بنام حضرت مولانا مفتی شیخ الحدیث والتفسیر عبدالعزیز العزیزی صاحب
حرفِ آغاز
باغِ فَدَک کے حوالے سے یہ نظریہ عوام میں مشہور ہے کہ یہ حق حضرت فاطمہؓ کا تھا جسے خلفائے راشدین (ابوبکر، عمر، عثمان، علی، حسن) رضوان اللہ تعالیٰ عنہم نے غصب کیا۔
اِس باطل عقیدے اور نظریے کی ترویج روافض (اہل تشیع) کی طرف سے ہوئی اور اِس جھوٹ کو اتنا کہا گیا کہ یہ بات اہل سنت کے ایوانوں میں صداقت سمجھی جانے لگی۔ چنانچہ اِس دروغ گوئی، افتراء اور کِذب کا نتیجہ یہ نکلا کہ کم علم اہل سنت، حضراتِ صحابہؓ سے بدظن ہونے لگے، اور خصوصاً خلفائے راشدین پر عدالتیں قائم کرنے لگے۔
میری اِس تحریر کا مقصد اُس حقیقت کو آشکارا کرنا ہے جو پوشیدہ رکھی گئی اور ایسے زخم کو جسم سے نکال پھینکنا ہے جو ناسور بن کر آہستہ آہستہ جسم کے حِصّے میں پھیلتا جارہا ہے۔
اگرچہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حُکمِ اذاں،
محل وقوع
فَدَک کے محل وقوع کے حوالے سے اہل تشیع کے نزدیک دو موقف اور نظریات پائے جاتے ہیں۔
فَدَک کا پہلا محل وقوع:
فَدَک کے پہلے محل وقوع کے حوالہ جات شیعہ کتب سے مندرجہ ذیل ہیں۔
1) فَدَک منطقہ حجاز میں مدینہ سے تقریباً 160 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
2) فَدَک کے مقام پر اِس وقت “الحائط” شہر آباد ہے۔
3) سنہ 1975عیسوی میں یہ شہر 21 دیہات پر مشتمل تھا جبکہ سنہ 2010عیسوی کی مردم شماری کے مطابق اس شہر کی کل آبادی تقریبا 14000 نفوس ہے۔
فَدَک میں صدر اسلام کے دور میں یہودی آباد تھے
4) اِس علاقے کی اسٹرٹیجک محل وقوع کو مد نظر رکھتے ہوئے یہودیوں نے اس علاقے کو فوجی علاقہ قرار دیا ہوا تھا۔
5) تاریخی منابع کے مطابق اس علاقہ میں عمر ابن خطاب کے دورِ خلافت تک یہودی آباد تھے لیکن انہوں نے یہودیوں کو یہاں سے جانے پر مجبور کیا۔
6) ظہورِ اسلام کے وقت فَدَک باغات اور نخلستانوں پر مشتمل تھا۔
7) شہر کوفہ جو کھجوروں سے منافع لینے کے حوالے سے ایک غنی شہر سمجھا جاتا تھا۔ فَدَک کی آمدنی
یہاں کے نخلستان میں موجود کھجوروں کے درختوں کی آمدنی کے مساوی سمجھی جاتی تھی۔
8) جس وقت حضرت عمرؓ نے حجاز سے یہودیوں کو نکالنا چاہا تو فَدَک میں موجود نصف درختوں کے مقابلے میں یہودیوں کو 50 ہزار درہم ادا کیا۔
9) پیغمر اکرم(ص) کے زمانے میں فَدَک کی سالانہ آمدنی کا 24 سے 70 ہزار دینار تک کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
10) موجودہ دور میں فَدَک سعودیہ عربیہ کے
"حائل" نامی صوبے میں واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سنہ 1999 عیسوی کو اس علاقے کا نام
وادی فاطمہ” رکھا گیا اسی طرح اس میں موجود باغ کو باغ فاطمہ مسجد کو مسجد فاطمہ اور چشمہ کو عیون فاطمہ کا نام دیا گیا۔
11) اِس علاقے میں موجود عمارتیں اور منارے خراب ہو چکے ہیں اور نخلستان میں موجود اکثر کھجور کے درخت بھی سوکھ چکے ہیں۔
خلاصہ:
فَدَک کا محل وقوع جغرافیہ دان اور مؤرخین نے مدینہ سے 160 کلومیٹر دور بتایا ہے اور اس میں موجود کجھور کے درختوں کی تعداد بھی بتائی گئی ہے یہ بھی بتایا گیا کہ یہ آدھا مسلمانوں کے پاس تھا آدھا حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ حکومت میں 50 ہزار درہم میں خریدا۔
مدینے سے 160 کلومیٹر کا فاصلہ اور حضرت عمرؓ کے دور تک یہاں یہودی آباد تھے اور آدھا باغ فَدَک حضرت عمرؓ نے اپنے دور حکومت میں حکومتی خزانے سے 50 ہزار درہم میں خریدا تو باغ فدک کی یہ حالت ہمیں اس کے ریاستی معاہدہ ہونےکا خبر دیتی ہے
فَدَک کا دوسرا محل وقوع
فَدَک کے دوسرے محل وقوع کے حوالہ جات شیعہ کتب سے مندرجہ ذیل ہیں۔
1) مہدی عباسی (عہد بنو عباس کا حکمران) نے ابوالحسن (کُنیت امام موسیٰ کاظم) سے کہا: اے ابوالحسن اِس کا حُدودِ اربع بتاؤ، آپ کہنے لگے: اِس کی ایک حَد جبل اُحد ہے، ایک حَد عریش مصر ہے، ایک حَد سیف البحر ہے اور ایک حَد دومۃ الجندل ہے۔
شیعہ کتاب اصولِ کافی کی اِسی روایت کو مکمّل تفصیل سے دوسری جگہ لکھا گیا ہے۔
2) علی بن اسباط سے مروی ہے کہ جب امام موسیٰ کاظم، مہدی عباسی کے پاس آئے تو خلیفہ لوگوں کے غضب شدہ مال واپس کر رہا تھا حضرت نے فرمایا ہماری غضب شدہ کو بھی واپس کر دو اُس نے کہا وہ کیا ہے؟؟ فرمایا جب اللہ نے اپنے نبی کو فَدَک پر فتح دی اور بغیر جنگ حاصل ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی اے رسول صلعم ذوالقربی کا حق اُسے دے دو جبرئیل سے حضرت نے پوچھا یہ کون ہے؟ جبرئیل نے خدا سے پوچھا خدا نے وحی کی، فَدَک فاطمہ کو دے دو پس حضرت نے اُن کو بلایا اور فرمایا خدا نے مجھے حکم دیا کہ میں باغِ فَدَک تم کو دے دوں۔
انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلعم جو خدا اور رسول صلعم نے عطا کیا میں نے اُسے قبول کیا پس حضرت فاطمہ کے وکلاء حیاتِ رسول تک اُس کی آمدنی وصول کرتے رہے جب ابوبکر خلیفہ ہوئے تو انہوں نے وکلاء فاطمہ کو فَدَک سے باہر نکال دیا
وہ ابوبکر کے پاس آئیں اور واپسی کا سوال کیا تو انہوں نے کہا تم کوئی کالا گورا گواہ لاؤ وہ امیرالمومنین اور اُمِ ایمن کو لے کر گئیں اُنہوں نے گواہی دی ابوبکر نے واگزاشت کے لیے ایک تحریر لکھ دی وہ اِس تحریر کو لے کر نکلیں تو راہ میں عمر ملے انہوں نے کہا یہ کیا ہے ؟؟
