کچھ شیعہ رافضی اکثر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کو ولی عہد بنا کر اس معاہدے کی مخالفت کی جوان کے اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے درمیان ہوا تھا ،جس کی ایک شق یہ تھی کہ
حضرت امیرمعاویہ اپنے بعد کسی کو خلافت نہیں سونپیں گے ،بلکہ امت مسلمہ کی طرف یہ معاملہ پھیریں گے ۔
اس بات سے قطع نظر کہ کیا حضرت امیر معاویہؓ حضرت حسنؓ جیسی شخصیت کے ساتھ سر عام ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی کر سکتے ہیں ، جنہوں نے رومیوں کے ساتھ عین جہاد کے موقع پر حضرت عمرو بن عبسہ کی زبانی ایک معاہدے کی یاد دہانی پر نہ صرف جنگ روک دی بلکہ مفتوحہ علاقہ بھی دشمن کے حوالے کیا ،نیز اس با ت سے بھی قطع نظر کہ اس وقت کی غالب اکثریت جب حضرت امیر معاویہؓ کے اس فیصلے سے متفق ہوگئی، تو امت کی اکثریت کا اس رائے میں شامل ہونا خلافت کے معاملے کو امت کی طرف پھیرنا نہیں کہلائے گا ،
نیز اس بات سے بھی قطع نظر کہ جن چار بنیادی صحابہ نے اس فیصلے پر اپنی اختلافی رائے دی ،انہوں نے کسی بھی موقع پر حتی کہ حضرت حسینؓ نے بھی یہ اعتراض نہیں اٹھایا کہ یزید کو ولی عہد بنانا اس معاہدے کی خلاف ورزی ہے ۔
ان سب باتوں سے قطع نظر معاہدے کی جس شق کو معترض اعتراض کی بنیاد بنا رہے ہیں ،یہ شق تراث کی بنیادی مصادر تاریخ میں ہی نہیں ہے ،حالانکہ اس میں معاہدے کی دیگر شقوں کا تذکرہ ہے ،خواہ مسعودی کی مروج الذہب ہو ،امام طبری کی تاریخ طبری ،ابن کثیر کی البدایہ ہو یا ابن اثیر کی الکامل ،ابن خلدون کی تاریخ ابن خلدون ہو یا ابن جوزی کی المنتظم ،ان میں سے کسی میں بھی یہ شق نہیں ہے۔
♦️ یہ شق بلاذری کی انساب الاشراف میں بلا سند ذکر ہے ،اور وہاں سے مصنف الصواعق نے لیا ہے ۔
طرفہ تماشا یہ کہ اس شق کو کچھ معترضین نے متواتر کہا ،جبکہ اس کی ایک بھی صحیح سند نہیں ہے ، بلکہ اساسی مصادر میں سے ایک دو کتب میں نقل ہوئی ہے ۔یا للعجب
اس پر مستزاد یہ کہ شیعہ مصادر اور ابن عبد البر کی استیعاب نے ایک اور شق کا ذکر کیا ہے جو معترضین کی ذکر کردہ شق سے صراحتا معارض ہے ،جس میں یہ ذکر ہے کہ اگر جناب امیر معاویہ کی وفات ہوئی تو خلافت حضرت حسن کے پاس لوٹ آئے گی۔
طرفہ تماشا یہ کہ یہ شق بھی اسی شق کی طرح اوپر ذکر کردہ کسی اساسی مصدر میں شروط صلح کے ضمن میں مذکور نہیں ہے ۔
نتیجہ :
تحقیقی بات یہ ہے کہ یہ دونوں متعارض شقیں سنی و شیعہ غالین کی وضع کردہ ہیں۔
1️⃣ پہلی شق سے اہلسنت مناظرین اہل تشیع کو الزام دیتے ہیں کہ اگر امامت منصوص ہے تو حضرت حسنؓ نے اپنے بعد خلافت میں شوری کی شرط کیوں لگائی؟
جبکہ اہل تشیع اہلسنت کو الزام دیتے ہیں کہ اگر امامت اہل بیت کا حق نہیں ہے اور شوری پر مبنی ہے تو حضرت حسنؓ نے جناب امیر کے بعد اپنے لئے خلافت کو مختص کیوں کیا؟
اس لئے غالین کی وضع کردہ بلا سند شروط سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاک دامن کو داغدار نہ کیا جائے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ قدیم شیعی مورخ ابوحنیفہ الدینوری کی کتاب " الاخبار الطوال" میں بھی مذکورہ شرائط ندارد۔
بلکہ آپ کے بقول سیدنا معاویہؓ نے حسنین کریمینؓ کے ساتھ جو شرائط طے کی تھیں ان میں کوئی کمی نہ کی۔
موصوف کی کتاب کے یہ عکس تحریر کے کمنٹس میں ملاحظہ ہوں !
*کیا معاویہؓ موروثی نظام حکومت کے بانی تھے
اور کیا یزید کا استخلاف غیر شورائی تھا !!!
