بند جہاں جہاں تقریر کے لئے مسلمانوں کی خدمت میں حاضر ہوا۔ عموماً ہر موقعہ و ہر مقام پربعض لوگوں کی طرف سے مسئلہ فدک کے متعلق دریافت کیا گیا۔ حالانکہ فدک کا مسئلہ کوئی اس قسم کا اصولی مسئلہ نہیں۔ جو کہ ضروریات دین میں سے ہو۔ اگر ایک شخص کا ضروریات دین پر ایمان ہو، اور اس کو فدک کے حالات و حقائق حتیٰ کہ نام تک بھی علم نہ ہو۔ تو اس کے دین و ایمان میں کوئی خلل اور نقص واقع نہ ہوگا۔ یہ تو ایک تاریخی واقعہ ہے (جس کو موضوع بحث بنانا بلکہ ایمان و کفر کا دارومدار ٹھیرانا۔ اور اس کے لئے عام مسلمانوں میں ہیجان و ہنگامہ آرائی کی مہمیں اور مسلمانوں میں تفرقہ بازی کی کوشش کونسی خدمت دین اور تقاضائے ایمان ہے۔)
بندہ کو اس مسئلہ پر خامہ فرسائی اور توجہ کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کہ میرا کامل اعتقاد اور محکم یقین ہے کہ جناب صدیق ؓ و فاروق رضۃ غنی ؓ و علی ؓ عباس و حسنین، سیدہ بی بی فاطمۃ الزہراہ سیدہ بی بی عاشہ صدیقہ ؓ ، بنو ہاشم اور قریش، تمام انصارو مہاجرین سب کے سب یک دل و یک جان اور رحمآء بینھم کے پورے مصداق اور وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وغیرہ احکام قرآنی کے پورے پابند کامل اتفاق و اتحاد اور وحدت و محبت کی گہرائیوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ آج کل اسلامی اتحاد و تنظیم کے خلاف اسٹیجوں،پریسوں سے وعظ کہے جارہے ہیں۔ اور اہل اسلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت سے موجودہ دور تک دو مخالف گروہوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بعض لوگوں کو خلفاء رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اسلام اور مقتدایان اہل ایمان جناب صدیق ؓ و فاروق ؓ غنی ؓ و علی ؓ سیدہ بتول ؓ ۔ ان نجوم ہدایت، تربیت یافتگان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق اس قسم کے طعن و تشنیع اور عیب چینی اور بدگوئی کا موقعہ فراہم کیا جارہا ہے۔ کہ یہ سب حضرات سرمایہ پرست، خودغرض، فقراء و مساکین کے حقوق خورد برد کرنیوالے اور دنیاوی اقتدار اور مال و متاع کیلئے (نعوذ باللہ) باہم دشمن اوردست بگریبان تھے۔
عاجز نے مذکورہ بالا یہی دو امور مدنظر رکھ کر یہ چند سطور، برادران اسلام کی ہمدردی اور خیرخواہی کیلئے لکھی ہیں۔ تاکہ ائمہ اسلام و مقتدایان دین کے پاکیزہ کردار اور مقدس سیرت کو اور وحدت اسلامی کے نظریہ اور اسلامی اخوت و اتحاد کے زرین اصول کو بدنما داغ لگانے والوں کے ناجائز حملوں سے پاک صاف سمجھیں۔ وما توفیقی الا باللہ العلی العظیم۔
واقعہ فدک کی تشریح سے پہلے اس حقیقت پر غہر کیجئے کہ ہردیانتدار، منصف مزاج انسان بخوبی جانتا ہے کہ موجودہ دور وقرن ہو۔ عا ازمنہ ماضیہ کی گذشتہ تاریخ ہو یا زمان مستقبل کے آنیوالے اوقات ہوں، ہر دور وہر قرن میں جب بھی کوئی اجتماعی قومی ملی، دینی و مذہبی تحریک اٹھائی گئی۔ یا اٹھائی جاوے گی۔ تو اس کی کامیابی اور ترقی کا دارومدار صرف اس امر پر ہے کہ اس تحریک کو چلانے ، اپنانے، ماننے والے، اس کی ترقی و کامیابی کے لئے، سردھڑکی بازی لگانے اور ہر قسم کی مالی و جانی قربانی سے دریغ نہ کریں۔ بلکہ اپنا سب کچھ گھر بار مال و دولت، حتیٰ کہ اپنی جانوں تک کو اس تحریک کی کامیابی کے لئے لگادیں مگر یہ سب کچھ تب گوارا کیا جاتا ہے جبکہ لوگوں کو اس تحریک کے بانی وموسس اور اس تحریک کے اٹھانے چلانے والے لیڈر پر پورا اعتماد اور مکمل بھروسہ ہو کہ یہ شخص، خود غرض مفاد پرست نہیں۔ قومی و ملی مفاد کو اپنے ذاتی مفاد سے بہتر سمجھتا ہے، اور اجتماعی مصالح کو اپنے ذاتی اور اپنے خاندان و رشتہ داروں کی مصلحتوں سے مقدم رکھتا ہے۔
ہمیشہ ہر تحریک کی کامیابی کی روح اور ترقی کا راز یہی رہا ہے کہ اس کے بانی اور لیڈر نے اخلاص کے ساتھ اپنا سب کچھ قوم کی خدمت اور مصلحت کے لئے وقف کردیا، تب اس شخص کے پیچھے قوم نے لبیک کہا۔
دنیا میں اس طریقہ کے مروج او پسندیدہ ہونے اور اس عمل کے محبوب و مرغوب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ درحقیقت حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی مقدس او معصوم تعلیمات اور بے لوث پاکیزہ زندگیوں سے دنیا کو پہلا سبق یہی ملا۔
بادشاہی ملوکیت اور نبوت و خلافت نبوت کے درمیان نمایاں امتیاز اور بنادی فرق یہی ہوتا ہے۔ کہ ملوک و بادشاہ دنیاوی سازوسامان مال و دولت اور عیش و عشرت، لذات و خواہشات نفسانی پرمفتون و فریفتہ ہوتے ہیں۔ ان کی ساری دلبستگی اور رات و دن کی سردردی اور ہر وقت کی دوڑ دھوپ کا مقصد صرف دنیا ہی دنیا ہوتی ہے، اور اس کے برعکس حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کے خلفائے عظام ؓ کا مقصد و مطمع نظر اور ان کی ساری سعی و کوششوں کا مرکز محور اللہ تعالیٰ کی رضامندی و خوشنودی کے بغیر اور کچھ ہی نہیں ہوتا۔ ان حضرات کو رات دن یہی تڑپ یہی جذبہ دامن گیر رہتا ہے کہ گھر بار، مال و دولت، عزیز و اقارب، دوست، احباب اپنا جسم وجان، عیش و ٓآرام اور عزت و آبرو سب کچھ اس کی راہ ورضا میں فنا و فدا ہوجائے۔ تو یہی حقیقی کامیابی اور انتہائی امید و آرزو ہے۔ ان حضرات کو اس رہ میں جتنے مظالم و مصائب اور شدائد وحوادث پیش آئیں۔ ان سب کو برداشت کرنے میں لذت و راحت محسوس کرتے ہیں، ان حضرات کا اصلی مقام و مرتبہ یہی عبدیت اور للہیت ہی ہے۔ کہ زندگی کا ہر لمحہ اور ہر سانس اور زندگی کے تمام علائق و لواحق صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہوں اگر کھچ کہتے سنتے ہیں تو اس کے لئے، اگر مرتے جیتے ہیں تو اسی کے لئے۔ اور یہی سبق اور روح اپنے جانشینوں اور پسم ماندگا میں چھوڑ جاتے ہیں۔
قیصر و کسریٰ شاہان عالم تو اپنے جانشینوں کے لئے دنیا وی مال و متاع حشم و خدم، حکومت و تکبر وراثت چھوڑجاتےہیں۔ مگر حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اخلاص و للہیت اور اخلاق و علوم نبوت اور راہ خدا میں قربانی و جاں نشانی کا درس وراثت میں چھوڑ جاتے ہیں، ان کے پاس مال و متاع جس قدر رہا تو بیت المال یعنی خزانہ الٰہی، جو دین الٰہی کے لئے ور عاجز محتاج لوگوں اور یتیموں مسکینوں، کے لئے رہا۔
آنحضرت ﷺ کے متعلق قرآن مجید میں بصراحت موجود ہے۔
یا رسول اللہ ! فرمادیجیئے کہ میری بدنی اور مالی اعمال و عبادات، اور میری زندگی اور موت، سب کچھ، اللہ تعالیٰ رب العالمین ہی لئے ہے۔
پ۸ سورہ انعام
تو کہ میں نہیں مانگتا تم سے اس پر کچھ اجر۔ مگر جو کوئی چاہے کہ پکڑ لے اپنے رب کی راہ۔ حدیث شریف میں وارد ہے۔
مالی وللدنیا۔ مجھے مال و متاع دنیا سے کوئی تعلق و لگاؤ نہیں۔ !
یہی وجہ تھی کہ آنحضرت ﷺ کو رات دن ہر لمحہ و ہر لحظہ یہی مگر و دامن گیر تھی۔ کہ اللہ تعالیٰ سے بے علم و بے تعلق اور دار دنیا میں مست و مدہوش ہوکر دار آخرت کی دائمی زندگی سے بے خبر انسان خواہشات نفس اور حب دنیا کی گرفتاریوں سے نکل کر معرفت الٰہی اور تعلق باللہ کے انوار سے منور ہوں اور مکر آخرت میں دائمی رضا الٰہی کے لئے اپنا مال و جان عزیز و اقارب، دوست و احباب ،گھر بار، سب کچھ قربان کر کے بارگاہ الٰہی میں سرفراز و سرخرو ہوجائیں۔
آنحضرت ﷺ نے رات دن ،صبح شام،ہر لمحہ و ہرآن، متواتر و مسلسل تئیس سال تک نہایت ہی عرق ریزی، اور جان فشانی سے اس دعوت الی اللہ اور تبلیغ و تربیت و تذکیہ کو پورے اہتمام سے جاری رکھا اور انتہائی اخلاص اور درد دل اور سوز و گداز سے ہدایت خلق کے لئے شان و مصروف رہے۔ تو اس، مبارک تعلیم و تبلیغ اور تربیت و تذکیہ کا اتنا زبردست نتیجہ اور غیر معمولی اثر ہوا کہ لوگ جوق در جوق دین الٰہی کو قبول کرنے لگے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشادہے۔
یارسول اللہ! تو دیکھے کہ اللہ کے دین میں فوجوں کی فوجیں داخل ہورہی ہیں۔
یعنی حضورﷺ کے سامنے دین الٰہی میں فوجوں کی فوجیں داخل ہوگئیں اور حضور ﷺ کی تعلیم و تربیت سے جو لوگ دین الٰہی میں داخل و شامل، ہوئے۔ ان کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
آپ کی تعلیم و تربیت سے یہ لوگ پاکیزہ اعمال و عقائد اور اخلاق عالیہ سے متصف اور مزکی ہوجاتے ہیں، اس سے پہلے ضرور صریح گمراہی میں مبتلا تھے۔
مگر آنحضرتﷺ کی تعلیم و تربیت اور تذکیہ و تطہیر نے ان کو سب گمراہیوں اور برائیوں سے دور اور اتنا محفوظ و مبرا کردیا کہ قرآن شریف میں ان شاگردان رسولﷺ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے نہایت عالی شان اور زوردار الفاظ میں ان کے کمال ایمان و تقویٰ اور رشد و ہدایت اور امانت، دیانت صداقت ،لیاقت اور اپنی دائمی رضامندی اور ان کے قطعی ہونے کا متعدد جگہ اعلان و بیان فرمایا ہے۔ پ ۲۶ سورہ فتح۔
صلح حدیبیہ کے موقع پر جو چودہ سو سرفروش جانباز پروانہ ہائے شمع رسالت جنہوں نے آنحضرت ﷺ کے مقدس و نورانی ہاتھ پر کفار کے مقابلہ میں حضور پر نورﷺ کے حکم سے شہید ہوجانے پر بیعت کی تھی، جن کی سرفروشی اور کمال عشق و محبت رسول اللہﷺ کا نقشہ خود شیعہ حضرات کی معتبر کتاب حیات انفلوب جلد دوم ص ۴۰۵ پر مرقوم ہے کہ
عروہ بن مسعود حضورﷺ کی خدمت میں آیا ۔حدیبیہ میں عروہ نے دیکھا کہ صحابہ ؓ حضورﷺ کی اتنی زبردست تعظیم واطاعت کرتے ہیں کہ حکم رسولﷺ کی تعمیل میں ایک دوسرے سے بڑھتے ہیں۔ گردنیں جھکی ہیں،نظریں اٹھاکر نہیں دیکھتے،بات آہستہ کرتے ہیں، وضو کا پانی تبرک کے طور پر ہاتھوں پرلیتے ہیں اور زمین پر گرنے نہیں دیتے، واپس جاکر بیان کیا کہ ایسی تعظیم و اطاعت کسی کی کوئی نہیں کرتا جیسے صحابہ ؓ حضورﷺ کی کرتے ہیں۔