سیدہ نے فرمایا ابوبکر نے یہ تحریر مجھ کو لکھ کر دی ہے اُنہوں نے کہا مجھے دکھاؤ اُنہوں نے انکار کیا عمر نے سیدہ کے ہاتھ سے تحریر چھین لی اور اُس کو پڑھ کر تھوک سے مٹایا اور پھاڑ ڈالا اور کہا کہ اس علاقے پر تمہارے باپ نے فوج کشی نہیں کی تھی تم ہماری گردن میں رسی ڈال رہی ہو مہدی نے امام موسیٰ کاظم سے پوچھا؟
اِس علاقے کی حدود کیا ہیں؟؟ فرمایا کہ ایک کوہ احد دوسری عریش مصر ہے تیسری سیف البحر ہے اور چوتھی دومۃالجندل ہے اُس نے پوچھا یہ ہے کُل علاقہ؟؟
فرمایا ہاں اِس علاقے پر لڑائی نہیں ہوئی اس نے کہا کہ یہ تو بہت بڑا علاقہ ہے میں غور کروں گا۔
من گھڑت اور جھوٹی روایات:
اہل تشیع مذہب کی کتاب اصولِ کافی کی یہ روایات ، جس میں فَدَک کو سیدہ کا حق قرار دے کر ایک طویل جھوٹ اور افتراء پر مبنی داستان وضع کی گئی۔ یہ داستان لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا کی مِصداق ٹھہری اور یہ دجل اور افتراء کیسے بے حجاب ہوا۔ ملاحظہ فرمائیں۔
1) اِس روایت میں امیر المومنین سیدنا علیؓ ہیں۔ جب حضرت علیؓ گواہی کیلئے گئے تو واپس سیدہ فاطمہؓ کے ساتھ کیوں نہیں آئے۔ اور اگر اُن کے ساتھ تھے تو انہوں نے حضرت عمرؓ کے تحریر پھاڑنے کے عمل پر تنبیہہ کیوں نہیں کی۔ کہ عمرؓ آپ نے ایسا کیوں کیا۔
2) کچھ وقت کیلئے یہ تسلیم کر لیا جائے کہ حضرت علیؓ راہ میں سیدہ فاطمہؓ کے ساتھ نہیں تھے۔ تو کیا سیدہ فاطمہؓ نے حضرت علیؓ سے اِس کا تذکرہ نہیں کیا کہ وہ تحریر حضرت عمرؓ نے پھاڑ دی جو آپ کی گواہی میں لکھی گئی۔
3) دورِ نبوی میں مصر بازنطینی ریاست کا حِصّہ تھا جس کو سیدنا عمرو بن العاصؓ نے 20 ہجری میں سیدنا عمرؓ کے دور میں فتح کیا۔ تو فَدَک کا رقبہ وہاں تک کیسے پہنچا۔
4) دومتہ الجندل شام کے شہر دمشق کی سرحد پر واقع ہے۔ یہ مقام دورِ نبوی میں بازنطینی ریاست کا حِصّہ تھا۔ یہاں عرب مسیحی رہائش پذیر تھے۔ جب کہ فَدَک یہودیوں کی رہائشگاہ تھی۔
5) دورِ نبوی میں جغرافیائی لحاظ سے مصر، جبل احد، سیف البحر اور دومتہ الجندل کو نقشے میں دیکھا جائے تو اِس کا کُل رقبہ 10,000,000 مربع کلومیٹر (3,861,022 مربع میل) بنتا ہے۔ اِس کی کُل آبادی تقریباً 50,000,000 کے قریب بنتی ہے اور اِس کی کثافت 5/مربع کلومیٹر (12.9 /مربع میل) کے قریب ہے۔
6) امام موسیٰ کاظم کی کوئی ملاقات بنو عباس کے خلیفہ محمد بن منصور (المعروف مہدی عباسی) سے ثابت نہیں۔ جب کہ تواتر کے ساتھ یہ بات ثابت ہے کہ ایک ہی بار مہدی عباسی نے مدینے سے بغداد بُلا کر امام موسیٰ کاظم کو قید سلاسِل کیا تھا۔ اور خلیفہ اُن سے شدید نفرت کرتا تھا۔
محل وقوع میں تضاد:
اہل تشیع جغرافیہ دان و تاریخ دان نے باغِ فَدَک کی جو کیفیت اور محل وقوع بیان کیا ہے وہ مختلف ہے جبکہ محدثین کا بیان مختلف ہے ۔ جب باغِ فَدَک کے محل وقوع، اُس کی کیفیت، اُس کا ریاستی معاہدہ، آدھا باغ حضرت عمرؓ کے دور حکومت میں ریاست کے خزانے سے خریدنا ہی اِس کو یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ ابتداء ہی سے ریاستی تحویل میں تھا اور جس طرح رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے باغِ فَدَک میں تصرف کیا اسی پر خلفائے راشدین نے عمل کیا۔
جب تک اِن روایات کو ردّ کرکے متفق علیہ اور واضح محل وقوع سامنے نہیں آتا اُس وقت تک کوئی بھی دعوی قابلِ قبول نہیں ہے۔ عزیزِ مکرم محل وقوع کے بیان میں کتنا دجل وفریب اور تضاد ہے خود فیصلہ کریں۔
محل وقوع کے بیان سے ہی دعوی فَدَک جھوٹ ثابت ہوتا ہے۔
*اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی*
*ہم نے تو دل جلا کے، سرِ عام رکھ دیا*
فَدَک ہِبہ یا میراث
ہِبہ زندگی چاہتا ہے جبکہ میراث موت۔
فَدَک کو ہِبہ ثابت کرنے میں اہل تشیع قرانی آیات کو بطورِ دلیل پیش کرتے ہیں اُن کے نزدیک جب سورہ اسراء کی اِن آیات کا نزول ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو باغِ فدک ہِبہ کیا۔
ترجمہ: اور ان کے سامنے شفقت سے عاجزی کے ساتھ جھکے رہو اور کہو اے میرے رب جس طرح انہوں نے مجھے بچپن سے پالا ہے اسی طرح تو بھی ان پر رحم فرما۔ جو تمہارے دلوں میں ہے تمہارا رب خوب جانتا ہے، اگر تم نیک ہو گے تو وہ توبہ کرنے والوں کو بخشنے والا ہے اور رشتہ دار اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق دے دو اور مال کو بے جا خرچ نہ کرو۔
سورہ اسراء کا تاریخِ نزول:
اہل تشیع اور اہل سُنت مُفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ سورت اور اِس کی تمام آیات مکی ہیں جیسے کہ سورہ کے نام سے ظاہر ہے کہ یہ سورہ واقعہ معراج کو بیان کرتی ہے اور واقعہ معراج نبوت کے دسویں سال پیش آیا جو کہ ہجرت سے تین سال پہلے کا عرصہ ہے۔ جب کہ باغِ فَدَک اور خیبر کا واقعہ محرم 7 ہجری مئی 628 عیسوی کو پیش آیا۔
(مغازی جلد 2 صفحہ 637)
(المغازی واقدی جلد 2 صفحہ 700)
(تاریخ ابنِ کثیر جلد 3)
ایک سوال تو یہ پیدا ہوا کہ جب ایک چیز کا نام و نشان نہیں تو ہِبہ کیسے ؟؟
دوسرا سوال یہ کہ فقہ جعفریہ میں کسی بھی چیز کو اپنی ملکیت میں لینے سے پہلے ہِبہ کیا جا سکتا ہے۔؟
کیوں نہ انہی کی تلوار سے انہیں قتل کریں۔
روایت:
