ایجاد کی۔ (الامام زید مصنفہ ابو زہرہ
100 معاویہؓ قنوت میں حضرت علیؓ پر بددعا کرتا تھا۔ (تتمہ المختصر فی اخبار البشر)
101 حضرت امیر معاویہ حضرت علیؓ ، امام حسنؓ،  امام حسینؓ  اور ابن عباسؓ  پر لعنت کرتا تھا (البدایہ والنہایہ)
102 اعتراض:حضرت امیر معاویہؓ کا جہنم میں آگ کے تابوت میں ہونا (معاذاللہ)
103 بنوامیہ کے سلاطین، خلیفہ چہارم پر طعن و تشنیع کرتے تھے (نفع المفتی والسائل)