اس بیعت کو بیعت الرضوان کہا جاتا ہے۔کیونکہ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
جن لوگوں نے یارسول اللہ ! تیرے ہاتھ پر بیعت کی، انہوں نے اللہ تعالیٰ سے بیعت کی۔ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔
جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
تحقیق اللہ تعالیٰ راضی اور خوش ہوگیا ایمان والوں سےجب بیعت کرنے لگے تجھ سے اس درخت کے نیچے پھر بخوبی جانا جو (صدق و اخلاص اور شوق شہادت، اور حسن نیت) ان کے دلوں میں تھا، پھر اتارا ان پر اطمینان اور انعام دیا۔ ان کو ایک فتح، نزدیک! انہی چودہ سو نورانی وفادار سرفروش جانبازوں کے حق میں آگے اسی سورہ میں فرمایا۔
پس اللہ تعالیٰ نے اتارا (اپنی طرف سے سکینہ (قلبی وروحانی سکون) اپنے رسول اور ایمان والوں پر اور انکو، تقویٰ کی بات پر قائم دائم کردیا۔ اور وہی تھے اس کے نہایت مستحق اور لائق۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کی اہلیت کو اہلیت کو بخوبی جانتا ہے۔ اور اسی سورہ میں ان حضرات کے حق میں فرمایا۔
جناب رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام، کفار کے مقابلہ میں سخت اور مضبوط اور باہم نرم و مہربان ہیں۔ اپنے رب کی بارگاہ میں کثرت سے رکوع و سجود ان کا تو دیکھے گا کہ جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کا فضل اور رضامندی طلب کرتے رہتے ہیں۔ کثرت سجود کے اثر سے ان کے چہروں پر نشانی ہے۔ یہی ان کی صفت اور شان تورات میں ہے۔
غرضیکہ سورہ فتح ان ہی صحابہ کرام کے دائمی تقویٰ و طہارت اور ان کی صداقت و لیاقت اور کمال ایمان و اخلاص اور اللہ تعالیٰ کے رضا و خوشنودی کی واضع طور پر بیان کر رہی ہے۔
یہی تو اصحاب بیعۃ الرضوان کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مقبول ﷺ کے نزدیک کمال ایمان و تقویٰ اور دائمی قرب ورضا کا حصول تھا کہ جس کے باعث بعد میں آنے والے مسلمان اپنی مشکلات و مصائب میں اور کفار کے مقابلہ میں فتوحات حاصل کرنے کیلیے یہ کوشش کرتے تھے کہ آنحضرتﷺ کے صحابہ ؓ میں سے اہل بدر یا اہل بیعۃ الرضوان کو تلاش کریں تاکہ ان کی دعا اور برکت اور کمال روحانی سے مشکل حل ، ذکر فتح حاصل ہو۔
پار ہ ۲۶ سورہ حجرات میں صحابہ ؓ اجمعین کے حق میں فرمایا۔
پر اللہ تعالیٰ نے محبت ڈال دی، تمہاری دل میں ایمان کی اور اسکو تمہارے دلوں پختہ ۔ مزیں کردیا۔ اور نفرت وکراہت، ڈال دی تمہارے دلوں میں کفر اور گناہ و نافرمانی سے ایسے لوگ ہی ہیں نیک راہ پر۔
سبحان اللہ! کیا ہی صحابہ کرام کی شان ایمان سے اور ان حضرات کوکسی قدر کفر اور گناہ سے کراہت اور اللہ تعالیٰ ورسول اللہﷺ کی نافرمانی سے کس قدر نفرت ہے۔
پارہ ۲۸ سورہ حشر میں انصار و مہاجرین کی شان میں فرمایا۔
فقراء و مہاجرین جوکہ اپنے گھروں اور مالوں سے نکالے گئے، جو محض اللہ کا فضل اور رضامندی ڈھونڈھتے اور اللہ اور اس کے رسول مقبولﷺ کی مدد کرتے ہیں۔ یہ ہی لوگ ہیں، انتہائی سچے اور وہ لوگ جنہوں نے مہاجرین کے آنے سے پہلے مدینہ طیبہ میں گھر اور ایمان تیار کررکھا ہے۔
جو لوگ ایمان لائے اور اپنا گھر بار چھوڑ کر راہ خدا میں جہاد کئے اور جن لوگوں نے ان کو جگہ دی اور مدد کی، یہ سب ہی ہیں حقیقی سچے، پکے ایماندار، ان مغفرت الٰہی ہے اور عزت کی روزی ہے۔
سابقین اولین، مہاجرین وانصار اور ان کے نیکی میں پیروکار، سب سے اللہ تعالیٰ راضی ہوا۔ اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہوئے، ان کیلئے جنات و بہشت تیار ہیں، جن میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔
غرضیکہ قرآن مجید میں اس کے علاوہ بھی کئی مقامات میں انصار و مہاجرین کے قطعی بہشتی اور کامل الایمان اور تقویٰ و طہارت، قرب اور رضا الٰہی کے حصول کی صراحت کی گئی۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو لوگوں کو دعوت دی ہے کہ اس قسم کا کامل، مکمل پختہ و پسندیدہ ایمان لاؤ۔ جیسا کہ شاگردان رسول مقبول ﷺ صحابہ کرام ؓ لاچکے ہیں۔
اگر اہل کتاب اس طرح پر ایمان لادیں جس طرح تم مسلمان (صحابہ ؓ ) ایمان لاچکے ہوتو یقیناً راہ ہدایت کو پالیا۔
اور جب منافق و بے ایمان لوگوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ ایمان لاؤ اسطرح کا جس طرح کہ دوسرے لوگ (صحابہ کرام ؓ ) ایمان لاچکے ہیں۔
تو ایسی کامل الایمان اور پاکیزہ جماعت جن کی تعداد وکثرت یدخلون فی دین اللہ افواجا۔ سے واضع ہے جن کو قطعی بہشتی اور دائمی رضا الٰہی کا مستحق اور تقویٰ وطہارت کا اہل قرار دیا جن کے متعلق کفر و فسق اور ہرگناہ سے نفرت کراہت کی شہادت قرآن نے دی کیا ان کے متعلق خیال وگمان کیا جاسکتا ہے کہ ان حضرات کے سامنے آنحضرتﷺ کی لخت جگر، طیبہ طاہرہ مخدومہ کائنات خاتون جنت ؓ پر ظلم اور ان کاحق غصب کیا گیا اور وہ ساری کامل الایمان فوجیں، انصار مہاجرین بنی ہاشم، بنی عبدمناف اس ناجائز اور ناحق کاروائی میں خاموش اور دم بخود رہیں۔ اگر بالفرض یہ اس طرح مانا جائے تو پھر اللہ تعالیٰ کی قرآن مجید میں شہادتیں غلط اور جناب رسول اللہﷺ کی تئیس سالہ تعلیم و تربیت اور تذکیہ و محنت رائیگان و بے اثر ہوکر رہ جائیں گی اور جس دین و شریعت اور قرآن و نبوت کا ثبوت ایسی جماعت کے ذریعہ پہنچا ہو وہ دین و قرآن اور نبی کس طرح قابل اعتماد و حق ہوگا۔ العیاذ باللہ!
واقعہ فدک اور سیدہ ؓ پر ظلم کی کہانی جس کا تذکرہ، قرآن مجید میں ہے۔ نہ فرمان رسول مقبولﷺ میں ہے اگر اس تاریخی واقعہ میں کوئی ایسی بات بالفرض ثابت ہو جس سے صحابہ کرام ؓ شاگردان رسولﷺ کی ساری جماعت کے ایمان اور دیانت و امانت اور نصوص قرآن اور احادیث نبویہ ﷺ سے ثابت شدہ راستی صداقت و تقویٰ پر زدپڑتی ہو۔ تو ایسی تاریخی بات قرآن و حدیث، رسول مقبول کے مقابلہ میں ناقابل قبول یا قرآن و حدیث کے مطابق کسی تاویل ، توجیہ کی مستحق ہوگی اصولی طور پر قرآن مجید اور حدیث رسولﷺ مقبول کے خلاف صرف کسی تاریخی واقعہ پر دین و مذہب اور عقیدہ و ایمان کی بنیاد رکھنا جہالت و ضلالت ہے۔
واقعہ فدک کے متعلق صحیح تشریح ، توجیہ چھوڑ کر یہ سمجھنا کہ صدیق اکبر ؓ ، خلیفہ اول نے ظلم اور ناحق کیا اور تمام مہاجر وانصار اور اہل ایمان کی فوجیں اس ظلم و کفر میں شریک ہوگئے۔ بنی ہاشم اور نبی علی السلام کے عم محترم حضرت عباس ؓ اور اسداللہ الغالب حیدر کرار ؓ جیسے بہادر اور غیور، خاموش رہے۔ یہ قرآن و حدیث کا انکار اور خدا و رسول خدا کو جھٹلانا ہے تو اگر اس واقعہ کی صحیح حقیقت اور توجیہ وتشریح معلوم نہ ہو۔ تو قرآن و حدیث کے فیصلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس واقع کو ہی صحیح نہ سمجھنا بہتر اور حسن عاقبت کا موجب ہوگا۔ اس اصولی تشریح کے بعد ہم واقعہ فدک کی حقیقت کو واضع کرتے ہیں۔ بتوفیق اللہ ۔
فدک!
مسئلہ فدک کو سمجھنے کے لئے امور ذیل کو ملحوظ و مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ (۱) فدک ایک گاؤں تھا، جو مدینہ طیبہ سے تین منزل پرتھا جسمیں چشمے اور کچھ کھجور کے درخت رھتے۔
یہ ایک مسئلہ حقیقت ہے کہ فدک بغیر لڑائی کے صحابہ ؓ قبضہ حضور علیہ السلام میں آیا تھا اور امور میں تھا۔ اہل سنت اور اہل تشیع بلکہ تمام مورخین مسلم و غیر مسلم کا اس بات میں کامل اتفاق واتحاد اور کلمہ واحدہ ہے کہ فدک اموال نئی میں تھا۔ خود شیعہ حضرات کی کتاب شرح نہج البلاغہ مصنفہ سید علی نقی، فیض الاسلام کے ص ۹۵۹ پر ہے۔
اہل فدک نصف آں را و بقولے تمام را بصلح و آتشی تسلیم نمووند۔
فدک کے لوگوں نے اس کا نصف اور ایک دوسرے قول میں ہے کہ تمام فدک صلح سے، بغیر جنگ کے حضورﷺ کے سپرد کردیا۔
اور فئی قرآن شریف نے ایسے اموال کو قرار دیا ہے۔ جو بغیر جنگ کے صلح سے قبضہ میں آویں۔
(۲) اموال نئی فدک ہویا غیر فدک، اس کے متعلق قرآن مجید میں صاف و صریح واضع الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے۔ پ ۲۸ سورہ حشر۔
ماافاء اللہ علیٰ رسولہ من اھل القریٰ فللہ وللرسول ولذی القربیٰ والیتٰمیٰ والمساکین وابن السبیل کیلایکون دولۃ بین الاغنیا (الآیۃ)
جس قدر اموال نئی ہیں، وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولاللہﷺ کیلئے اور زی القربیٰ یعنی رشتہ داران رسولاللہ ﷺ کے لئے ہیں۔ اورعام مسلمانوں میں سے یتیموں مسکینوں اور مسافروں کے لئے اور فقراء مہاجرین اور انصار مدینہ اور ان کے بعد آنے والے خیر خواہ حاجتمند، مسلمانوں کے لئے ہیں۔
تاکہ اموال نئی دولت مند بے حاجت لوگوں کو لینے دینے اور قبضہ میں نہ آجاویں جو کچھ اور جتنا کچھ رسول اللہﷺ تم حقدار مسلمانوں کو دیدیں لے لو۔ اور جو تم سے روک لیں اس سے تم رک جاؤ۔
اموال نئی کے متعلق یہ آیت بالکل محکم اوراپنے معنیٰ میں نہایت واضع اور، غیر مبہم ہے۔ اور اموال نئی کے مستحق لوگوں کو بخوبی عیاں و نمایاں کرکے بیان کردیتی ہے۔ جو کہ نہ رسول پاک ﷺ سے مخفی تھی۔ اور نہ صدیق وفاروق سے پوشیدہ تھی اور ن ہ سیدہ ؓ و علی ؓ یا کسی دوسرے مسلمان سے کسی حجاب و نقاب مضمر مستتر تھی۔
اور فئی کے متعلق شیعہ حضرات کی کتاب تفویر صانی صفحہ ۲۱۰ پر ہے کہ امام جعفر صادق ؓ نے انفال وفی کے متعلق فرمایا۔
ھی للہ و للرسول علیہ السلام ولمن قام مقامہ بعدہ!