محمد بن احمد بن یحیی نے موسی بن عمر سے روایت کیا انہوں نے عباس بن عامر سے روایت کیا انہوں نے ابان سے روایت کیا انہوں نے ابو بصیر سے روایت کیا انہوں نے ابو عبداللہ (امام جعفر صادق) سے روایت کیا
ایک تحفہ کبھی بھی تحفہ نہیں ہوتا جب تک کہ اُسے نہ ملے۔
صدقہ اس کے لئے جائز ہے۔
(الاستبصار جلد 4 صفحہ 107)
اعتراض:
اہل تشیع یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اگرچہ سورہ اسراء مکی ہے لیکن یہ آیات مدنی ہیں۔
جواب:
اس آیات اور سورت کے مکی ہونے کی روایات خود شیعہ کتب میں موجود ہے۔
(الکافی کتاب الکفر والایمان طبع 4 جلد 3 صفحہ 52)
ترکیبِ صرف و نحو:
سورہ اسراء کی اِس آیت سے اہل تشیع باغِ فَدَک کو ہِبہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں، پر افسوس ہمیشہ اُن کے ہاتھ میں خاک ہی آئی ہے۔
اِس آیت کی صرف و نحو کی ترکیب کرتے ہیں تاکہ اس ہِبہ کے دعوے کی ساری ہوا نکل جائے۔
اِس آیت کا قواعد نحو کے ذریعے جملہ بناتے ہیں۔
سورہ اسراء کی آیت کی یہ ترکیب ہے۔ اب کوئی بڑے سے بڑا ماہر عربی دان، علمِ صرفِ نحو پر مہارت رکھنے والا ہماری اِس ترکیب کو غلط ثابت کرکے دِکھائے۔
سیدھے الفاظ میں اِس آیت میں جو حکم ذوالقربی حقہ پر ہے وہی مساکین اور ابنِ السبیل کیلئے ہے۔
آیت کا سیاقِ کلام:
سورہ اسراء کی آیت کو ہِبہ باغ فَدَک مُراد لینے سے چند ایسے ابہام اور پیچیدگیاں پیدا ہوئی ہیں جن کو اہل تشیع مذہب نہ سُلجھانے میں کامیاب ہوئے اور نہ ہی اِس کا کوئی مُدلّل جواب دیا۔
مساکین کا کیا حکم ہے۔ ؟؟
ابن السبیل کا کیا حکم ہے۔ ؟؟
کیا حضور نبی کریم ﷺ پر (نعوذباللہ) ہبہِ فَدَک سے ناانصافی ثابت نہیں آتی۔ ؟؟
کیا یہ اللہ کے حکم کے خلاف فیصلہ نہیں ہے کہ یہ مساکین اور ابن السبیل کا بھی حق تھا۔ ؟؟
کیا اِس آیت کی تخصیص سے حضور نبی کریم ﷺ کے معصوم ہونے پر سوال نہیں اُٹھتا کہ اس میں تبذیر سے منع کیا گیا۔ ؟؟
کیا یہ نبی کریم ﷺ کی شان ہے کہ اُن سے فضول خرچی کا گمان کیا جائے۔ ؟؟
سیاق کلام کو دیکھیں تو پہلی آیت میں والدین کا ذکر ہے تو حضور ﷺ کے والدین اُس وقت تک وفات پا چکے تھے تو نبی ﷺ خطاب میں شامل نہیں اب آپ کا دعوی کیسے ثابت ہو سکتا۔ ؟؟
جب نبی ﷺ خطاب میں شامل نہیں تو فَدَک وقف کے حکم میں ہے اور یہی اہلسنت کا موقف بھی ہے اور ثابت بھی ہے۔
من گھڑت روایت:
ابو سعید سے منسوب روایت ہے کہ:
” جب یہ فرمان باری تعالیٰ نازل ہوا کہ "اپنے عزیز و اقارب کو ان کا حق دیجئے"، تو رسول اللہ ﷺ نے سیدہ فاطمہؓ کو بلا کر باغِ فدک دے دیا۔“
روایات کی تدوین:
اہل تشیع حضرات کا یہ دعویٰ ہے کہ اہل سنت کی کتابوں میں کثرت سے ہبہِ باغِ فدک میں روایات موجود ہیں۔
ہم سنی اور شیعہ روایات کو دھاگہ ڈالتے ہیں اور ان روایات کی اسانید کو یکجا کرتے ہیں۔
شافی میں کوئی روایت سُنیوں کی طرف سے نقل نہیں کی گئی ۔
تلخیص شافی میں بھی کوئی روایت سُنیوں کی طرف سے پیش نہیں کی گئی۔
میں بھی کوی روایت ذکر نہیں کی گئی۔
طرائف میں ایک روایت مقطوع سند ۔واقدی بشر ابن غیاص اور بشر ابن الولید سے ذکر کی ہے
طرائف میں ابن مردویہ ابوسعید سے منقول کرتے ہیں۔
بحار الانوار میں بابِ نزول الآیات فی امر فَدَک
کہتے ہیں کہ اِس آیت کے نزول بہت زیادہ شیعہ اور سنی روایات منقول ہیں لیکن خود صرف ابو سعید کی روایت نقل کرتے ہیں اور اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔
علامہ طبرسی نے بھی جہاں ذکر کیا ہے ابو سعید سے ذکر کیا ہے۔
منہج الصادقین نے دو روایوں کے اضافے سے ابو سعید کی روایت نقل کی ہے۔
سعدالسعود میں بھی ابو سعید سے نقل کی گئی ہے۔
سعدالسعود میں بیس اسناد ذکر ہیں لیکن تمام ابو سعید کی ہیں ۔
احقاق الحق میں بھی واقدی کی مقطوع سند روایت نقل ہے۔
عماد الاسلام میں ایک ابن مردویہ والی روایت ابو سعید سے طرائف کے حوالے کی نقل ہے۔
عماد الاسلام میں مقطوع سند کنزالعمال کے حوالے سے روایت مذکور ہے۔
عماد الاسلام میں در منثور سے مقطوع سند روایت نقل ہے۔
عمادالاسلام میں معارج النبوت کے حوالے سے ابو سعید کی روایت نقل ہے
شافی اور عماد الاسلام دونوں نے کئی کئی روایات پیش کی اور دعوی کیا کہ یہ روایت کئی طریق سے منقول ہیں لیکن کوئی ایک بھی سند ابو سعید سے ہٹ کر پیش نا کرسکے۔
روضةالصفاد معارج نے بھی یہی ابو سعید والی سند ذکر کی ہے۔
تشئید المطاعن نے بھی وہی ابو سعید والی روایت نقل کی ہے۔
کفایة الموسوم الولایہ میں بھی فَدَک پرتفصیلی بحث کی گئی لیکن روایت وہی ابو سعید والی پیش کی گئی ہیں۔
کفایة الموسوم الولایہ میں ثعلنی کی روایت جو سدی ودیلمی سے نقل کی ہے لیکن اس صاحب نے ہبہ ِ فدک اور دعوے فَدَک کو خلط ملط کیا ہے اور کوی نئی سند ذکر نہیں کی۔
غایت المرام میں بھی بڑے زور شور سے روایت نقل کی لیکن صرف ثعلبی کی ہی ایک روایت کو نقل کیا ہے باقی گیارہ روایات شیعہ کی نقل کی ہیں۔
یہ تمام وہ کتابیں ہیں جو ہبہ ِ فدک میں سنہ 400 ہجری سے اب تک شیعہ کی طرف سے لکھی گئی اور بھی کتابیں ہیں اب جن روایات کو وہ سنیوں کی طرف منسوب کرتے ہیں ان کی اسنانید کو ملایا جائے تو کل
نو (9) روایات بنتی ہیں ان میں چار کی سند مکمل ذکر کی گئی ہیں جبکہ پانچ کی سندیں مکمل نہیں ہیں. چار کی سندیں مکمل ہیں۔
بعض ابو سعید خدری ؓ کی طرف منسوب کی ہیں۔
