حضرت حسن و معاویہ رضی اللہ عنہما کے صلح کے معاہدے کو بیان کرتے ہوئے طبری نے ایک روایت نقل کی ہے جس کے مطابق حضرت معاویہ نے حضرت حسن کے ساتھ معاہدے کی شرائط کو پورا نہ کیا۔
روایت کے مطابق حضرت معاویہؓ نے حضرت حسنؓ کو ایک سادہ کاغذ پر دستخط کر کے بھجوا دیا اور کہا کہ آپ جو جی چاہے، لکھ لیجیے۔ دوسری طرف حضرت حسنؓ اپنی شرائط پہلے ہی لکھ کر انہیں بھجوا چکے تھے۔ جب انہیں سادہ کاغذ ملا، تو انہوں نے اس پر مزید شرائط لکھ کر اپنے پاس رکھ لیں اور بعد میں ان کا مطالبہ کیا لیکن حضرت معاویہؓ نے ان بعد میں لکھی گئی شرائط کو پورا نہیں کیا۔ اگر ایسا ہوا بھی ہو تو حضرت معاویہؓ پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ انہی شرائط کو پورا کرنے کے پابند تھے جو حضرت حسن ؓ نے انہیں بھجوا دی تھیں اور جن پر فریقین کا معاہدہ ہوا تھا۔ تاہم حضرت معاویہ کے حلم، تدبر، مروت اور کشادہ دلی کو مدنظر رکھا جائے تو یہ واقعہ بھی بے سروپا نظر آتا ہے۔
یہ واقعہ جس سند سے روایت ہوا ہے، اس پر ہم پہلے بھی کئی مرتبہ تبصرہ کر چکے ہیں۔ سند یہ ہے:
یہ سند ابن شہاب الزہری سے شروع ہوتی ہے جو اس واقعہ کے سترہ برس بعد پیدا ہوئے۔ معلوم نہیں کہ انہوں نے کس شخص سے یہ بات سنی۔ عین ممکن ہے کہ وہ نامعلوم شخص باغی تحریک کا رکن رہا ہو۔ پھر زہری سے اس روایت کو یونس بن یزید ایلی بیان کرتے ہیں جو کہ ناقابل اعتماد ہیں اور زہری سے ایسی باتیں روایت کرتے ہیں جو اور کوئی نہیں کرتا ہے۔
حضرت حسنؓ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما سے اتحاد کر کے چونکہ باغی تحریک کی لٹیا ہی ڈبو دی تھی، اس وجہ سے ان کے دل میں حضرت حسنؓ کے لیے بہت بغض تھا۔ اس موقع پر انہوں نے آپ کو
یعنی اے مومنین کو ذلیل کرنے والے کہہ کر پکارا۔ بعد میں ان کی طرح طرح سے کردار کشی کی گئی اور انہیں معاذ اللہ راسپوٹین جیسا کردار ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ کہا گیا کہ حضرت حسنؓ نے سو سے زائد شادیاں کیں۔ کسی خاتون سے شادی کرتے اور چند دن بعد اسے طلاق دے دیتے اور پھر کسی اور سے نکاح کر لیتے۔یہ ایسی گھناؤنی تہمت ہے جسے قرآن مجید کے حکم کے مطابق سنتے ہی مسترد کر دیا جانا چاہیے ۔ ارشاد باری تعالی ہے:
ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب انہوں نے یہ بات سنی تھی، تو مومن مرد و عورت اپنے دل میں اچھا گمان کرتے اور کہہ دیتے کہ یہ تو کھلی تہمت ہے۔ (النور 24:12)
افسوس کہ روایت پرستی کے سبب بعض لوگ اس تہمت پر یقین کرتے ہیں، اس وجہ سے مناسب ہو گا کہ ان روایات کا بھی جائزہ لے لیا جائے۔ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے کثیر النکاح ہونے سے متعلق جتنی بھی روایات ہیں، وہ سب انہی واقدی، ہشام کلبی اور ابن جعدبہ سے مروی ہیں۔
یہ روایات بھی حدیث یا تاریخ کی کسی مستند کتاب میں نہیں بلکہ ابن ابی الحدید ، ابو طالب مکی وغیرہ نے نقل کی ہیں۔ عرب عالم ڈاکٹر صلابی نے نہایت تفصیل کے ساتھ ان روایات کا تجزیہ کر کے ان کا ضعف بیان کیا ہے۔ یہاں ہم یہ اسناد درج کر رہے ہیں:
آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ یہ روایتیں بیان کرنے والے کون لوگ ہیں۔ جیسا کہ انہوں نے حضرت معاویہ کی کردار کشی کی، ویسے ہی حضرت حسن رضی اللہ عنہما کی کردار کشی میں بھی کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا۔ اگر حضرت حسن نے سو سے زائد شادیاں کی ہوتیں تو ان کی اولاد کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہونی چاہیے تھی جبکہ ایسا نہیں ہے۔
شیعہ بھی مانتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضہ نے کسی بھی شرط کی خلاف ورزی نہیں کی -
شیعہ مؤرخ ابو حنیفہ دینوری لکھتا ہے
یعنی حسنین کریمین نے کوئی تکلیف یا ناپسندیدہ چیز نھیں دیکھی معاویہ رض کی پوری زندگی میں، اور جو شرائط دونوں نے طے کیے تھے معاویہ رض نے کسی شرط کی خلاف ورزی نہیں کی -