فئی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا حق ہے۔ اور اس کا حق ہے جو رسولﷺ کے بعد اس کا قائمقام خلیفہ بنے!۔
اس سے ثابت ہوا کہ فئی کسی کی شخصی ملکیت اور وراثت نہیں۔
(۳) یہ امر بھی فریقین کی معتبر کتابوں سے ثابت و محقق ہے۔ جیساکہ کہ عنقریب ناظرین کی خدمت میں واضع کردیا جائیگا (انشاء اللہ تعالیٰ) کہ اموال فئی فدک وغیرہ کے متعلق جو عمل اور طریقہ جناب رسول پاک ﷺ نے اپنے عہد مبارک اور حیات طیبہ میں مقرر اور جاری فرمایا تھا۔ تمام خلفائے راشدین ؓ کی خلافت راشدہ حتیٰ کہ حضرت علی ؓ اور حضرت حسن کی خلافت راشدہ کے دور تک اس میں کسی قسم کا تغیر و تبدل واقع نہ ہوا۔ اور عمل رسول مقبولﷺ اور عمل صدیق و فاروق اور عثمان غنی اور علی المرتضیٰ و حسن المجتبیٰ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین۔
یکساں طور پر واحد و متحد رہا ذرہ بھر فرق اور سرموتفادت اس مدت میں ایک لمحہ کے لئے بھی واقع نہیں ہوا یعنی قرآن مجید میں مذکورہ بالا بیان کردہ حکم و ہدایت کے موافق جسطرح خود آنحضرتﷺ نے عمل فرمایا۔ بعینہ وہی عمل جوں کا توں تمام خلفائے راشدین نے جاری رکھا ہا۔ مروان و نجیرہ نے اپنی حکومت کے رو میں قطع و برید کی توجناب عمر ابن عبدالعزیز نے اپنی خلافت کے زمانہ میں پھر وہی عمل مطابق حکم قرآن اور مطابق عمل رسول اللہﷺ و خلفائے راشدین از سرنوجاری فرمایا۔
اگر نعوذباللہ صدیق ؓ و فاروق ؓ وغیرہ کا یہ عمل ظالمانہ، فاصبانہ یا مرتدانہ و منافقہ نہ کہا جائے، تو ان مہذب خطابات اور ایسے شائستہ ، ومقدس کلمات سے اسی عمل کو جاری وشروع فرمانے والے (آنحضرتﷺ) اور باقی اور قائم و دائم رکھنے والے (حضرت علی ؓ و حضرت حسن ؓ ) کس طرح مستثنیٰ اور میرا ہوں گے۔ (العیاذ باللہ)
بلکہ یہ امر بھی ثابت ہے کہ اموال فئی میں سے اراضی وباغات بنی تضیر وغیرہ حضرت عمر فاروق ؓ نے حضرت علی ؓ اور حضرت عباس ؓ کی تولیت میں دیدیئے تھے۔ کہ وہ انکی پیداوار اور آمدنی کے ہر قسم کے منتظم ومتولی رہیں۔ چنانچہ یہ دونوں حضرات حضرت عمر ؓ کی خلافت میں ان اموالی فئی کوعمل رسول مقبول ﷺ کے مطابق تمام مستحقین مذکورہ میں تقسیم کرتے تھے۔
(۴) نیز یہ امر بھی فریقین کی معتبر مستند مسلمہ کتابوں میں ثابت ہے کہ صدیق اکبر ؓ نے سیدہ ؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ میں جب تک زندہ ہوں، ان اموال فئی فدک وغیرہ میں عمل رسول مقبولﷺ کو ہی جاری رکھوں گا ان میں کسی کو کسی قسم کا تغیر وتبدل اور کوئی دوسرا طریقہ جاری نہ کرنے دوں گا ہاں میرے ذاتی مال اموال میں سے آپ کو اختیار ہے، جو چاہیں لے لیں۔ سب کچھ آپ پر قربان ہے۔
چنانچہ شیعہ کی معتبر کتاب حق الیقین کے صفحہ ۲۳۱ پر ثابت ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ نے بہت سے فضائل و مناقب جناب سیدہ ؓ کے بیان کئے اور کہا۔
اموال و احوال خودرا از تو مضائقہ ندارم آنچہ خواہی بگیر۔ تو سیدہ امت پدرخودی و شجرہ طیبہ از برائے فرزندان خود انکار فضل تو کسے نمے تو اندکرد و حکم تو نافذ است درمال من۔ امادر گفتہ پدر تو نمے تو انم کرد۔
میں اپنا مال جائیداد دینے میں تم سے دریغ نہیں رکھتا۔ جو کچھ مرضی چاہے لے لجیئے آپ اپنے باپ کی امت کی سیدہ ؓ ہیں اور اپنے فرزندوں کے لئے پاکیزہ اصل اور شجرہ طیبہ ہیں۔
آپ کے فضائل کا کوئی انکار نہیں کرتا آپ کا حکم میرے ذاتی مال میں چوں و چرا جاری و منظور ہے۔ لیکن عام مسلمانوں کے مال میں آپ کے والد بزرگوارﷺ کے حکم کی مخالفت ہرگز نہیں کرسکتا۔
اسی قسم کے الفاظ بخاری شریف میں ہیں۔ صدیق اکبر ؓ نے سیدہ کی خدمت میں عرض کیا۔
قرابۃ رسول اللہ ﷺ احب الی من قرابتی۔!
جناب رسول اللہ ﷺ کے رشتہ دار مجھے اپنے رشتہ داروں سے زیادہ محبوب ہیں۔
نیز بخاری شریف میں ہے کہ سیدہ ؓ کی خدمت میں عرض کیا۔
لست تار گاً شیئاً کان رسول اللہ ﷺ یعمل بہ الا انی عملت بہ فانی اخشی ان ترکت شیئاً من امرہ ان ازیغ۔!
میں کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑسکتا جس پر جناب رسول اللہ ﷺ عمل کرتے تھے۔ میں ضرور وہی عمل جاری رکھوں گا۔کیونکہ میں ڈرتا ہوں، اگر کوئی چیز آپﷺ کے عمل سے چھوڑدوں تو گمراہ ہوجاؤں گا۔ یعنی سیدہ ؓ کی خدمت اپنے مال اموال پیش کرنے سے دریغ نہ کیا مگر فدک وغیرہ اموال فئے میں حکم ورضاء رسول ﷺ کے خلاف کچھ کرنے کو گمراہی جانا۔
(۵) مسئلہ فدک میں یہ امر سب سے زیادہ قابل غور ہے کہ فدک کی محرومی کی وجہ سے جناب صدیق اکبر ؓ پر سیدہ ؓ کی ناراضگی کی کہانی اہل السنت والجماعت کی کسی معتبر کتاب میں جناب سید النساء بی بی فاطمۃ الزہرا ؓ کی زبانی ثابت نہیں کی جاسکتی۔ یہ کوئی ثابت نہیں کرسکتا کہ سیدہ ؓ نے خود فرمایا ہے کہ ابوبکر صدیق ؓ نے میرا حق غصب کرلیا ہے اور مجھ پر ظلم کیا ہے میں اس سے ناراض ہوں اس سے کبھی بات چیت نہ کروں گی۔
ہمارا دعویٰ ہے کہ قیامت تک کوئی شخص اہل سنت کی معتبر کتابوں سے اس قسم کا ثبوت پیش نہیں کرسکتا ناراضگی جو فعل قلب ہے جب تک خود ظاہر نہ کی جائے دوسرے کو اس کا علم نہیں ہوسکتا ہاں اندازے اور قیاس سے بوجہ بعض قرائن و حالات کے دوسرا شخص بیان کرے گا۔ مگر بالفرض اگر وہ دوسرا شخص معصوم بھی ہو اندازے اور قیاس سے کسی شخص کے متعلق کوئی رائے ظاہر کرے تو اس رائے و قیاس مین غلط فہمی کا احتمال ہوسکتا ہے جیسے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے واقعہ میں موسیٰ علیہ السلام معصوم نبی نے کشتی توڑنے کے وقت رائے ظاہر کی، تونے کشتی کو اس لئے توڑا کہ کشتی والوں کو غرق کرے، حالانگہ حضرت خضر علیہ السلام نے یہ کام دوسری غرض کے لئے کیا تھا تو دوسرے شخص کے متعلق کوئی رائے یہ ضروری نہیں کہ وہ صحیح ہو۔ تو سیدہ ؓ اور صدیق ؓ کے متعلق کسی دوسرے شخص کا یہ خیال کہ باہم ناراض تھے۔ اگرچہ وہ شخص بالفرض معصوم بھی ہو۔ یقیناً اس وقت تک صحیح نہیں ہوسکتا جب تک سیدہ ؓ خود بنفس نفیس اپنی زبانی ناراضگی کا اظہار نہ فرمائیں۔ اور یہ بات قطعاً کسی معتبر کتاب اہل سنت سے ثابت نہیں ہوسکتی۔
مگر اس کے برعکس شیعہ کی معتبر ترین کتابوں میں سیدہ ؓ کی زبانی جناب علی الرمرتضیٰ ؓ پر اس فدک کی وجہ سے سخت ناراضگی ثابت ہے، جس کا ازالہ حضرت علی ؓ نے اپنی خلافت میں بھی نہ کیا۔ بلکہ فدک کو جناب رسول کریم علیہ السلام اور صدیق و فاروق وغنی ؓ اجمعین والے طریقہ پر باقی رکھا اور سابقہ خلفائے راشدین کے طرز عمل میں کسی تغیر کو جائز نہ سمجھا۔
جناب علی المرتضیٰ رضۃ جن پر سیدہ ؓ کی ناراضگی شیعہ کے نزدیک یقینی ثابت ہے کہ ان کو سیدہ ؓ نے خود ناراضگی کے سخت الفاظ فرمائے ان کو امام معصوم اور خلیفہ برحق سمجھنا۔ اور۰ ابوبکر صدیق ؓ جن پر سیدہ ؓ کی ناراضگی کا کوئی یقینی ثبوت نہیں۔ ان کو ظلم، غاصب سمجھنا کس انصاف اور کس دیانت پرمبنی ہے؟
(۶) مسئلہ فدک کو سمجھنے کیلئے یہ حقیقت بھی خوب ملحوظ اور ذہن نشین رہنی چاہیے کہ شیعہ حضرات کے نزدیک سیدہ ؓ جناب رسول اللہﷺ کے حیطان سبعہ (سات باغوں ) پر قابض اور متصرف تھیں۔ اور حضرت علی ؓ کے املاک ، اراضی و باغات اس کے علاوہ تھے۔ ان سات باغوں کی وراثت حسب روایت شیعہ آنحضرت ﷺ کے حقیقی چچا حضرت عباس ؓ نے جناب سیدہ ؓ سے طلب کی تو حضرت علی ؓ اور سیدہ ؓ نے یہی جواب دیا کہ ان میں وراثت نہیں ہوسکتی اور ان سات باغوں میں سے ایک حب بھی حضرت عباس کو نہ دیا۔
عن احمد ابن محمد عن ابی الحسن الثانی علیہ السلام قال سائتہ عن الحیطان السبعۃ التی کانت میراث رسول اللہ ﷺ لفاطمۃ علیہ السلام فقال لا۔ انما کانت وقفاً۔ کان رسول اللہ ﷺ یا خذ الیہ منھا ما ینفق علیٰ اضیافہ ۔فلما قبض جاء العباس یخاصم فاطمۃ فیھا۔ فشھد علی علیہ السلام وغیرہ انما وقف علی فاظمۃ علیہ السلام وھی الدلال والعفاف والحسنیٰ والصافیہ ومالا ابراھیم والمبین و البرقہ۔ !
احمد ابن محمد نے امام موسیٰ کا ظم علیہ السلام سے روایات کی کہ میں نے امام موسیٰ کا ظم سے ان سات باغوں کے متعلق دریافت کیا جو فاطمہ علیہ السلام کے پاس جناب رسول اللہ ﷺ کی میراث تھے۔ تو امام صاحب نے فرمایا میراث نہ تھے بلکہ وقف تھے۔ جناب رسول اللہ ﷺ ان میں سے اتنا لے لیتے تھے جو کہ مہمانوں کو کافی ہوتا تھا۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ رحلت فرما گئے۔ تو حضرت عباس ؓ نے ان سات باغوں کی بابت جناب فاطمۃ ؓ سے جھگڑا کیا پھر حضرت علی ؓ وغیرہ نے شہادت دی وہ وقف ہیں حضرت فاطمہ پر۔ اور وہ سات باغ دلال، عفاف، حسنیٰ، صافیہ ، مالام ابراہیم، مبیت اور برقہ تھے۔!