*پانچ محذوف السندیں*
شیعہ اِن کی نسبت سنیوں کی طرف کرتے ہیں
پہلی: پہلی سند جو کنزل الاعمال عماد الاسلام الحاکم وغیرہ میں ذکر ہے۔
دوسری: دوسری سند جو عمادالاسلام، درمنثور اور طعن الرماح وغیرہ میں محذوف السند ذکر ہے۔
تیسری: تیسری سند جو روایت بحار الانوار میں سنی کتب کی نسبت ذکر ہے۔
مامون نے عبیداللہ ابن موسی سے فَدَک کا حال تحریراً دریافت کیا تو اُس نے اُس محذوف سند کو ذکر کیا۔
فضل ابن مرزوق عطیہ عوفی اور ابوسعید
چوتھی: چوتھی سند وہ جس کی نسبت سنیوں کی طرف ہے محذوف السند۔
واقدی بشر ابن ولید بشرابن غیاث
اس کو شوستری نے احقاق الحق میں ذکر کیا ہے۔
پانچویں: پانچویں سند وہ جو معارج النبوت اور مقصد اقصی میں عماد الاسلام کی محزوف السند ذکر ہے
یہ وہ کُل سرمایہ ہے شیعہ کا جس کی نسبت وہ سنیوں کی طرف کرتے ہیں
اور اس کا اصل پودہ ابو سعید اور عطیہ عوفی ہے جس کے یہ پھل پھول ہیں
ایک بات تو یہ ثابت ہوئی کہ یہ خبر واحد ہے جس کو نقل در نقل کی صورت میں لوگ متواتر سمجھتے ہیں۔۔
اب ہم بحث کریں گے ابو سعید اور عطیہ عوفی کے بارے میں۔ یہ کون ہیں تاکہ پتہ چلے یہ جھوٹ کا ٹوکرا کس کا ہے۔
سعید محمد بن اول درجے کی جھوٹے، حدیثیں گھڑنے والا شیعہ تھا۔
علامہ سخاوی نے رسالہ منظومہ جزری میں لکھا ہے،
*ترجمہ: کہ ان لوگوں میں سے جن کے مختلف نام، اور متعدد کنیتیں اور لقب ہیں، ایک محمد بن سائب کلبی مفسر ہیں، اِس کی کنیت ابو نضر ہے، اور اِس کنیت سے ابن اسحاق اِن سے روایت کرتے ہیں، اور اسی کا نام حماد بن سائب بھی ہے، اور ابواسامہ اسی نام سے اِن سے روایت کرتے ہیں، اور اسی کی کنیت ابو سعید ہے، اور اسی کنیت سے عطیه عوفی اِس سے روایت کرتا ہے، تاکہ لوگوں کو اس شبہ میں ڈالیں، کہ یہ ابوسعید الخدریؓ ہیں، اور انہی کی کُنیت ابو ہشام بھی ہے، اور اِس کنیت سے قاسم بن الولید ان سے روایت کرتے ہیں۔
تقریب التہذیب میں اِن حضرت کے بارے میں یوں لکھا ہے،
ترجمہ: محمد بن سائب بن بشیر الکلبی ابوالنضر الکوفی نسبت جاننے والے اور تفسیر لکھنے والے جھوٹ اور رِفض سے متہم ہیں، اِس کی وفات سن 146 ہجری میں ہوئی۔
میزان الاعتدال میں ان صاحب کے متعلق عربی کی طویل عبارت لکھی ہوئی ہے اِس لئے صرف ترجمہ پیش کرتا ہوں۔
محمد بن سائب کلبی جن کی کنیت ابو النضر ہے، وہ کوفی ہیں، اور مفسر اور نسب جاننے والے اخباری ہیں۔
امام ثوری اِس کی نسبت کہتے ہیں، کہ کلبی سے بچنا چاہئے، اس پر کسی نے اِن کو کہا، کہ آپ تو خود اِس سے روایت کرتے ہیں، تو انہوں نے جواب دیا، میں اُس کے جھوٹ کو اُس کے سچ سے جدا کرنا جانتا ہوں۔
امام بخاری نے کہا ہے، کہ یحیٰی اور ابنِ مہدی نے اس کی روایت قابل ترک بتلائی ہے، اور امام بخاری نے یہ بھی کہا ہے، کہ علی نے یحیٰی سے اور انہوں نے سفیان سے بیان کیا ہے، کہ ابو صالح سے جو میں تم سے بیان کروں، وہ جھوٹی ہے، اور یزید بن زریع نے کلبی سے روایت کیا ہے، کہ وہ عبداللہ بن سبا کے فرقے کا تھا۔
ابو معاویہ کہتے ہیں، کہ اعمش نے کہا ہے، کہ اِس سبائیہ فرقہ سے بچنا چاہئے، کیونکہ وہ کذاب ہوتے ہیں۔
ابنِ حبان نے کہا، کہ کلبی سبائی تھا، یعنی ان لوگوں میں سے جو کہتے ہیں، کہ علی رضی اللہ عنه فوت نہیں ہوئے، اور پھر وہ دنیا کی طرف رجعت کریں گے، اور اسے انصاف سے اس طرح بھر دیں گے، جیسے کہ وہ ظلم سے بھری ہوئی تھی، اور جب بھی وہ بادل کو دیکھتے، تو کہتے کہ امیرالمؤمنین (علی رضی الله عنہ) اِسی میں ہیں۔
ابو عوانہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں، کہ میں نے خود کلبی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلٰی اللہ علیه وسلم پر وحی بیان کرتے، اور ایسا اتفاق ہوتا، کہ آپ رفع حاجت کے لئے بیت الخلاء تشریف لے جاتے، تو جبرائیل علیہ السلام، علی رضی الله عنہ پہ اس وحی کو املا کرواتے۔ (یعنی وحی حضرت علی پہ نازل کی جاتی)۔
احمد بن زہیر کہتے ہیں، میں نے امام احمد بن حنبل سے پوچھا، کہ کلبی کی تفسیر دیکھنا درست ہے؟ انہوں نے کہا نہیں۔
جوزجانی وغیرہ نے کہا، کہ کلبی بڑا جھوٹا ہے، اور دارقطنی اور ایک جماعت نے کہا، کہ وہ متروک ہے، یعنی اِس کی روایت لینے کے لائق نہیں ہے،
ابنِ حبان کہتے ہیں، اِس کا جھوٹ ایسا ظاہر ہے، کہ بیان کرنے کی حاجت نہیں، اور اِن حضرت کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی ہے، کہ وہ تفسیر کو ابو صالح سے اور ابو صالح کی روایت ابن عباس سے بیان کرتےہیں، حالانکہ نہ ابو صالح نے ابنِ عباس کو دیکھا، اور نہ ہی کلبی نے ایک حرف بھی ابو صالح سے سنا ہے، مگر جب بھی ان کو تفسیر میں کچھ بیان کرنے کی حاجت ہوتی، تو اپنے دل سے نکال لیتے، ایسے کا ذکر کرنا بھی کتاب میں جائز نہیں، کجا یہ کہ اس کی سند (کوئی روایت) لینا۔
تذکرة الحفاظ (حفاظ الحدیث کا تذکرہ) میں امام ذہبی نے اِن کے فرزند ارجمند ہشام بن کلبی کا جہاں تذکرہ کیا ہے، وہاں ان کے پدر بزرگوار "محمد بن سائب کلبی" کو رافضی لکھا ہے، اور اِن کے فرزند ارجمند کو حفاظ الحدیث میں داخل بھی نہیں کیا۔
معجم الادبا میں یاقوت حموی نے جہاں محمد بن جریر طبری کی کتابوں کا تذکرہ کیا ہے، وہاں لکھا ہے، کہ طبری نے غیر معتبر تفسیر اپنی تفسیر کی کتاب میں بیان نہیں کی، اسی لئے کتاب میں کچھ بھی محمد بن سائب کلبی، مقاتل بن سلیمان، اور محمد بن عمر واقدی کی کتابوں میں سے نہیں لیا، کیونکہ یہ لوگ اس کے نزدیک مشکوک میں سے ہیں۔