ڈاکٹر حامد محمد الخلیفہ اس ضمن میں لکھتے ہیں:
"رہے وہ نام نہاد اہل سنت جو اس بات کا پروپیگنڈا کرتے نہیں تھکتے کہ اسلام میں ’’موروثی نظام حکومت‘‘ کے موسئسِ اول سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنھما تھے تو دراصل ان لوگوں نے حالات و واقعات کا صرف ایک زاویہ نگاہ سے جائزہ لیا ہے، اسی یک طرفہ جائزے نے انہیں ایک ایسے صحابی رسول پر یہ تہمت لگانے پر ابھارا جن کی سیاست نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ روئے زمین کے سب سے ذہین ترین آدمی تھے اور حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنھم کے بعد سیاسی تدبر وشعور میں سب سے زیادہ قوت ومہارت اور دسترس رکھتے تھے۔
اگر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت کو امر وراثت گمان کیا ہوتا تو انہیں سیدنا حسینؓ، سیدنا عبداللہ ابن زبیرؓ اور دوسرے لوگوں کو اپنی رائے میں شریک کرنے کی کیا ضرورت تھی اور انہوں نے ان اکابر کے غصہ اور سختی کو کیوں برداشت کیا اور آخر یہ سب سہنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟
پھر حضرت معاویہؓ نے اکیلے ہی یزید کی نامزدگی کو کیوں کافی نہ سمجھا؟
اور کیا یہی نظامِ وراثت نہیں ہوتا؟ کہ والی کسی سے مشورہ یا رائے لیے بغیر اکیلے ہی اپنے ورثاء میں سے کسی کو اپنے بعد کے امر کا وارث قرار دے دیتا ہے۔
پھر حضرت امیر معاویہؓ اس بات کے شدید متمنی کیوں تھے کہ عام قبائل عرب اور امت کے اکابر کو بھی یزید کی بیعت میں شریک کریں؟
اور انہوں نے ہر خاص وعام، قریب اور دُور کے آدمی سے اس بارے میں مشاورت کیوں کی؟
کیا اس بات کو ہوا دیکر دراصل امت مسلمہ کے اکابر کی بابت بدگمانی کے زہر کو عام کرکے اعدائے صحابہؓ کے ہاتھوں کومضبوط کرنا مقصود ہے؟
یوں اس شوروغوغا کا بدترین نتیجہ یہ نکلا کہ ہر بے اوقات ، جاہل ، عقل سے عاری اٹھ کر حضرت امیر معاویہؓ کے خلاف محاکمہ کرنے اور ان کے خلاف عدالت قائم کرنے بیٹھ گیا اور اس کی جرأت بیجا اس حد تک جا پہنچی کہ وہ سیدنا معاویہؓ کو اپنے تئیں صحیح بات کی فہمائش کرنے لگا، حالانکہ سیدنا معاویہؓ تو ان عظیم ترین ہستیوں میں سے ہیں جن کے اقوال وافعال کو آج تک مشعل راہ بنایا جاتا ہے اور تاقیامت بنایا جاتا رہے گا۔
پھر ان لوگوں کے لہجوں کی رعونت دیکھ کر یوں گمان ہونے لگتا ہے کہ غزوہ قسطنطینہ کے اصل بہادر اور شہ سوار یہی لوگ ہیں جو سیدنا معاویہؓ کے مبارک دور خلافت میں لڑی گئی تھی ۔۔۔۔۔۔
سیدنا معاویہؓ کے اونچے جلیل القدر کردار پر انگلیاں اٹھانے والے اور شوریٰ شوریٰ کا نام لیکر ٹسوے بہانے والے اور سیدنا معاویہؓ کے خلاف یہ غل مچانے والے کہ انہوں نے شوریٰ کو عضو معطل بنا کر رکھ دیا تھا، خود کو یوں ظاہر اور پیش کرتے ہیں جیسے امت کی شیرازہ بندی کا سہرا انہی کے سر ہے اور جیسے روم کی سرکشی اور خودسری کو کچل کر خاک میں ملانے والے اور خون آشام جنگوں کے شہسواریہی جغادری ہیں ۔۔۔
افسوس یہ حضرات یہ بات یکسر بھول جاتے ہیں کہ سیدنا معاویہؓ تو سب سے زیادہ شوریٰ پر عمل کرنے والے تھے اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سیدنا معاویہؓ کا دورِ خلافت شوریٰ سے ہی تعبیر تھا لیکن کوئی سچ بولنا اور انصاف کا دامن تھامنا بھی چاہے تو تب نا !!
کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ سیدنا معاویہؓ نے یزید کے انتخاب کی بابت کس کس سے مشورہ نہ کیا؟
کس کس کے دروازے پر دستک نہ دی؟
کیا ہر قبیلہ کی طرف وفود نہ بھیجے؟
کیا لوگوں سے رائے نہ لی گئی اور انہوں نے اپنی آراء پیش نہ کیں؟
کیا اقالیم وقبائل کے وفود نے آ آ کر اس مسئلہ میں شرکت نہ کی اور اپنی رضا کا اظہار کرکے برکت کی دعائیں نہ دی تھیں؟
تاریخ کی کتابیں ان کے ذکر سے معمور ہیں۔
ان واقعات کے تناظر میں برملا کہا جا سکتا ہے کہ یزید کا استخلاف شوریٰ سے تھا جس میں اغلبیت کی رائے ثابت ہے گو اجماعِ تام نہیں ملتا۔۔۔ـ‘‘
حوالہ: سیدنا حسینؓ بن علیؓ: شخصیت اور کارنامے (مترجِم) :
تالیف: ڈاکٹر محمد الصلابی / ڈاکٹرحامد محمد الخلیفہ،
مترجَم: پروفیسر جاراللہ ضیا /مولانا آصف نسیم، ص 300-301, 312-313 مکتبہ الفرقان خان گڑھ