اب قابل غور امر یہ ہے کہ جناب سیدہ کے پاس یہ سات باغ بھی تھے اور حضرت علی رضۃ کی اراضی اور باغات بھی علاوہ تھے تو فدک کے اموال فئے کے متعلق اس قسم کا نظریہ کہ یہ اموال فدک آنحضرت ﷺ نے اپنی بیٹی کو دے دیئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شان نبوت پر سخت حملہ ہے جبکہ کتب شیعہ کے بینا کے مطابق فدک کی پیداوار ہزاروں دینار تھی جیسےکہ ملا باقر مجلسی حیات القلوب میں نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اہل فدک سے معاہدہ کرلیا کہ وہ ہر سال چوبیس ہزار دینار دیں۔ تو اس قسم کا نظریہ خلاف قرآن اور شان نبوت کے منافی ہے کہ آنحضرت ﷺ ، سات باغ بھی سیدہ ؓ کو دے جاویں اور ہزاروں دینار جو لاگھوں روپے ہوتے ہیں کی آمدنی کے اموال فئی فدک بھی سیدہ رضۃ کو دے جاویں۔ یہ تو کیلا یکون دولۃ بین الاغنیاء منکم کی نص صریح کے خلاف رسول پاک ﷺ کی طرف ایک خود غرضانہ خویش پروری اور اربانوازی کا بدترین الزام منسوب کرنا ہے (العیاذباللہ)
اور آپ کی شان رحمۃ اللعالمینی پر سخت بے انصافی اور بے رحمی کا دھبہ ہے حالانکہ اصحاب صفہ و دیگر فقراء مہاجرین و انصار کے پاس بدن ڈھانپنے کے لئے کپڑا اور پیٹ پالنے کے لئے نان جویں میسر نہ تھی اور جہاد فی سبیل اللہ کے ضروریات اور مصارف میں اس قدر تنگی تھی کہ آنحضرت ﷺ کا آخری غزہ تبوک جو عیش اعسرۃ اور سخت تنگی کی گھڑی سے مشہور ہے۔ اس غزوہ میں، مجادوں ایک ایک دانہ کھجور کا ملتا رہا اور جب وہ ختم ہونے کو آگیا تو چند مجاہدوں کو ایک دانہ دیا جاتا تھا جسے وہ بارے بارے چوس کر پانی پی لیا کرتے تھے اور قرآن مجید میں اس غزوہ کی سواریوں کا نقشہ ان الفاظ میں پیش کرتاے۔
اور ان صحابہ کرام ؓ پر کوئی گناہ نہیں جو آپ کی خدمت میں آکر عرض کرتے ہیں کہ ہمارے جہاد میں جانے کیلئے سامان اور سواری کا انتظام فرمایئے آپ ان کو جواب دیتے ہیں کہ مجھے کہیں سے تمہارے لئے سواریاں نہیں مل سکتیں تو وہ بیچارے ایسی حالت مین واپس لوٹتے ہیں کہ ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش ٹپک رہی ہوتی ہے اس غم والم میں کہ انکو جہاد فی سبیل اللہ میں جانے کے لئے کچھ خرچ حاصل نہیں ہوسکتا۔
تو کیا العیاذباللہ ، آنحضرت ﷺ نے تمام فقراء ، مساکین، یتامیٰ انصارومہاجرین کے حقوق اور ضروریات اسلامی کو پس پشت ڈال کر خلاف حکم قرآن اتنا تمام مال اپنی بیٹی کی ملکیت میں دیدیا تھا حالانکہ خود شیعہ کی کتابوں اور اہلسنت کی کتابوں میں ثابت ہے کہ سیدہؓ نے جب آنحضرت ﷺ سے خانگی کاروبار میں امداد کے لئے لونڈی مانگی تو آنحضرتﷺ نے سبحان اللہ، الحمداللہ اللہ اکبر کی تسبیحات نماز کے بعد تنتیس ۳۳ بار پڑھنے کی تعلیم فرمادی اور فرمایا کہ خادموں نوکروں سے ان تسبیحات کا پڑھ لینا بدر جہا بہتر اور کار آمدہے، اور جب سیدہؓ نے فدک کے متعلق سوال کیا تو آنحضرتﷺ نے صاف انکار کردیا اور اپنی زندگی میں اسلامی ضروریات اور بنو ہاشم اور یتیموں ، مسکینوں اور بیوگان کی ضرورت میں صرف کرتے رہتے مگر سیدہؓ نہ دیا۔ جیساکہ مشکوٰۃ شریف، ابوداؤد شریف میں مرقوم ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آںحضرتﷺ کو حکم فرمایا۔
اے نبی علیہ السلام اپنی ازواج کو فرمادیجیئے ، اگر تم دنیا کی زندگی اور اسکی زیب و زینت چاہتی ہو تو پس آؤ۔ ہم تمکو یہ سامان دنیا دیکر اپنے سے اچھے طریقہ پر دور اور جدا کردیں اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور دارآخرت کی طلبگار ہو تو اللہ تعالیی نے تم میں سے نیک کام کرنے والیوں کیلئے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔
اور آگے فرمایا۔
اللہ تعالیٰ کا یہی ارادہ ہے کہ تم اہل بیت نبوی کو حب دنیا کی میل سے پاک صاف کر کے اللہ اور رسولﷺ اور آخرت کی محبت کے پاک مقام اور عالی مرتبہ پر فائز کردے۔
تو کیا رسول پاکﷺ ازواج مطہرات کے لئے جس مبغوض چیز سامان دنیا کو ناپسند فرمارہے ہیں۔ اس مبغوض و مذموم سامان دنیا کو اپنی لخت جگر سیدہؓ کیلئے پسند کیا اور تمام مستحق لوگوں کو محروم کر کے العیاذباللہ اتنا کثیر مال سیدہؓ کو دے دیا اور جس دنیا سے پاکی و تطہیر کی بجائے جاگیرداری اور دنیاداری میں ملوث اور مبتلا کر گئے ۔
تو آیات قرآنیہ اور طریقہ نبویہ اس بات پر صراحۃً دلالت کرتے ہیں کہ جن حضرات نے ہبہء فدک کی یہ کہانی گھڑی ہوئی ہے کہ آنحضرتﷺ نے فدک سیدہؓ کو ہبہ کردیا تھا۔ یہ بالکل اور موضوع اور شان نبوت کے خلاف ہے اور ہبہ کی کہانی کو شیعہ حضرات کا دوسرا دعویٰ بھی رد کردیتا ہے کہ سیدہؓ نے فدک کے بارے میں صدیق اکبرؓ سے میراث رسول اللہﷺ کا مطالبہ کیا۔
تو بالفرض اگر فدک کا ہبہ ہوچکا تھا تو اس میں پھر میراث کا سوال کیسے پیدا ہوسکتا ہے۔ جبکہ ایک چیز مورث کی ملکیت بھی نہیں رہی پھر اس میں دعویٰ میراث کیسے ہوسکتا ہے تو حسب قول شیعہ سیدہؓ کا دعویٰ کرنا بھی ہبہ کی کہانی با بالکل لغو اور باطل قرار دیتا ہے۔
میراث انبیاء علیہم السلام!
اب میراث کے دعوے کی حقیقت بھی سمجھ لیجیئے جب سیدہؓ اور علیؓ خود حضرت عباسؓ کو ان مذکورہ سات باغوں کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ میراث رسول علیہ السلام نہیں۔ یہ تو وقف رسولﷺ ہیں۔ ان میں میراث نہیں۔
تو فدک جس کو قرآن مجید نے صراحۃً وقف وفئی قراردیا۔ اس میں کیسے وراثت کا سوال جائز ہوسکتا ہے۔ جس طرح ان سات باغوں اور اموال فئی فدک وغیرہ میں وراثت کا سوال غلط ہے۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے تمام اموال میں وارثت کا سوال باطل اور غلط ہے ۔ اس میں اہل سنت اور اہل تشیع کی معتبر روایات واحادیث متفق اور متحد ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کی مالی وراثت ہرگز نہیں ہوتی بلکہ صرف علوم و اخلاق نبوت ہی ہیں جو ان مقدس بزرگوں کی وراثت ہوتی ہے۔
دلیل اول:(۱) حضرت امام جعفر صادقؒ نے فرمایا۔
قال رسول اللہﷺ ان العماع ورثہ الانبیاء ان الانبیاء لم یورثو! دیناراًولادرہما ولکن اورثواالعلم فمن اخذ منہ اخذ بحظ وانر۔ (شیعہ کی معتبر کتاب اصول کافی ص ۱۸)
ارشاد فارمایا جناب رسول اللہﷺ نے کہ انبیاء کے وارث علماء ہی ہیں۔ کیونکہ انبیاء دینار ودرہم (مال دنیا) کا کسی کو وارث نہیں بناتے لیکن علم وراثت میں دیتے ہیں پس جس نے ان کے علم سے حصہ لیا اس نے اچھا حصہ پالیا۔
دلیل دوم:حضرت علی المرتضیٰؓ شیر خدا نے اپنے بیٹے محمد بن حنیفیہ کو وصیت فرمائی۔
وتفقھ فی الدین فان الفقھار ورثۃ الانبیاء ان الانبیاء لم یورثوادینارًا ولادرھماً ولٰکنھم ورثو اللعلم فمن اخذ منہ اخذ بحظ وافر۔!
اے بیٹے دین کا پورا کامل علم حاصل کر۔ کیونکہ دین کو پوری طرح سمجھنے والے عالم انبیاء کے وارث ہیں۔ کیوںکہ انبیاء نے دینار و درہم (دنیاوی اموال) کا وارث کسی کو نہیں بنایا وہ تو صرف علم کی وراثت دے جاتے ہیں تو جس نے اس علم دین کو حاصل کیا اس نے اس علم دین کو حاصل کیا اس نے اچھا حصہ پالیا۔
دلیل سوم (۳)امام جعفرؓ نے فرمایا۔
بیشک علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں اور یہ اس لئے کہ انبیاء اپنی وراثت درہم ودینار نہیں چھوڑتے بلکہ وہ احادیث (علوم و احکام شریعت)ہی اپنی وراثت چھوڑجاتے ہیں۔ پس جس شخص نے احادیث وعلوم نبوت سے کچھ حصہ لیا تو اس نے بڑا کافی وافی حصہ لی۔
تو ان تینوں روایات نے ثابت کردیا کہ جناب رسول اللہﷺ نے جناب علی المرتضیٰ ؓ ور جناب امام جعفر صادقؓ نے صاف طور پر فرمادیا کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی وراثت مالی درہم ودینار اموال دنیا ہرگز نہیں ہوتی۔ بلکہ ان کی وراثت صرف علوم واحادیث واخلاق نبوت ہوتی ہے جسطرح کہ تیسری روایت میں لفظ انما جو حصر کے لئے ہوتا ہے دلالت کررہا ہے۔
دلیل چہارم (۴): حضرت امام جعفر صادقؒ نے فرمایا:
حضرت سلیمان علیہ السلام ، حضرت داؤد علیہ السلام کے وارث ہوئے اور جناب محمد علیہ السلام حضرت سلیمان علیہ السلام کے وارث ہوئے۔
تو حضرت امام جعفرصادقؒ کے اس ارشاد پر غور کیجیئے کیا جناب محمد مصطفیٰﷺ حضرت سلیمان علیہ السلام کے قریبی، جدی رشتہ دار ہونے کے باعث ان کے مال اموال کے وارث ہوئے یا ہوسکتے تھے۔ تو امام صاحب کا مقصد یہاں بھی وہی وراثت نبوت و علوم و اخلاق نبوت سے یعنی انبیاء علیہم السلام کی وراثت علمی دینی، اور اخلاقی روحانی ہی ہوتی ہے نہ کہ مالی ودنیاوی!