امام محمد طاہر نے "تذکرة الموضوعات" میں کلبی صاحب کے بارے میں فرمایا ہے،
*ترجمہ:امام احمد نے تفسیر کلبی کے بارے میں کہا ہے، کہ تفسیر کلبی اول تا آخر جھوٹ ہے، اس کی طرف نظر بھی نہیں کرنی چاہئے۔
فریب عیاں ہوا:
یہ حالت ہے جناب "ابو سعید" کی جن کو ابو سعید الخدری (صحابی رسولؐ) کہہ کے پیش کیا جارہا ہے،
عقیدہ کے اعتبار سے پکے سبائی اور رافضی، اور صداقت ایسی، کہ جن کو زندگی میں کبھی نہ دیکھا، نہ سنا، ان سے روایات کرتے ہیں، اور اپنے آپ کو ان کا شاگرد بنا کے پیش کرتے ہیں، ان کے اعتبار کی یہ کیفیت ہے، کہ طبری جیسا شخص بھی اپنی تفسیر میں اِن سے روایت لینا جائز نہیں سمجھتا، اور یہی صاحب ہیں "ہبہ فَدَک کی حدیث" کے گھڑنے والے، اور اسے پیش کرنے والے، جسے ان کے شاگرد رشید "عطیه عوفی الکوفی"صاحب جو خود بھی شیعہ اور مدلس ہیں، اپنے مذہبی عقائد کی حمایت میں ان سے روایت کرتے ہیں، اور اِن کے دیگر نام اور کنیتیں چھوڑ کے "حدثنا ابو سعید" یا قال ابو سعید کہ کے لوگوں کو اس شبہ میں ڈالتے ہیں، کہ ابو سعید سے مراد ابو سعید الخدری ہیں۔
چار متصل سندیں:
اہل سنت کتابوں میں ہِبہ باغِ فدک کی جتنی بھی روایات موجود ہیں اُن سب کی سند اِن چار (4) متصل میں سے کوئی ایک ہوگی۔ اور اِن تمام کی سند میں راوی ابو سعید (محمد بن سائب کلبی) ہے لہذا یہ تمام روایات خبرِ واحد ہوئیں جبکہ راوی ابو سعید کلبی کی دروغ گوئیاں ہم جرح و تعدیل میں پہلے ہی بیان کرچکے ہیں۔
پہلی سند:
عبدوس ابن عبداللہ ہمدانی۔قاضی ابو نصر شعیب ابن علی۔موسی ابن سعید۔ ولید ابن علی۔عباد ابن یعقوب۔ علی ابن عباس۔فضل۔ عطیہ۔ ابو سعید
دوسری سند:
ابوحمید مہدی ابن نزار۔ حاکم ابن ابو قاسم ابن ابو الحسکانی۔ حاکم الوالد ابومحمد۔ عمر ابن احمد ابن عثمان۔ عمر ابن حسین ابن علی ابن مالک۔ جعفر ابن محمد احمصی۔ حسن ابن حسین۔ ابو معمرابن سعید۔ ابو علی ابن قاسم کندی۔ یحی ابن یعلی۔ علی ابن مسہر۔ فضل ابن مرزوق۔ عطیہ عوفی۔ ابو سعید
تیسری سند:
محمد ابن سلیمان اعبدی۔ ہیثم ابن خلف دوری۔ عبداللہ ابن سلیمان ابن اشعث۔ محمد ابن قاسم زکریا۔ عباد ابن یعقوب۔ علی ابن عابس(علی ابن عباس)۔ جعفر ابن محمد حسینی۔ علی ابن منظر طریفی۔ فضل ابن مرزوق۔ عطیہ عوفی۔ ابو سعید
چوتھی سند:
محمد ابن عباس۔ علی ابن عباس مقالعی۔ ابو کریب۔ معاویہ۔ فضل ابن مرزوق۔ عطیہ عوفی۔ ابوسعید
اب ہمارا تذکرہ اُن اسناد پر ہے جن کواہل تشیع، سنیوں کی طرف منسوب کرتے ہیں لیکن وہ سب نامکمل اسناد ہیں جبکہ اِن میں راوی عطیہ عوفی اور ابو سعید کلبی ہیں۔ اب زرا عطیہ عوفی کی علمی حیثیت پر نظر ڈالتے ہیں۔
جرح و تعدیل راوی عطیہ عوفی:
اس جھوٹے مدلس مکار کا حال یہ ہے کہ جمہور محدثین نے اِس کو مضعف، کذاب اور روایت گھڑنے والا کہا ہے۔ چند حوالہ جات مندرجہ ذیل ہیں۔
عطیہ عوفی کو جمہور محدثینِ کرام نے ضعیف قرار دیا ہے۔
اِس کو امام یحییٰ بن سعید قطان، امام احمد بن حنبل، امام یحییٰ بن معین، امام ابو حاتم رازی، امام ابو زرعہ رازی، امام نسائی، امام ابن عدی، امام دارقطنی، امام ابن حبان اور علامہ جوزجانی رحمہم اللہ وغیرہ نے "ضعیف" قرار دیا ہے۔
اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہوگیا تھا، جیساکہ:
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "عطیہ عوفی کے ضعیف ہونے پر محدثین کرام نے اتفاق کرلیا ہے۔"
نیز حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "اس کے ضعیف ہونے پر محدثین کرام کا اجماع ہے."
حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ باتفاقِ محدثین ضعیف ہے۔"
عطیہ عوفی تدلیس کی بُری قِسم میں بُری طرح ملوث تھا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"یہ کمزور حافظے والا تھا اور بُری تدلیس کے ساتھ مشہور تھا۔"
حافظ ذہبی رحمہ اللہ زیر بحث روایت کے بارے میں فرماتے ہیں: "یہ روایت باطل ہے، اگر واقعی ایسا ہوتا تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اس چیز کا مطالبہ کرنے نہ آتیں جو پہلے سے ان کے پاس موجود اور ان کی ملکیت میں تھی۔"
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اگر اس روایت کی سند صحیح بھی ہو تو اس میں اشکال ہے، کیونکہ یہ آیت مکی ہے اور فَدَک تو سات ہجری میں خیبر کے ساتھ فتح ہوا۔ کیسے اس آیت کو اس واقعہ کے ساتھ ملایا جاسکتا ہے۔"
اہل سنت کی کتب میں جو روایات ذکر ہیں علامہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد 2 صفحہ 299 میں اِن روایات کے موضوع، افتراء اور بے اصل ہونے کا اقرار کیا ہے۔
عطیہ عوفی اپنے استاذ ابو سعید محمد بن السائب الکلبی (کذاب) سے روایت کرتے ہوئے "عن أبي سعید" یا "حدثني أبو سعید" کہہ کر روایت کرتے ہوئے یہ دھوکا دیتا تھا کہ وہ سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے یہ روایت بیان کررہا ہے۔ یہ(والی) تدلیس حرام اور بہت بڑا فراڈ ہے۔ یاد رہے کہ عطیہ عوفی اگر عن ابی سعید کے ساتھ الخدری کی صراحت بھی کردے تو اس سے الکلبی ہی مراد ہے، سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ مراد نہیں ہیں۔
اِس دھوکے اور مکاری کی تفصیل کے لیے دیکھئے کتاب المجروحین لابن حبان (176/2)
جھوٹ، سچ نہ بن جائے:
جناب یہ اِن دو جھوٹے، مضعف اور روایت گھڑنے والے راویوں کا حال ہے جو اِن روایات کو وضع اور ترتیب دینے والے ہیں اور جب یہ انبیاء کی وراثت مال ثابت کرنے میں ناکام و نامراد ہوئے تو یہ جھوٹی روایات وضع کی۔
اِن روایات اور راویوں کا تذکرہ کرنا ضروری تھا کیونکہ ایسا نہ ہو کہ اہل سنت عوام اِن روایات کو حقیقت کے پیمانے میں تول کر روافض کے فریب میں آجائیں۔
بات سے بات کی گہرائی چلی جاتی ہے
جھوٹ آجائے تو سچائی چلی جاتی ہے
محققین اہل سنت نے مُحدثین کے چار درجے ذکر کیے ہیں۔
۔اولی
۔ثانیہ
۔ثالثہ
۔رابع
یہ روایات اولی اور ثانیہ طبقے کی روایات نہیں ہیں بلکہ طبقہ ثالث ورابع کی ہیں تو اِن کو اولی اور ثانیہ کے مقابل حجت نہیں مانا جاسکتا۔
درجِ ذیل حوالات۔
اب ہم اُن روایات کا تذکرہ کرتے ہیں جو اہل تشیع مُحققین نے صراحت کے ساتھ ہِبہ فَدَک میں نقل کی ہیں اور اِن تمام روایات میں واضح طور پر تضاد اور تصادم نمایاں ہے۔
روایت نمبر 1:
ترجمہ:
امام رضا نے فرمایا: اللہ عزوجل نے جب یہ آیت [وآت ذا القربى حقه] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی فرمائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فَدَک فاطمہؓ کو دے دو پس فَدَک دے دیا گیا۔ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے عرض کیا اے فاطمہؓ۔۔ فرمایا حاضر ہوں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فَدَک اور وہ مال جو بغیر گھوڑے دوڑائے اور بغیر محنت کے حاصل ہو وہ ترے لیے خاص ہے ناکہ اِس میں مسلمانوں کا حصہ ہے۔ پس میں نے تجھے عطاء کر دیا۔ اس لیے کہ اللہ نے مجھے حکم دیا ہے پس تو اور ترے بیٹے اِس کو لے لیں۔
سورہ اسراء آیت 2
روایت نمبر 2:
ترجمہ:
سورہ اسراء کی یہ آیت قرابتِ رسول اللہ صلی الله عليہ وسلم کے بارے میں نازل ہوئی ہے اِس کا شانِ نزول فاطمہ سلام اللہ علیہ ہیں پس فَدَک فاطمہ سلام اللہ علیہ کو دے دیا گیا تھا اور مساکین سے مراد فاطمہ سلام اللہ علیہ کی اولاد اور ابن السبیل سے مراد آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آلِ فاطمہ ؑ ہیں۔
روایت نمبر 3:
ترجمہ:
فرمایا آپ فَدَک فاطمہ سلام اللہ علیہ کو دے دو فَدَک میراث ہے اِس کی ماں خدیجہ سلام اللہ علیہ کی طرف سے جو کہ بہن ہے ہند بنت ابی ہالہ کی۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدیجہ سلام اللہ علیہ کو دیا تھا اور یہی خبر دی ہے اِس آیت میں۔
روایت نمبر 4:
ترجمہ متعلقہ:
اِس روایت میں ایک قِصّہ بیان کیا گیا ہے کہ جبرئیل علیہ السلام حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس آتے ہیں اور اُن سے عرض کرتے ہیں سوار ہوجائیں۔ جبرئیل علیہ السلام اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام فَدک کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو زمین کپڑے کی طرح لپیٹ دی جاتی ہے۔ جب جبریل امین اور رسول اللهؐ خیبر کے مضافات تک پہنچتے ہیں تو وہاں کے رہائشی خوفزدہ ہو کر فَدَک کی چابیاں ایک بڑھیا کو دے کر خود پہاڑ کی چوٹی سے یہ منظر دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ تو جبرئیل امین علیہ السلام بڑھیا سے وہ چابی لے کر دروازے اور دار کھولتے ہیں اور رسول اللهؐ کو دے دیتے ہیں اور عرض کرتے ہیں یارسول اللهؐ یہ خاص ہے آپ کیلئے نہ کے عام انسانوں کیلئے۔۔۔ فتح خیبر کے بعد مدینہ واپس آکر رسول اللهؐ حضرت فاطمہؓ کے پاس پہنچے تو فرمایا کہ الله تعالیٰ نے یہ مال فئے دیا جو کہ خاص آپ کیلئے ہے۔ اور رسول اللهؐ نے فرمایا کہ یہ بطورِ حق مہر آپ کی والدہ خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا ہے۔ اِس سے یہ حِصّہ دیا گیا ہے اِس کو میں نے آپ کیلئے حلال کیا ہے۔ اور یہ آپ کیلئے اور آپ کے بعد آپ کی اولاد کیلئے ہے۔
اِسی روایت میں ایک اور واقعہ پیش آتا ہے جو رسول اللهؐ کے وصال کے بعد کا ہے کہ جب علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اُم ایمن رضی اللہ عنہا کو بطورِ گواہ پیش کرتے ہیں تو اُم ایمن رضی اللہ عنہا فرماتی ہے کہ اہل فَدَک نے ،24000 دینار سالانہ ادائیگی کا معاہدہ کیا۔
ہِبہ فَدَک پر اختصار کے ساتھ ہم نے اہل تشیع کتابوں سے صرف (4) روایات نقل کی، جن میں موقف ہِبہ فَدَک کے بارے میں واضح طور پر تضاد و تعارض پایا جاتا ہے۔ فَدَک کے معاملے میں اہل تشیع گروہ نے عوام الناس میں جو پروپیگنڈہ اور شور و واویلا کیا اُس کی حقیقت منکشف اور نمایاں ہوگئی کہ یہ باغِ فَدَک کو ہِبہ ثابت نہیں کرسکے۔
بقول شاعر
*بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا*
*جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا*
اب ہم اُن تعارضات کا تذکرہ کرتے ہیں جس کو ہر فرد کے علم میں لانے کی اشد ضروت ہے۔ کہ کس طرح اہل تشیع طبقے نے فَدَک کے معاملے میں عوام کو گمراہ کیا۔
*>* پہلی روایت میں سورہ اسراء کی جس آیت کو بطورِ حوالہ پیش کیا گیا ہے اِس کے بارے میں ہم ماقبل بیان کرچکے ہیں کہ یہ آیت دس (10) یا گیارہ (11) نبوی میں نازل ہوئی۔ جب کہ فَدَک سات (7) یا آٹھ (8) ہجری میں حاصل ہوا.