دلیل پنجم (۵):شیعہ کی معتبر کتاب خصال بن بابویہ ص ۳۹) پرثابت ہے
جناب سیدہؓ رسول اللہﷺ کی خدمت میں مرض الموت میں آئیں اور عرض کیا۔ یہ دونوں بچے ہیَں۔ ان کو کچھ میراث دے دیجیئے تو حضورﷺ نے فرمایا کہ حسنؓ کے لئے میری ہیبت اور حسینؓ کےلئے میری جرائت ہے۔
آںحضرتﷺ کے اس ارشاد پر غور کیجیئے کہ آپ نے اپنی وراثت میں اپنے ان دونوں عزیزوں کو اپنے اخلاق ہی عطا کئے اور مالی وراثت کا نام ونشان بھی نہ لیا۔ نیز شیعہ کی معتبر کتاب "مناقب فاخرہ اللعترۃالطاھرۃ " ص ۱۸۹ پر بھی یہ روایت ثابت ہے اور شرح نہج الباغۃ حدیدی جلد دوم جزرشانزدہم ص ۲۶۱ پر بھی یہ روایت موجود ہے۔
دلیل ششم (۶):
فضیل ابن یسار نے نقل کیا کہ میں نے حضرت امام محمد باقر سے سنا وہ فرماتے تھے اللہ کی قسم کہ جناب رسول اللہ ﷺ کے چچا حضرت عباسؓ اور چچازاد بھائی حضرت علیؓ اور دوسرے تمام رشتہ دار آپ کے وارث نہ ہوئے۔ آپﷺ کی وارث صرف اکیلی حضرت فاطمہؓ ہی ہوئی تھیں۔
من لایحفر الفقیہہ کی اس روایت معتبرہ پر غور کیجیئے کہ امام محمدباقر فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کی وراثت نہ حضرت عباسؓ کو ملی اور نہ کسی دوسرے وارث ورشتہ دار، ازواج مطہرات وغیرہ کو سوائے بی بی فاطمہ علیہ السلام کے کوئی حقدار وراثت نہ تھا۔
تو اب غور کیجیئے قرآن کریم میں جو وراثت مالی کا قانون اور حکم منصوص بیان فرمایا گیا ہے کہ وراثت مالی لڑکی کو نصف اور ازواج کو آٹھواں حصہ دیا جائے۔ پاس اگر جناب رسول اللہﷺ کی بھی یہی مالی وراثت بموجب حکم قرآن ہوتی۔ تو پھر، شیعہ حضرات کے نزدیک امام صاحب کیوں یہ ارشاد فرماتے کہ حضور علیہ السلام کے تمام رشتہ دار اور حقدار آپ کے وارث نہ ہوئے بلکہ صرف اکیلی جناب فاطمہ علیہ السلام مالک ووارث ہوئی تھیں۔ یہ تمام مذکورہ روایات صراحۃً دلالت کرتی ہیں کہ ائمہ کے نزدیک آنحضرت ﷺ کی مالی وراثت اس طرح ہرگز نہ تھی جس طرح کہ عام مسلمانوں کی مالی وراثت ان کے ورثاء اور رشتہ داروں میں، بموجب حکم قرآن تقسیم ہوتی ہے۔ بلکہ حضورعلیہ السلام اس مالی وراثت کے حکم سے خارج اور مستثنیٰ ہیں۔
اور اہل السنت والجماعت بھی تو یہی کہتے ہیں کہ حضور علیہ السلام کے ارشاد
ہم انبیاء مالی وراثت نہیں چھوڑجاتے بلکہ جو مال چھوڑ جاتے ہیں وہ وقف وصدقہ فی سبیل اللہ ہوتا ہے۔
کے مطابق آنحضرت ﷺ کی مالی وراثت نہ تھی اور آپ اس مالی وراثت کے حکم سے خارج و مستثنیٰ ہیں۔
سیدہؓ کے سوال کی کیفیت
عام طور پر شیعہ حضرات اور ان کے ذاکرین ومجتہدین بڑی شدت سے یہ دعویٰ کیا کرتے ہیں کہ اہل سنت کی بخاری شریف میں ثابت کہ سیدہؓ ابوبکرصدیقؓ کے دربار خلافت میں گئیں۔ اور وراثت رسول علیہ السلام کا سوال کیا مگر ابوبکر صدیقؓ نے حدیث رسول سناکر سیدہؓ کو خالی ہاتھ واپس کیا جس سے وہ ناراض ہوگئیں۔
اور بعض اہل سنت والجماعت بھی اپنے مطالعہ کی کمی اور بخاری شریف وغیرہ کتب احادیث کو پوری طرح نہ دیکھنے کے باعث یہی خیال کرتے ہیں کہ سیدہؓ نے جاکر جناب ابوبکرصدیقؓ سے وراثت کا سوال کیا۔
مگر یہ خیال بالکل ٖغلط ہے بخاری شریف اور مسلم شریف وغیرہ کی تحقیق سے جو کچھ ثابت ہے وہ یہ ہے کہ سیدہؓ بالکل جناب ابوبکرصدیقؓ کے پاس دربار خلافت میں اس سوال کے لئے نہیں گئیں۔ بلکہ سیدہؓ نے اپنا آدمی بھیجا۔
جس نے جاکر جناب ابوبکرصدیقؓ سے یہ سوال کیا دیکھیئے بخاری شریف جلد اول، ص ۵۲۶ پر ثابت ہے۔
عن عائشۃ ؓ فاطمۃ ارسلت الیٰ ابی بکر تسئلہ میراثھا من النبی ﷺ مما فاء اللہ
حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ جناب فاطمہ ؓ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس آدمی بھیج کر اموال فئی میں میراث کا سوال کیا۔ الخ۔
تو بخاری شریف کے یہ الفاظ ارسلت فاظمۃ، الخ صراحۃً دلالت کرتے ہیں کہ خود سیدہؓ نہیں گئیں بلکہ کسی قاصد کو بھیج کر سوال کیا۔ تو جس روایت میں سیدہؓ کے سوال کرنے اور جنے کا ذکر ہے وہ مجازی طور پر ہے۔ کیونکہ واقعہ واحد ہے۔ یعنی جو کام کسی کے حکم سے کیا جاتا ہے اس کام کو اس حکم کرنیوالے کی طرف منسوب کردیا جاتا ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ بادشاہ نے نہر نکالی ہے یا سڑک بنائی ہے۔ تو خود بادشاہ نہ تو نہرنکالتا ہے اور نہ سڑک بناتاہے۔ بلکہ مزدور و مستری یہ کام کرتے ہیں۔ بادشاہ کے حکم کی وجہ سے وہ کام اس کی طرف منسوب ہوتا ہے اس لئے یہاں بھی سوال کرنے یا آنے کو جو ذکر سیدہؓ کے متعلقہے وہ بطور مجاز اور حکم دینے اور آدمی بھیجنے کے ہے۔
سیدۃؓ کے سوال کی حقیقت و حکمت
جب آنحضرتﷺ کی مالی وراثت نہ تھی اور جبکہ صراحۃً قرآن مجید اموال فئی کے متعلق حکم دے رہا ہے کہ اللہ و رسول اللہﷺ اور ذوالقربیٰ اور یتامیٰ ومساکین اور ابن سبیل اور فقراء مہاجرین وانصار وغیرہ کیلئے ہیں۔ کسی کے قبضہ میں اس طرح نہ دیئے جائیں، کہ یہ مال دولت مند و بے حاجت لوگوں کے قبضہ اور تصرف اور لینے دینے میں آجاویں تو سیدہؓ کے وراثت کے سوال کا مقصد کیا تھا؟ تو اس کا جواب یہ ہے جو زہدۃالمحقیقین، عمدۃ المتاخرین حضرت علامہ سیدہ محمد انورشاہ صاحب مرحوم نے عرف شذی شرح ترمذی صفحہ ۴۸۵ پر سید سمہودی کا قول نقل کیا ہے: کہ "حضرت فاطمہ ؓ کا سوال ترکہ کے حصول ملکیت یعنی مالک بننے کے خیال اور ارادہ سے نہ تھا۔ بلکہ صرف ان اموال ٖفئی اور وقف اموال میں بطور قرابت و رشتہ داری متولی بننے کے متعلق تھا۔" جس کے جواب میں صدیق اکبرؓ نے حدیث رسول اللہﷺ سنا دی جوکہ حضرت علیؓ اور حضرت عباسؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف وغیرہ کبار صحابہ ؓ بہت سے حضرات جانتے تھے کہ نبی علیہ السلام کے اموال متروکہ میں کسی قسم کی وراثت نہیں چل سکتی۔ نہ مالکانہ، نہ متولیانہ۔ بس اس حقیقت کے بعد پھر کبھی سیدہؓ کو صدیقؓ سے اس سوال کی نوبت نہیں آئی۔ جبکہ صدیق اکبرؓ نے کہا۔
ان رسول اللہﷺ قال لانورث ما ترکنا فھو صدقۃ۔ انما یا کل آل محمد ﷺ من ھذا المال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وانی واللہ لااغیر شیئاً من صدقات النبی ﷺ التی کانت علیھانی عھد النبی ﷺ ولا عملن فیھا بما عمل فیھا رسول ﷺ ۔ (بخاری شریف جلد اول ص ۵۲۶)
تحقیق جناب رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ ہماری مالی وراثت نہیں ہوتی جو کچھ ہم چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ وقف ہوتاہے تو اس مال سے آل محمد ﷺ کا نان نفقہ کرچ ہوتا رہیگا، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تحقیق میں خدا کی قسم کر کے کہتاہوں کوئی معمولی سی معمولی چیز بھی صدقات رسول اللہﷺ میں سے تبدیل نہ کروں گا۔ وہ صدقات جسطرح کہ جناب رسول اللہﷺ کے عہد میں تھے۔ جوں کے توں اس طرح رکھوں گا اور ضرور بالضرور ان صدقات میں بعینہ وہی عمل اور دستور جاری رکھوں گا۔ جو خود حضور پرنورﷺ کا عمل تھا۔ یعنی صدیق اکبرؓ نے سیدہؓ کی خدمت میں یہی کہلا کر بھیجا کہ مین عمل رسول اللہ ﷺ کو جاری رکھوں گا اور اس مال سے آل محمد ﷺ کا خرچ خوراک ہوتا رہے گا۔ تو سیدہؓ صدیق اکبرؓ کے اس جواب سے مطمئن ہوگئیں۔ کہ صدیق اکبرؓ عمل نبویﷺ میں کسی قسم کے ردوبدل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔
خود شیعہ حضرات کی معتبر کتابوں میں بھی ثابت ہے کہ سیدہؓ ، صدیق اکبرؓ کے اسی جواب پر مطمئن اور خوش ہوگئیں۔ اور ان اموال فئے فدک وغیرہ سے اپنے تمام، اخراجات خانگی صدیق ؓ سے وصول کرتی رہیں۔ صدیقؓ نے سیدہ ؓ کی خدمت میں عرض کیا۔
وذالک علی اللہ ان اضع بھا کما کان یصنع فرضیت بذالک واخذت العھد علیہ بہ وکان یاخذ غلتھا فیدفع الیھم منھا مایکفیھم الخ۔ (شیعہ نہج البلاغۃ درۃ نجفیۃ ص ۳۳۲)
میں تیرے سامنے اللہ تعالیٰ کا عہد کر کے کہتاہوں کہ میں ان اموال فئی فدک وغیرہ میں اسی طرح کروں گا۔ جس طرح آنحضرت علیہ السلام کرتے تھے پس سیدہؓ اس بات پر راضی اور خوش ہوگئیں اور صدیق اکبرؓ سے یہی عہد لے لیا اور صدیق اکبرؓ ان اموال فئی کی پیداوار وصول کر کے حضرت سیدہؓ اور ان کے گھرانے کیلئے ان کا تمام کرچ کافی دوانی دے دیا کرتے تھے۔
درحقیقت سیدہؓ کے سوال کا مقصد اور منشاء یہی تھا کہ قریبی رشتہ داروں کو اس وقف رسول اللہﷺ اموال فئے کا متولی بنایا جاوے۔ مگر چونکہ اس متولی بنانے میں یہ اندیشہ اور خطرہ تھا کہ لوگوں میں یہ غلط فہمی ہوجائیگی کہ اموال رسول اللہﷺ جو وقف تھے ان میں وراثت جاری کردیگئی اور آئیندہ کے لئے ان اموال فئے کو بجائے وقف سمجھنے کے ورثاء اور رشتہ داروں میں تقسیم ہوجانے کا غلط خیال جاری ہوجاتا جس کو ابتدا ہی سے بند کردیاگیا۔
اور اسی وجہ سے حضرت عمرؓ نے بھی اپنی خلافت کے دوران میں حضرت علیؓ اور حجرت عباسؓ کو اراضی اور باغات فئی، جوان دونوں حضرات کی تولیت میں تھے تقسیم تولیت کے سوال پر انکار کردیا۔ تاکہ ان میں تقسیم بطور وراثت نہ سمجھی جاوے یا سیدہؓ اس سوال کو عدالت میں پیش کراکر حضورﷺ کی نبوت کی صداقت کو واضع فرمانا چاہتی تھیں تاکہ عدالت میں یہ بات پیش ہوکر خوب واضع و مشہور ہوجائے کہ حضور کا اعلان نبوت صرف اللہ تعالیٰ کے ارشاد اور تبلیغ دین اورہدایت خلق کے لئے تھا نہ کہ اپنی اولاد واقرباء کو جاگیردار اور مالدار بنانے کیلئے حتیٰ کہ حضورﷺ کی مقبوضہ جائیداد تک بھی کسی رشتہ دار کو نہیں مل رہی۔ نبی علیہ السلام کی جان ومال ہر چیز، اللہ تعالیٰ کے لئے وقف تھا
یہ سوال عدالت میں پیش نہ ہون کی صورت میں ممکن تھا کہ لوگ یہ خیال کرتے کہ حضورﷺ کی وراثت بھی باقی لوگوں کی طرح تقسیم ہوئی ہوگی۔
اور اس کے ساتھ ساتھ سیدہؓ نے اپنی اولاد وورثاء کیلئے بھی اپنی موجودگی میں یہ فیصلہ کراکر واضع کرادیا تاکہ میری اولاد کبھی میرے بعد اموال رسول میں میراث رسول میراث حاصل کرنے کی سعی نہ کرتی رہے۔ یا سیدہؓ صدیق اکبرؓ کے خیال وارادہ کی تحقیق کرنا چاہتی تھیں کہ حضور علیہ السلام کی طرح ایتمیٰ ۔ مساکین اور بنی ہاشم وغیرہ مستحقین پر خرچ کریں گے۔ یا کوئی طرز جدید اختیار کریں گے۔ جب صدیق اکبرؓ نے یہ کہا کہ " میں بعینہ اسی طرح کروں گا جس طرح آںحضرت ﷺ کرتے تھے تو سیدہؓ مطمئن اور خوش ہوگئیں۔
نیز سیدہؓ نے اس سوال وجواب کے ذریعہ صدیق کی صداقت کو دنیا کے سامنے واضع کردیا کہ خلیفہ رسول مقبول حکم رسول مقبول ﷺ کے خلاف کسی کی دو رعایت نہیں کرتا۔ خواہ کیسی محبوب و معززترین، ہستی کیوں نہ ہو۔
دلیل اول
(1) قرآن مجید ہے ۔
اللہ تعالیٰ تمہیں حکم کرتے ہیں کہ تمہاری وراثت سے تمہاری اولاد میں ایک بیٹے کو دو بیٹیوں کے برابر حصہ ملنا ہے۔
اس آیۃ میں عام حکم ہے جس سے جناب رسول اللہ ﷺ باہر نہیں ہیں۔ ان کا مال بھی ان کی بیٹی کا حق تھا۔ لیکن ابوبکر صدیقؓ نے سیدہؓ کو وراثت نہ دی اور صریح قرآن کے خلاف حدیث نحن معاشرالانبیاء لانورث خود اپنی روایت پیش کر کے سیدہؓ کو حق نہ دیا۔
اس آیت میں خطاب امت کو ہے اور جناب رسول اللہ ﷺ اس میں داخل نہیں ہیں۔ کیونکہ یہ اہلسنت اور اہل تشیع دونوں کے مذہب میں ثابت و محقق ہے کہ انبیاء کرام کی مالی وراثت ہرگز نہیں ہوتی۔ جس طرح کہ ہم اہل تشیع کی معتبر کتابوں سے جناب رسول اللہ ﷺ اور حضرت علیؓ اور امام جعفرصادقؓ کے فرمان نقل کرچکے ہیں اور امام اہل سنت کی کتابوں میں خود حضور علیہ السلام سے صحیح احادیث، متعدد صحابہ کرامؓ حضرت حذیفہؓ بن یمان، زبیر بن العوام، عباس وعلی، عثمان ،عمر، عبدالرحمٰن بن عوف، سعد ابن وقاص ابودرداء، ابوہریرہ اور ازواج مطہرات سے منقول و مروی ہیں کہ انبیاء کرام کی مالی وراثت نہیں ہوتی۔
یہ حدیث صرف ابوبکرصدیقؓ کی روایت نہیں بلکہ مذکورہ بالا تمام صحابہ کرام اور ائمہ اہلبیت سب کے ہاں مشہور و معروف تھی۔ اگر صرف ابوبکر صدیقؓ نے سنی ہوتی تب بھی وہ حدیث موجب علم یقینی تھی۔ کیونکہ حدیث کے متواتر و مشہور اور خبرواحد ہونے کی تقسیم ان لوگوں کے لئے ہے جنہوں نے خود حضور علیہ السلام سے نہ سنا ہو۔ حضور علیہ السلام سے خود سننے کے بعد قطعی و یقینی ہونے میں قرآن مجید اور حدیث شریف میں کوئی فرق نہیں رہتا۔
لہٰذا اس قطعی ویقینی حدیث رسول مقبولﷺ نے آیۃ یوصیکم اللہ الخ۔ کے خطاب کی تعین و تشریح کردی کہ یہ امت کے ساتھ مخصوص ہے۔ آنحضرتﷺ اس حکم میں داخل نہیں جیسا کہ:
نکاح کرو عورتوں میں سے جن کو پسند کرو۔ دو یا تین یا چار۔!