*>* دوسری روایت میں بھی یہی ذکر کیا گیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی۔ جبکہ آیت کے نزول کے وقت فَدَک موجود ہی نہیں تھا۔
*>* قران نے جو مصارف بیان کیے ہیں اُن میں مساکین کی تاویل حضرت فاطمہؓ کے بیٹوں سے کردی۔ اور ابنِ السبیل کی تاویل آلِ رسولؐ اور آلِ فاطمہؓ سے کردی۔
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تاویل کس قرینے اور کس اشارے کے تحت کی گئی ہے۔ جب کہ آیت میں کوئی اشارہ، کنایہ اور قرینہ موجود نہیں ہے۔
*>* تیسری روایت میں اِس آیت کے شانِ نزول میں یہ ذکر کرتے ہیں کہ فاطمہؓ کو فَدَک حضرت خدیجہؓ کے حق مہر کے عوض دیا گیا اور بطورِ وراثت۔ تو جناب اِس روایت نے تو فَدَک کے ہِبہ ہونے کے تمام دعووں کو جھوٹ اور کھوکھلا ثابت کردیا اور پھر یہاں فَدَک کو میراث کہا گیا ہے۔
*>* چوتھی روایت اوّل تو، کِذب، دروغ گوئی، افتراء اور مکر کے ستونوں پر کھڑی ہے۔ لیکن اگر بالفرض اِس روایت کو سچ مان لیتے ہیں تو جن شیعہ محققین نے واٰت ذی القربی کے شانِ نزول کو مدنی کہا۔ پھر وہ سب جھوٹ ہے
*<* چوتھی روایت میں ایک باقاعدہ قِصّہ گھڑا گیا ہے کہ جب واٰت ذی القربی آیت نازل ہوئی تو حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ فدک کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔
جبکہ دوسری مرتبہ فتح خیبر کے موقع پر فَدَک کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔
ساتھ ساتھ اِس روایت میں یہ بھی مرقوم ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فَدَک کو مالِ فئے کے طور پر حضرت فاطمہؓ کیلئے مخصوص کیا۔ جبکہ اِن کا یہ دعویٰ تمام شیعہ روایات سے متصادم و متعارض ہے جو روایات ماقبل بیان کی جاچکی ہیں کہ فَدَک اُس وقت ہِبہ ہوا جب آیت واٰت ذی القربی نازل ہوئی۔
*<* چوتھی روایت ہی میں ایک اور تعارض سامنے آیا کہ جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اُم ایمن رضی اللہ عنہا کو بطورِ گواہ پیش کرتے ہیں تو فَدَک کے ہِبہ ہونے کے بجائے 20،000 دینار سالانہ ادائیگی کا معاہدہ ہوا۔
"نتیجہ"
*<* اہل تشیع نے فَدَک کے محل وقوع میں جو روایات پیش کی ہیں اُن روایات ہی میں تضاد ہے۔
*<* ہِبہ فَدَک میں جس آیت سے استدلال کیا ہے اُس کے تاریخِ نزول میں بھی اہل تشیع روایات میں تضاد ہے۔
*<* اہل سُنّت کی طرف ہِبہ فَدَک میں جن روایات کے کثیر ہونے کا دعویٰ کیا ہے وہ بھی خبرِ واحد ہے۔
*<* ہبہ فَدَک میں جس راوی کی یہ روایات ہیں جرح و تعدیل میں اُس کی صورتحال انتہائی دگرگوں ہے۔
*<* یہ تمام روایات محدثین کے طبقہ اولٰی اور ثانیہ سے منقول نہیں ہیں۔
*<* جب تک کسی شے کی ملکیت ثابت نہ ہو، ہِبہ نہیں کی جاسکتی۔ بروایت اہل تشیع
*<* ہِبہ فَدَک میں اہل تشیع روایات میں کثیر تضاد ہے۔
*<* اہل تشیع نے واٰت ذی القربی کے شانِ نزول میں جو روایات پیش کی ہیں اُن میں ہِبہ اور میراث دونوں کا دعویٰ کیا ہے۔
*<* باغِ فَدَک کے بارے میں بروایت اہل تشیع:
اُمِّ ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ فَدَک 20،000 دینار سالانہ دینے کا معاہدہ تھا نہ کہ کوئی باغ یا زمین۔
اِن تمام متون کے بعد ہم اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ باغِ فَدَک کے ہِبہ ہونے میں جتنی بھی اہل سنت اور اہل تشیع روایات پیش کی جاتی ہیں وہ سب من گھڑت، جھوٹ اور دَجَل پر مبنی ہے۔ لہذا ہم تو یہی عرض کرتے ہیں
*ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں*
جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے.
اہل تشیع حضرات نے باغِ فَدَک کو باطل تاویلات، جھوٹی روایات اور من گھڑت قِصّوں سے ہِبہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن جب ان سب میں ناکام ہوئے تو انہوں نے اونٹ کو دوسری کروٹ بٹھایا کہ فَدَک میراث ہے۔
جب کہ ہم ماقبل بیان کرچکے ہیں کہ، ہِبہ اور میراث دو متضاد دعوے ہیں، ہِبہ زندگی چاہتا ہے اور میراث موت۔
اور اِس کے ساتھ ساتھ ہم شیعہ کتب سے یہ حوالے بھی بیان کرچکے ہیں کہ ہِبہ کی ہوئی چیز میراث نہیں ہوسکتی۔
ہم آپ کے سامنے ایک مسئلے کو پیش کریں گے جس کہ تحت اہل تشیع مذہب میں غیر منقولہ جائیداد میں عورت کا کوئی حِصّہ نہیں ہوتا۔
الکافی نے اس موضوع پر باب باندھا ہے اور گیارہ (11) روایات نقل کی لیکن ہم نے بطورِ اختصار صرف دو (2) روایات نقل کی ہیں۔ جبکہ اصولِ اربعہ میں اِس مسئلے پر کثیر روایات موجود ہیں۔
*روایت نمبر 1:*
*ترجمہ:*
ابو جعفر نے فرمایا عورتیں زمین اور رہائشی عمارت میں وارث نہیں ہوتیں.
*روایت نمبر 2:*
*ترجمہ:*
ابو عبد اللہ سے روایت ہے کہ: میں نے ان سے پوچھا کہ عورتوں کے پاس وراثت میں سے کیا ہے؟ انہوں نے کہا: ان کے پاس اینٹوں، عمارت، لکڑی اور بانس کی قیمت ہے، زمین اور رہائشی امِلاک میں ان کی کوئی میراث نہیں ہے، میں نے کہا: کپڑے؟ انہوں نے فرمایا: کپڑوں کا اپنا حِصّہ ہے، میں نے کہا: کیسے؟ یہ اتنا اور اس کی قیمت، اور اس کو چوتھائی حصہ کہا انہوں نے کہا اس لئے کہ خواتین کو میراث دینے کا کوئی نسب نہیں ہے۔
ایک کہاوت مشہور ہے کہ آسمان سے گِرا کھجور میں اٹکا۔
فَدَک کے دعوے پر یہ مثال اہل تشیع پر ثابت آتی ہے کہ جب ہِبہ سے بھاگے میراث کی طرف، تو معصومین کے فرمان کے مطابق غیر منقولہ جائیداد کی وراثت میں عورت کا حِصّہ ہی نہیں۔ تو اب دعویٰ کیا رہ گیا۔ ؟؟
اہل تشیع کی دِلی تسلّی اور اہل سُنّت کی دلجوئی کیلئے، ہم اُن قرانی آیات جن کو اہل تشیع فَدَک کے میراث ہونے پر پیش کرتے ہیں
اہل تشیع کا قران مجید سے استدلال:
ترجمہ:
اللہ تمہاری اولاد کے حق میں تمہیں حکم دیتا ہے، ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے، پھر اگر دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو ان کے لیے دو تہائی حصہ چھوڑے گئے مال میں سے ہے، اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے، اور اگر میت کی اولاد ہے تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو کل مال کا چھٹا حصہ ملنا چاہیے، اور اگر اس کی کوئی اولاد نہیں اور ماں باپ ہی اس کے وارث ہیں تو اس کی ماں کا ایک تہائی حصہ ہے، پھر اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو اس کی ماں کا چھٹا حصہ ہے، (یہ حصہ ہوگا) اس کی وصیت یا قرض کی ادائیگی کے بعد، تمہارے باپ یا تمہارے بیٹے، تم نہیں جانتے کہ ان میں سے کون تمہیں زیادہ نفع پہنچانے والے ہیں، اللہ کی طرف سے یہ حصہ مقرر کیا ہوا ہے، بے شک اللہ خبردار حکمت والا ہے۔
استدلال اہل تشیع:
اہل تشیع اِس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ انبیاء کی دنیاوی وِراثت ہوتی ہے۔ تو سب سے پہلی بحث یہ ہے کہ اِس آیت کے تحت رسول اللہ ﷺ خطاب میں شامل ہیں یا نہیں ؟؟
تو جناب اہل تشیع حضرات کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ خطاب میں شامل ہیں۔
اعتراض اہل سنت:
بالفرض ہم یہ تسلیم کرلیتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اِس خطاب میں شامل ہیں تو اس نتیجے میں دوسرے حقائق کو ماننا پڑے گا، جو مندرجہ ذیل ہیں.