میں صرف امت کیلیئے حکم ہے اور حضورپرنورﷺ مستثنیٰ ہیں کیوں کہ آنحضرت ﷺ کو چار سے زیادہ عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت تھی۔
تو اس حدیث سے اس آیت کی تخصیص و تعین اور تشریح ہورہی ہے مخالفت لازم نہیں آتی۔ جس طرح کہ خود شیعہ حضرات کے نزدیک بھی اس آیت سے بہت سی چیزوں کی تشریح ہوچکی ہے جیسے باپ کی کافر اولاد اور غلام اور قاتل اولاد اور لعان کے بعد پیدا ہونے والی اولاد وارث نہیں ہوتی۔
دلیل دوم:
اور سلیمان علیہ السلام ، داؤد علیہ السلام کا وارث ہوا۔
تو اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء کی وراثت مالی بھی ہے۔
اس آیت میں وراثت سے مراد علوم ونبوت وبادشاہت کی وراثت ہے اس آیت کا سیاق وسباق اور مقام مدح کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس سے مراد وراثت علمی اور نبوت میں قائم مقامی ہے کیونکہ داؤد علیہ السلام کے انیس بیٹے تھے تو ان میں سے صرف اکیلے سلیمان علیہ السلام کو کیسے مالی وراثت مل سکتی تھی کہ باقی سب محروم ہوں۔
شیعہ کی معتبر کتاب اصول کافی کی روایات بھی اسی معنیٰ کی تائید کرتی ہے۔ ص ۱۳۷ پر مرقوم ہے۔
قال ابو عبداللہ علیہ السلام ان سلیمان ورث داؤد وان محمدًا ورث سلیمان۔
امام جعفر صادقؒ نے فرمایا کہ سلیمان علیہ السلام داؤد علیہ السلام کے وارث ہوئے اور جناب محمد ﷺ سلیمان علیہ السلام کے وارث ہوئے۔ تو اس میں بھی یہی علوم ونبوت کی وراثت مراد ہے کیونکہ آںحضرت ﷺ حضرت سلیمان علیہ السلام کے مال کے وارث تو ہرگز نہیں ہوئے۔
دلیل سوم:
حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا مانگی، کہ:
اے میرے رب! مجھے ایک بیٹا دے جو میرا وارث ہو اور آل یعقوب کا وارث بنے۔
تو اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء علیہ السلام کی وراثت ملی ہے۔
اس آیت میں بھی وراثت سے مراد مالی وراثت ہرگز نہیں ہوسکتی۔ بلکہ علوم اور نبوت میں قائم مقامی اور وراثت مراد ہے۔ کہ میرا اور آل یعقوب علیہ السلام کے علوم واخلاق نبوت کا قائمقام اور وارث بنے ورنہ زکریا علیہ السلام کے وقت آل یعقوب بنی اسرائیل کے ہزاروں لاکھوں آدمی موجود تھے، ان سب کی مالی وراثت صرف زکریا علیہ السلام کے بیٹے کو کس طرح حاصل ہوسکتی تھی۔ علاوہ ازیں پیغمبر کی شان نبوت کے خلاف ہے کہ مال دنیا کی فکر میں خوفزدہ ہوکر دعا مانگے کہ شرعی حکم سے وارث ہونے والے میرے چچا زاد بھائی نہ لے جاویں۔ ھم دعوےٰ سے کہ سکتے ہیں کہ قرآن کریم میں کہیں انبیاء علیہم السلام کی مالی وراثت ان کے اقرباء وورثاء میں تقسیم ہونے کا ثبوت نہیں ملتا۔ بلکہ یہ ثابت کرنا اور بھی زیادہ مشکل ہے کہ کسی نبی بعد اسکی بیٹی یا پوتی یا زوجہ وغیرہ یا کوئی عورت اس کی وارث بنائی گئی ہو۔
کیا سیدہؓ و علیؓ سے یہ حقیقت مخفی تھی کہ خواہمخواہ سیدہؓ کو نبی علیہ السلام کے ترکہ کا وارث خیال کرتے ہوں۔ اور آیت مذکورہ سے اس قسم کااستدلال کرتے ہوں علاوہ ازیں جب حضرت عباسؓ نے اراضی فئی کی مشترکہ تولیت کو چھوڑدیا تو وہ اراضی صرف حضرت علیؓ کی تولیت میں رہیں۔ اگر وراثت ہوتی تو حضرت علیؓ کیسے حضرت عباسؓ کا حق اپنے قبضہ میں رکھ سکتے تھے۔ بلکہ حضرت علیؓ کے بعد وہ اراضی حضرت حسن مجتبیٰؓؓ کے قبضہ میں اور ان کے بعد صرف حضرت حسینؓ کے قبضہ میں رہیں۔
اگر یہ وراثت ہوتی تو حضرت عباسؓ اور ازواج مطہراتؓ اپنا حصہ لیتے اور پھر حضرت علیؓ کے بعد حضرات حسنؓ و حسینؓ اور انکی ہمشیرہ گانؓ اپنے حصص تقسیم کرلیتے اور اگر نبی علیہ السلام کے ترکہ کا تقسیم نہ کرنا ظلم تھا تو یہ ظلم صرف سیدہؓ پر نہیں ہوا۔ بلکہ حضرت عباس اور حضورﷺ کے ازواج مطہرات جن میں خودصدیق اکبرؓ کی صاحبزادی اماالمومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ بھی تھیں ان سب پر ظلم ہوا۔
حضرت علیؓ اور حضرت حسنؓ کی خلافت راشدہ میں بھی اراضی فدک وغیرہ کی آمدنی اسی طرح سے تقسیم ہوتی رہی جس طرح صدیق اکبرؓ اور فاروق اعظمؓ وغیرہ کے زمانہ میں ہوتی تھی اور اہلبیت ، نبوت کے چشم وچراغ حضرت زید ابن شہید نے فرمایا۔
اگر ابوبکرصدیقؓ کی جگہ میں ہوتا تو فدک کے بارے میں وہی فیصلہ کرتا جو ابوبکرصدیقؓ نے کیا تھا۔
اگر فدک کو عمل رسول مقبولﷺ کے مطابق رکھنا ناحق اور ناجائز تھا تو اس میں حضرت صدیقؓ کے ساتھ حضرت علیؓ، حضرت حسنؓ و حسینؓ اور زید شہید سب کے سب شریک ہیں۔
سوال: اگر نبی اکرمﷺ کی میراث نہیں تھی تو ازواج مطہرات کو حجرے کیوں دیئے گئے؟
جواب:حضورﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں جس طرح سیدہ فاطمہ اور حضرت اسامہ کو گھر بنواکر ان کی ملکیت میں دیدیئے تھے۔ اسی طرح ہر ایک زوجہ مطہرہؓ کیلئے ایک ایک حجرہ بنواکر ان کے قبضہ میں دیدیا تھا۔ قرآن مقدس سے بھی یہی معلوم و مفہوم ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
اے حضور کی ازواج مطہرات اپنے گھروں میں رہو۔
اس سے ثابت ہوا کہ حجرے ازواج مطہرات کی ملکیت تھے۔ بطور میراث انکو نہیں دیئے گئے تھے۔
اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ یہ حجرات مبارکہ ازواج مطہراتؓ کی ملکیت نہیں تھے بلکہ حضورپرنورﷺ کی ملکیت تھے۔ تو پھر حضوراکرمﷺ کی وفات کے بعد حضرات امہات المومنین کو ان حجروں میں رہنے کا استحقاق اس طرح ہے جس طرح ایک عام مسلمان عورت کو خاوند کی وفات کے بعد، آیا عدت میں خاوند کے مکان میں رہنے کا حق ہے۔ کیونکہ ان ایام عدت میں وہ دوسرا نکاح نہیں کرسکتی۔
چونکہ حضورکریمﷺ کی وفات کے بعد ازواج مطہرات کو شرعاً کسی اور سے نکاح کرنی کی اجازت نہیں ہے۔ لہٰذا ان کو بھی تاحین حیات حضوراکرمﷺ کے مکانات میں رہائش اور سکونت کا استحقاق ہے اور وہ عملاً انہی کے ملک ہیں رہیں گے۔
روایت ہبہ !
ہبئہ فدک کا خیال اگرچہ مطالبئہ وراثت کے بعد بالکل باطل ہوجاتا ہے۔ تاہم جن روایات میں ہبہ کو ثابت اور بیان کیا گیا ہے وہ سب روافض کی اپنی بنائی ہوئی جھوٹی اور موضوع ہیں اور ان کے راوی رافضی ہیں۔
قصہ ہبہ کے خلاف اہل سنت کی کتاب معتبرہ میں ثابت ہے کہ جب حضرت عمر ابن عبدالعزیز خلیفہ ہوئے تو بنی مروان کو جمع کرکے فدک کے متعلق فرمایا
ان فاطمۃ ؓ سئلت ان یجعلھا الھا فابیٰ۔!
سیدہ فاطمہؓ نے عرض کی کہ حضورﷺ مجھے فدک دیدیں۔ تو حضورﷺ نے انکار کردیا۔
جب آنحضرت ﷺ کا وصال ہوگیا تو حضرت صدیق اکبرؓ اور حضرت فاروق اعظمؓ اپنے دور خلافت میں فدک کے متعلق وہی کرتے رہے جو عمل رسول مقبولﷺ کرگئے۔ حتیٰ کہ مجھ تک پہنچ گیا۔ جب حضورپرنورﷺ نے فدک سیدہ فاطمہؓ کو نہ دیا۔ تو جو چیز حضورﷺ نے سیدہ فاطمہؓ کو نہیں دی۔ میرے لئے بھی اپنے ملک اور قبضہ میں رکھنا جائز نہیں۔ میں تم کو گواہ کر کے فدک کو اسی حالت پر رد کرتا ہوں جس حالت پر جناب رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں تھا۔ (ابوداؤد شریف۔مشکوٰۃ شریف)
تحقیق روایت ناراضگی
اب قابل غور امر یہ ہے کہ جناب سیدہؓ نے صدیقؓ سے وراثت رسولﷺ کا سوال کیا تو صدیقؓ نے حدیث رسولﷺ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیان کی تو سیدہؓ غضبناک ہوگئیں۔ اور پھر کبھی کلام نہ کیا۔ اسکی کیا حقیقت ہے؟
الجواب:درحقیقت روایت ہی ہے۔ جب صدیق اکبرؓ نے حدیث رسول اللہﷺ بیان کی جو کہ متعدد حضرات صحابہ ؓ و اہلبیت ؓ جانتے اور مانتے تھے، تو سیدہ ؓ مطمئن اور خوش ہوگئیں اور اس بارے میں وفات تک پھر کسی قسم کا کلام نہ کیا۔ اس روایت میں یہ ھرگز نہ تھا کہ صدیق اکبرؓ سے کوئی کلام نہ کیا اور ان سے ناراض ہوگئیں تھیں۔ کیونکہ سیدہؓ کا حدیث رسول اللہﷺ سن کر ناراض ہونا ممکن ہی نہیں بلکہ ایک ادنیٰ مسلمان بھی ایسا نہیں جو کہ حدیث رسول سن کر ناراض ہو چہ جائیکہ سیدہؓ ناراض ہوں۔
توغضب کا لفظ روایت میں کیوں آگیا۔ اس کا جواب کیا ہے؟
(1) روایت فدک اصل میں صرف تین صحابہؓ سے مروی ہے۔
حضرت عائشہؓ صدیقہ، حضرت ابوہریرہؓ، حضرت ابوالطفیلؓ، حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت ابوالطفیل کی روایت میں ناراضگی کا نام و نشان نہیں۔ اور حضرت عائشہ صدیقہؓ کی روایت میں زہریؒ کے ذریعہ ہے اور زہری کے متعدد شاگردوں میں سے بعض نے کسی جگہ ناراضگی کا ذکر کیا اور کسی جگہ نہ کیا۔ لیکن دوسرے بعض نے بالکل ذکر ہی نہیں کیا۔
اور جہاں جہاں ناراضگی کا ذکر ہے۔ اس میں خود سیدہؓ کی زبان سے کسی صحیح روایت میں ان کا غضبناک اور ناراض ہونا ثابت نہیں۔ ناراضگی فعل قلب ہے جب تک ظاہر نہ کیجاوے دوسرے شخص کو اس کی خبر نہیں ہوسکتی۔ البتہ قرائن سے دوسرا شخص قیاس کرسکتا ہے۔ تو قیاس واندازہ سے راوی نے ناراضگی سمجھ کر غضبت روایت کیا ہے۔ جو اسکی غلط فہمی کا نتیجہ ہے بمقتضائے بشریت غلط فہمی ہوسکتی ہے۔ کیوںکہ قرائن خارجی سے نتیجہ نکالنے میں کبھی بڑوں سے بھی ایسی بات ہوجاتی ہے۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور سے واپسی پر یہ سمجھا کہ ہارون علیہ السلام نے ان کے پیچھے قوم کی خبر گیری میں میرے حکم کی اچھی طرح تعمیل نہیں کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حتیٰ کہ غصہ میں ہارون علیہ السلام کی داڑھی اور سر کے بال پکڑ کر کھینچے حالانکہ ہارون علیہ السلام بالکل بے قصور تھے۔ اور موسیٰ علیہ السلام کا یہ اندازہ ہارون علیہ السلام کی بابت درست نہ تھا۔
(2) علاوہ ازیں بعض چیزیں راوی اپنے قیاس سے صحیح سمجھ کر واقعہ بیان کرتا ہے۔ مگر حقیقت میں وہ اس کا بیجا قیاس اور تاثر ہوتا ہے صحیح واقعہ نہیں ہوتا اس کی سیرت میں بہت سی مثالیں موجود ہیں۔
ایک دفعہ حضورﷺ ازواج مطہرات سے چند روزبالاخانہ میں قیام پذیر ہوگئے تو مشہور ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے ازواج مطہرات کو طلاق دیدی ہے۔ حضرت عمرؓ یہ خبر سن کر سمجد میں آئے جہاں لوگ یہ کہ رہے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے طلاق دیدی ہے۔ حضرت عمرؓ نے بالاخانہ میں جاکر حضور علیہ السلام سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کوئی طلاق نہیں دی۔
جس طرح حضور علیہ السلام کی خلوت نشینی اور ازواج کے پاس آنے جانے سے رک جانے کے باعث لوگوں نے اپنے قیاس واندازہ سے طلاق سمجھ لی تھی۔ حالانکہ واقع میں کوئی طلاق نہ تھی اسی طرح اس روایت کے راوی نے اپنے استاد سے لم تتکلم کے الفاظ سنے اور اس سے اپنی غلط فہمی کے باعث ناراضگی سمجھ کر غضبت کا لفظ روایت میں بیان کردیا اور پھر ایک دوسرے سے نقل ہوتاگیا حالانکہ لم تتکلم کا مقصد یہ تھا کہ سیدہؓ کو فدک کے متعلق تسلی ہوگئی کہ اس میں وراثت بھی نہیں۔ اور اس میں مثل عمل رسول اللہ ﷺ عمل جاری رہنا ہے تو پھر اس بارے میں کبھی کوئی کلام دوبارہ نہ کیا۔
یہ مراد ہرگز نہ تھی کہ صدیقؓ پر ناراض ہوکر کلام تکلم بند کردیا اس غلط فہمی کے بیان سے راوی کے عدل وصداقت اور ثقہ ومعتبر ہونے پر کوئی اعتراض وشک نہیں ہوجاتا تو جس طرح حضورعلیہ السلام سے دریافت کرنے کے بعد ثابت ہوا کہ لوگوں کا قیاس غلط تھا واقعہ اس طرح نہ تھا تو اسی طرح اس ناراضگی سیدہؓ کے متعلق جب تک سیدہؓ کی زبانی ثبوت نہ طے کیے یقین وجرائت کی جاسکتی ہے کہ صدیقؓ سے حدیث رسول ﷺ کی سیدہؓ فی الواقع ناراض ہوگئی تھیں۔ بلکہ راوی نے اپنا قیاس واندازہ ناراضگی کا لگایا ہے جو فی الحقیقت واقعہ نہیں ہے۔ لم تتکلم کے الفاظ اپنے استاذ سے سنے اور اس کا سبب ناراضگی سمجھ کر روایت بالمعنیٰ میں غضبت کا لفاظ بیان کردیا جس کا واضع ثبوت یہ ہے کہ ایک استادزہریؒ سے اس کے مختلف شاگرد مختلف الفاظ میں روایت بیان کررہے ہیں اور غضبت ذکر کرنیوالے شاگرد بھی کبھی اس لفاظ کو بیان کرتے ہیں کبھی نہیں کرتے جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ روایت بالمعنیٰ کررہے ہیں۔ تو روایت بالمعنیٰ کرنے میں راوی سے غلط فہمی ہوگئی۔ اور بخاری شریف کے صحیح ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے راوی ثقہ، عادل و معتبر ہیں۔ واضاع و کذاب نہیں۔ ان میں سے اگر ایک سے خطا اجتہادی یا غلط فہمی ہوجائے تو یہ ان کی صداقت وعدالت ، دیانت و ثقاہت کے خلاف نہیں اور نہ اس سے کتاب کی صحت پر حرف آتا ہے۔
بالفرض اگر ناراضگی کا واقعہ ہوتا تو صحابہ کرامؓ اور اہل بیت عظام اور تابعین واہل مدینہ میں اس کا عام چرچا اور شہرت ہوتی۔ لیکن سوائے زہریؓ کے بعض شاگردوں کے اور کوئی اسکو ذکر نہیں کرتا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ناراضگی کا کوئی واقعہ نہیں تھا۔
عقل و درایت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ سیدہؓ جن کا لقب "بتول" یعنی تارک دنیا اور خاتون جنت اور مخدومہء کائنات ہو۔ صدیق اکبرؓ سے حدیث رسول مقبولﷺ سن کر ہرگز ناراض نہ ہوں بلکہ راضی اور خوش ہوں۔
رضامندی سیدہؓ
کیونکہ کتب اہل سنت اور اہل تشیع میں سیدہؓ کی رضامندی کے روایات اور واقعات بھی ثابت ہیں۔ بہیقی، شروح بخاری و شروح مشکوۃٰ ۔ نبراس شرح شرح عقائد صہ ۵۵۰ البدایہ والنہایہ ۔ طبقات ابن سعد وغیرہ کتب اہل سنت میں سیدہؓ کی رضامندی ثابت ہے۔
حضورﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرصدیقؓ جناب سیدہؓ کی خدمت میں حضرت علیؓ کی موجودگی میں گئے اور کہا۔
واللہ ما ترکت الدار والمال والاھل والعشیرۃ الاابتغاء مرضات اللہ، ومرضاۃ رسولہ ومرضاتکم اھل البیت ثم ترضاھا حتیٰ رضیت وھذا اسناد جید قوی۔! (البدایہ والنہایۃ ج۵ ص ۲۸۹ عمادالین ؓ بن کثیر)
اللہ کی قسم ! میں اپنا گھر بار مال اور اہل و عیال، قوم برادری، سب کچھ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول علیہ السلام کی رضاجوئی اور تم اہلبیت نبوت کی رضاجوئی کے لئے چھوڑ چھاڑ آیا تھا جس سے سیدہؓ کو خوش کیا تو سیدہؓ نہایت راضی خوش ہوگئیں اس روایت کی سند نہایت عمدہ، صحیح اور معتبر و مضبوط ہے۔
شیعہ کی معتبر کتاب شرح نہج البلاغۃ ابن منیم بحرانی جز ۳۵ ص ۵۴۳ من کتابہ الیٰ عثمان ابن حنیف، دوسری کتاب شرح نہج البلاغۃ ابن ابی الحدید ص ۲۹۶ جز شانزدھم اور تیسری کتاب درہ نحفیہ مطبوعہ طہران ص ۳۳۲ پر ہے۔
جناب صدیق اکبرؓ نے حضرت سیدہؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ رسول اللہ ﷺ فدک کی فدک کی آمدنی سے تمہارا خرچ لے لیا کرتے تھے۔ باقی ماندہ تقسیم فرماتے اور فی سبیل اللہ جہاد وغیرہ میں سواریاں لے دیتے تھے۔ اور اللہ کی قسم کھا کر تم سے معاہدہ کرتاہوں کہ میں فدک میں اسی طرح کروں گا جس طرح آنحضرتﷺ کرتے تھے تو حضرت سیدہؓ فدک کے اس فیصلہ پر راضی اور خوش ہوگئیں اور حضرت صدیقؓ سے اس بات کا عہد لیا۔ تو حضرت ابوبکرؓ فدک کی پیداوار وصول کر کے اس سے اہلبیت کا کافی دانی کرچ دے دیتے تھے پھر صدیق اکبرؓ کے بعد امیر معاویہؓ کی حکومت آنے تک تمام خلفاء نے یہی عمل جاری رکھا۔
تو شیعہ حضرات کی ان تینوں کتابوں کی یہ روایت اس حقیقت کو واضع کرتی ہے۔
(1) فدک کی پیداوار جناب رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں اہلبیت وفقراء ، مساکین اور فی سبیل اللہ عین اسلامی ضروریات میں خرچ کی جاتی تھی۔ فدک خاص سیدہ یا حضرت علیؓ و حسنینؓ میں سے کسی کو ہبہ نہ کیا گیا تھا۔
(2) جناب سیدہؓ نے حضرت صدیقؓ سے یہی معاہدہ لیا کہ حضرت رسول اکرمﷺ کا عمل اور طریقہ تقسیم جاری رکھا جائے چنانچہ حضرت صدیقؓ نے یہی معاہدہ کرلیا اور جناب سیدہؓ راضی خوش ہوگئیں۔
(3) جناب سیدہؓ اور حضرات حسنین شریفین فدک کی پیداوار سے اپنا تمام خرچ حضرت صدیق اکبرؓ سے لیتے رہے۔
(4) جس طرح رسول پاکﷺ کا عمل تھا اسی طرح صدیق اکبرؓ کا عمل تھا۔ اور بعینہ یہی عمل تمام خلفائے راشدین حضرت عمرفاروقؓ عثمان غنیؓ اور علی المرتضیٰؓ اور حسن مجتبیٰ ؓ کا رہا حتیٰ کہ امیر معاویہ ؓ کی سلطنت آگئی۔ اس عرصہ میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوا۔ کیونکہ یہی حکم خدا ورسولﷺ خدا کا تھا اس لئے تمام خلفائے راشدینؓ نے اسی حکم کی پابندی کی۔ تو اب صدیق اکبرؓ پرجناب سیدہؓ کی ناراضگی کی بات کسی راوی کی غلط فہمی کانتیجہ ہے۔ ورنہ سیدہؓ اللہ تعالیٰ اور حکم رسول مقبولﷺ کا حکم دیکھ کر اس حکم کے خلاف ناراضگی کیسے رکھ سکتی تھیں۔ اگر ناراض ہوتیں تو اپنا اور اپنے بچوں کا تمام خرچ خوراک کیوں وصول فرماتی رہیں۔
(5) بعض لوگوں کا یہ خیال بھی غلط ثابت ہوگیا کہ حضرت عثمانؓ نے اپنے خلافت میں فدک مروان کو دیدیا تھا بلکہ اس سے بخوبی ثابت ہے کہ وہ بھی عمل رسول اللہ ﷺ اور عمل صدیقؓ وفاروقؓ کی مانند عمل کرتے رہے جس طرح مذکورہ تینوں کتابوں سے ثابت ہے کہ سیدہؓ اپنا اور اپنے خاندان کا خرچ صدیق اکبرؓ سے لیتے رہیں اور تمام خلفائے راشدین کا عمل یکساں رہا۔
اسی طرح شیعہ کی معتبر کتاب شرح نہج البلاغۃ مصنفہ سید علی نقی فیض الاسلام کے ص ۹۶۰ سطر چار پر مرقوم ہے۔
"ابوبکر غلہ و سود آن را گرفتہ بقدر کفایت باہل بیت علیہم السلام مے داد و خلفاء بعد ازوبراں اسلوب رفتار نمود ندتازمان معاویہؓ " اس سے بھی واضع ہے کہ سیدہؓ خرچ لیتی رہین۔ ناراضگی نہ تھی اگر ناراض ہوتیں تو خرچ وصول نہ فرماتیں۔
علاوہ ازیں کتب شیعہ سے یہ بھی ثابت ہے کہ جناب سیدہؓ کی ہر طرح کی خدمت حضرت صدیق اکبرؓ کی اطہیہ محترمہ اسماء بنت عمیس کرتی رہتی تھیں۔ حتیٰ کہ جناب سیدہؓ کے مرض کے زمانہ میں تیمارداری کے تمام فرائض حضرت صدیق اکبرؓ کی بیوی حضرت اسماء ہی سرانجام دیتی رہیں۔ اور سیدہ کی وفات کے بعد تجہیز تکفین اور غسل کا کام بھی اسماء زوجہ صدیق اکبرؓ نے سرانجام دیا۔جلاء العیون ص ۷۳ پر ہے۔
جناب علی المرتضیٰ ؓ ور حضرت اسماء بنت عمیس نے جناب سیدہؓ کو غسل دیا۔
حتیٰ کہ سیدہؓ کو بیماری کے زمانہ میں گہوارہ کے ذریعہ حضرت اسماءؓ نے پردہ بنا کر دکھایا۔ جس پر سیدہؓ نے وصیت فرمائی کہ میری وفات کے بعد گہوارہ بنا کر میرے جنازہ کا پردہ کیا جاوے۔ جو کہ حسب وصیت حضرت اسماءؓ نے بنایا۔
نیز حضرت علیؓ کا بیعت کرنا اور صدیق اکبرؓ کے پیچھے نمازیں ادا کرنا کتب شیعہ میں صراحۃً موجود ہے۔احتجاج طبرسی ص ۵۶ پر ہے۔
پھر حضرت علی المرتضیٰ ؓ نے حضرت صدیق اکبرؓ کا ہاتھ پکڑ کر بیعت کرلی اور اسی کتاب کے ص ۶۰ پر حضرت علیؓ کے متعلق مرقوم ہے۔
پھر حضرت علی المرتضیٰ ؓ ٹھے اور نماز کیلئے تیاری کر کے مسجد میں حاضر ہوئے اور ابوبکر صدیقؓ کے پیچھے نماز، ادا کی۔
بعینہ یہی عبارت تفسیر قمی اور مراۃ العقول شرح الاصول والفروع میں بھی موجود ہے۔
اگر سیدہؓ ناراض ہوتیں تو علی المرتضیٰ ؓ حضرت صدیق اکبرؓ کی بیعت، کیوں کرتے اور ان کے پیچھے نمازیں کیوں پڑھتے؟ اب چودہ سو سال بعد آنے والا تو سیدہؓ کی ناراضگی کانام سن کر جناب ابوبکرؓ سے بیزاری کو تقاضائے ایمان سمجھتاہے۔ لیکن شیر خدا جیسے کامل الایمان کے سامنے اگر حقیقۃً ، ناراضگی ثابت ہوتی تو صدیقؓ کے ہاتھ پر کیوں بیعت فرماتے اور کیوں ان کے پیچھے نمازیں پڑھتے؟
تو ان تمام واقعات مذکورہ بالا سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدہؓ اور علیؓ صدیق اکبرؓ سے راضی تھے۔ ورنہ ان تعلقات کی صورت نہ بنتی۔ اگر بالفرض سیدہؓ صدیق اکبرؓ پر ناراض ہوگئیں تو جس طرح موسیٰ علیہ السلام نے ہارون علیہ السلام پر غصہ ہوکر ان کی ڈاڑھی اور ان کے بال پکڑ کر کھینچے۔ حالانکہ ہارون علیہ السلام بے قصور تھے۔ یا جسطرح کتب شیعہ میں ثابت ہے کہ آنحضرتﷺ سیدہؓ کو چاندی کے زیور پہنچے دیکھ کر غضبناک ہوگئے۔
شیعہ کی کتاب "منتہی الآمال" مصنفہ شیخ عباس قمی مطبوعہ اسیران ص ۹۷پر ہے۔
یا۔ حضرت سیدہ فاطمہؓ نے حضرت علیؓ پرغصہ ہوکر فدک کے سلسلہ میں فرمایا "اشتملت شملۃ الجنین وقعدت حجرۃ الظنین الخ " شیعہ کی کتاب احتجاج طبرسی ص ۶۵ مطبوعہ نجف اشرف۔ جس کا ترجمہ باقر مجلسی نے اپنی کتاب "حق الیقین" جلد اول ص ۱۶۱ پر یو لکھا ہے۔
اور شیعہ کی کتاب " جلاء العیون " کے صفحات ۶۱ اور ۷۱ پر مرقوم ہے کہ سیدہؓ حضرت علیؓ پر ناراض ہوکر حضورﷺ کے گھر چلی گئیں۔ اور ص ۶۱ کے دوسرے مقام پرہے کہ حضور علیہ السلام کی خدمت میں جاکر حضرت علیؓ کی شکایت کی۔"
تو مذکورہ واقعات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حضرت ہارون علیہ السلام پر غصہ ہوجانے سے اور آنحضرت ﷺ کے سیدہؓ پر غضب ناک ہوجانے اور سیدہؓ کے علی المرتضیٰ ؓ پر ناراض ہوجانے سے اگر ان حضرات کے شان و ایمان پرکسی قسم کا اعتراض اور حرف نہیں آتا تو سیدہؓ کے جواب میں ادب واحترام کے ساتھ صدیق اکبرؓ کے حرف حدیث رسول ﷺ پیش کرنے سے اگر بالفرض سیدہؓ کو ناراضگی آگئی ہوتو صدیق اکبرؓ کے ایمان اور شان پر اعتراض کرنا کونسا انصاف اور دیانت ہے۔
سیدہؓ کا جنازہ!
اور یہ کہنا کہ سیدہؓ کی ناراضگی کی وجہ سے نہ صدیقؓ کو سیدہؓ کی وفات کا علم ہوا۔ اور نہ وہ شریک جنازہ ہوئے اور نہ انکو اس کی اطلاع بھیجی گئی۔ بالکل غلط ہے۔ کیونکہ صدیقؓ کو سیدہؓ کی وفات کی اطلاع بھیجنے کی ضرورت نہ تھی جبکہ ان کی اہلیہ اسماء ؓ بنت عمیس، سیدہؓ کی تیماردار اور ہروقت بیماری میں خدمت گار تھیں۔ اور تجہیزو تکفین اور غسل سیدہؓ کا کام بھی صدیقؓ کی بیوی نے بنایا۔
اور کسی روایت سے یہ ثابت نہیں کہ صدیق اکبرؓ نے سیدہؓ کا جنازہ نہیں پڑھا بلکہ بعض روایات میں ہے کہ صدیق اکبرؓ سیدہؓ کے جنازہ کے امام تھے جیسے کنزالعمال جلد ۶ کتاب الفضائل من قسم الافعال ص ۳۱۸ پر ہے۔
حضرت جعفر بن محمد اپنے والد بزرگوار سے روایت کرتے ہیں کہ جب سیدہ بی بی فاطمہ ؓ حضورﷺ کی بیٹی فوت ہوئیں تو ابوبکرؓ و عمرؓ جنازہ پڑھنے کیلئے آئے تو جناب صدیقؓ نے حضرت علیؓ کو کہا کہ تم امام بنو تو حضرت علیؓ نے فرمایا خلیفہ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں۔ میں امام نہیں بن سکتا۔ پس ابوبکر امام بنے اور سیدہؓ کاجنازہ پڑھا۔
اور طبقات ابن سعدؒ جلد ہشتم ص ۲۹ پر ثابت ہے۔
جناب ابوبکر صدیقؓ نے بی بی فاطمۃ ؓ کا جنازہ پڑھا اور اس پر چار تکبیریں کہیں۔
یہ روایت بعینہ " سیرت حلبیہ" جلد سوم ص ۳۹۱ پر بھی ثابت ہے۔
اہل سنت واہل تشیع کے مورخین نے لکھا ہے کہ جناب امام حسین ؓ نے حضرت امام حسن ؓ کے جنازہ پر سعید ابن العاص اموی حاکم مدینہ کو امام بنایا اور فرمایا۔
اگر جنازہ میں حاکم کی امامت کا دستور نہ ہوتا تو میں اس کو امام نہ بناتا۔
تو یہ طریقہ جاریہ اور دستور مسلمہ بھی تائید کرتا ہے کہ سیدہؓ کے نماز جنازہ کے امام بھی ضرور بالفضرور ابوبکرصدیقؓ ہی بنے ہوں۔ واللہ اعلم۔
اصولی طور پر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ روایات نفی، پر روایات اثبات کو ترجیح ہوتی ہے۔
تو اس سے بھی یہ ثابت ہوگیا کہ جن روایات میں حضرت علیؓ یا حضرت عباسؓ کے متعلق "صلیٰ علیھا" کے الفاظ وارد ہیں تو ان سے جنازہ پڑھنا مراد ہے۔ امامت مراد نہیں واللہ تعالیٰ اعلم وعلمہ اتم،
انصاف اور دیانتداری سے یہ امر بھی قابل غور ہے کہ جس صدیق اکبرؓ نے فدک کی آمدنی میں سے عمل رسولﷺ کے خلاف اپنے اوپر اور اپنے اہل وعیال اور خاندان ورشتہ داروں پر ایک پائی بھی خرچ نہ کی اور اپنی دو سالہ خلافت میں بیت المال سے جو مال بطور وظیفہ لیا تھا وہ سارے کا سارا بوقت وفات وصیت کرکے بیت المال میں واپس کر دیا اور وصیت کی کہ مجھے نئے کپڑوں کی بجائے پرانے کپڑوں میں کفن دیا جائے۔
وہ کسی پر ظلم اور ناحق کیسے اور کیوں کرے گا۔ جزاہ اللہ تعالیٰ و رضی عنہ وارضاہ۔ آمین۔
تو حضورﷺ کے جانشین اول خلیفہ بلا فصل سیدناابوبکر صدیقؓ کے اخلاص اورا نتہائی محبت و اطاعت رسول مقبول ﷺ اور صداقت، امانت، دیانت میں کمال ہی اس امر کا موجب تھا کہ صدیقؓ کی، بیعت خلافت پر تمام صحابہ مہاجرین وانصار، بنی ہاشم و قریش سب کے سب متفق و متحد ہوگئے۔ اس باہمی اتفاق و اتحاد اور محبت وخوات کی وجہ سے یہ حضرات دنیا اور آخرت میں بلند مقامات اور اعلیٰ مراتب پر فائز المرام ہوگئے۔ اوران حضرات ہی کا زمانہ ہر دور اور ہر قرن میں آنے والی نسلوں کیلئے ایک نمونہ اور لائحہ عمل چھوڑ کیا کہ اگر مسلمان اپنے دین و ایمان کی صحت و سلامت اور دنیاوی عروج وترقی اور اخروی نجات وسرخروئی چاہتے ہیں۔
تو ان کیلئے صرف یہی ایک راہ اتباع نبویﷺ اور اتحاد و اتفاق ہے جس پر کہ شاگردان رسول ﷺ ، جناب صدیقؓ و فاروقؓ ، غنیؓ ، علیؓ صحابہ کرامؓ اور اہلبیت عظام نے عمل پیرا ہوکر اپنے مولا حقیقی جل شانہ، اور اس کے رسول پاک ﷺ اور تمام مخلوق کو راضی کر کے دنیا کی تاریخ میں ایک بے نظیر نمونہ اپنے پیچھے چھوڑا۔
اللہ تعالیٰ ہم تمام مسلمانوں کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی، توفیق بخشے۔ آمین، ثم آمین