1> دوسری آیاتِ وراثت میں بھی رسول اللہ ﷺ کو شاملِ خطاب کرنا ہوگا۔
2> اِس آیت کے تحت رسول اللہ ﷺ کی دوسری بیٹوں، ماں باپ اور بہن بھائیوں کا وارث ہونا لازم آئے گا۔ جبکہ رسول اللہ ﷺ کے زیادہ تر رشتہ دار حیات نہیں تھے۔ تو پھر رسول اللہ ﷺ خطاب میں شامل کیسے؟؟
3> قران مجید میں بیوی کی وراثت جو کہ دلالت نص اور قطعی الدلالہ ہے تو پھر رسول اللہ ﷺ کی زوجہ یعنی امہات المؤمنین رضی اللّٰہ عنہما بھی میراث کے خطاب میں شامل ہیں۔ اس پر قران مجید کی یہ آیت اور دوسری آیات بطورِ دلیل ہیں۔ تو امہات المؤمنین رضی اللہ عنہما کو خطاب سے کس دلیل سے علیحدہ کریں گے؟؟ جس کیلئے سورہ النساء کی آیت 12 پیش ہے۔
ترجمہ:
اور جو مال تم (مرد) چھوڑ مرو۔ اگر تمہارے اولاد نہ ہو تو تمہاری عورتوں کا اس میں چوتھا حصہ۔ اور اگر اولاد ہو تو ان کا آٹھواں حصہ۔
4> ایک سوال اور پیدا ہوتا کہ سورہ النساء کی آیت نمبر میں 3 میں رسول اللہ ﷺ میں شامل ہیں یا نہیں؟
اگر شامل ہیں تو دلیل کیا ہے؟ اور اگر شامل نہیں ہیں تو دلیل کیا ہے؟؟
ترجمہ:
اور اگر تم کو اس بات کا خوف ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارےانصاف نہ کرسکوگے تو ان کے سوا جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار ان سے نکاح کرلو۔ اور اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ (سب عورتوں سے) یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت (کافی ہے) یا لونڈی جس کے تم مالک ہو۔ اس سے تم بےانصافی سے بچ جاؤ گے.
پہلا اعتراض:
سورہ النساء کی وراثت والی آیات میں رسول اللہؑ مخاطب نہیں ہیں آپ کے پاس اِس کی دلیل کیا ہے؟؟
جواب:
1> ہم ماقبل متن میں بیان کرچکے ہیں کہ انبیاء کو دنیاوی مال کا مورث ماننے میں فرائض کی دوسری آیات میں تعرض پیش آتا ہے۔
2> متصل صحیح الاسناد شیعہ اور سنی کتابوں میں موجود روایات دال ہیں کہ انبیاء دنیاوی مال کے نہ وارث ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی کو وارث بناتے ہیں اور یہی اِس آیت کی تفسیر ہے۔ اور یہی روایات میں بیان ہوا ہے۔
مختصراً ہم ایک ہی روایت پیش کرتے ہیں۔
روایت:
متعلقہ ترجمہ:
بے شک علماء انبیاءؑ کے وارث ہیں بے شک انبیاءؑ نہیں بناتے وارث کسی کو درہم و دینار کا، بلکہ اُن کی وراثت تو علم ہے۔
اور یہی ہم معنی روایات صحاح ستہ احادیث کی کتابوں میں ہیں۔
دوسرا اعتراض:
جناب آپ بخاری کی روایت "لم یورثوا" جو کہ خبر واحد ہے اُس سے تخصیص کیسے کرسکتے ہو؟؟
جواب:
1> یہ روایت بخاری میں ابوبکر صدیقؓ سے اور الکافی میں امام جعفر صادق ؒ علیہ سے منقول ہے جبکہ دیگر اسناد میں بھی موجود ہے تو آپ کس نظریے سے اِسے خبرِ واحد کہتے ہو؟؟
2> اہل تشیع کی کتاب تحریر احکام جلد 5 کے صفحہ 55 سے 80 تک (37) سینتیس موانع ارث ذکر ہیں اور اکثر کی تخصیص خبر واحد سے کی گئی ہے جیسے کہ
کافر و مسلمان
غلام و آزاد
قاتل ومقتول
لعان والی کا بیٹا
تو اِن پر اعتراض کیوں نہیں؟؟
ہم اہل تشیع کے تضاد بیانات کا ذکر کریں گے اور اُس کے ساتھ ہی چند ایسے سوالات پیش کریں گے۔ جس کا جواب اہل تشیع حضرات کے پاس یقیناً نہیں ہوگا۔
۔۔ ایک ہی آیت میں کبھی حضورؐ کی ذات کو شامل خطاب کرنا اور کبھی نہ کرنا ، کیا یہ عمل تضاد پر مبنی نہیں۔۔؟؟
۔۔ جب آپ حضرت فاطمہؓ کے لیے وراثت ثابت کرتے ہیں تو اس سے حضورؐ کی دوسری بیٹیوں کو کس نظریے اور دلیل سے محروم کرتے ہیں۔۔؟؟
۔۔ حضورؐ کی وراثت مال ثابت کرتے ہوئے اُمُّ المومنین رضی اللہ عنہما کو کس دلیل اور نظریے سے محروم کرتے ہیں۔۔؟؟
۔۔ جب آپ انبیاءؑ کی وراثت مال ثابت کرتے ہو تو آیاتِ فرائض کا کیا حکم ہے؟
کیا فرائض کی تمام آیات سے تعارض لازم نہیں آتا
(سورہ مریم آیت 6-5)
ترجمہ:
اور بے شک میں اپنے بعد اپنے رشتہ داروں سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے پس تو اپنے ہاں سے ایک وارث عطا کر. جو میرا اور یعقوب کے خاندان کا بھی وارث ہو، اور میرے رب اسے پسندیدہ بنا۔
استدلال اہلِ تشیع:
اہل تشیع کہتے ہیں کہ اِس آیت سے مال کی وراثت مراد ہے۔
اِسی وجہ سے حضرت زکریاؑ کو اپنے رشتے داروں کی جانب سے یہ خوف لاحق تھا کہ وہ اُن کے بعد اُن کے مال کے وارث ہوجائیں گے۔ یہ خوف اپنے بعد کا تھا۔
اعتراض اہلِ سنت:
آپ کس قرینے کے تحت یہ کہتے ہیں کہ انبیاءؑ کی وراثت مال ہے.۔؟؟
جواب اہل تشیع:
"مِنۡ وَّرَآءِیۡ" یہ قرینہ ہے کہ حضرت زکریاؑ کو اپنے بعد یہ خوف تھا کہ اُن کے رشتہ دار اُن کے مال کے وارث ہوجائیں گے۔
اعتراض اہلِ سنت:
جناب "مِنۡ وَّرَآءِیۡ" سے مراد مالی وراثت نہیں ہے اور اِس کا جواب بھی ہم قران مجید ہی سے پوچھتے ہیں کہ "مِنۡ وَّرَآءِیۡ" سے کیا مراد ہے؟؟
پہلا تعارض:
حضرت یعقوبؑ نے موت کے وقت اولاد سے پوچھا:
ترجمہ:
اُس نے اپنے بیٹوں سے کہا تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟؟
دوسرا تعارض:
قران نے سورہ مریم میں متعدد انبیاءؑ کے ذکر کے بعد فرمایا:
ترجمہ:
پھر ان کی جگہ ایسے ناخلف آئے جنہوں نے نماز ضائع کی اور خواہشوں کے پیچھے پڑ گئے، پھر عنقریب گمراہی کی سزا پائیں گے
تیسرا تعارض:
ترجمہ:
اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو بس رسول ہی ہیں، ان سے پہلے اور بھی رسول گزرچکے ہیں، بھلا اگر یہ وفات پا جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟
خلاصہ تعارضات:
اِن قرانی آیات سے ایک بات سمجھ آئی کہ تمام انبیاءؑ نے اپنے بعد اپنی امت یا اپنی اولاد کی اللہ کی فرمانبرداری کے بارے میں سوچا ہے، نہ کہ اپنے مال کی وراثت کے بارے میں۔ تو جناب آپ کا استدلال باطل ہے انبیاءؑ کی وراثت پر "مِنۡ وَّرَآءِیۡ" کو قرینے کے طور پر پیش کرنا بھی باطل ہے۔
متعلقہ آیت کا سیاقِ کلام:
جس آیت سے اہلِ تشیع استدلال کرتے ہیں، اُس میں حضرت زکریاؑ اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے وارث طلب کرتے ہیں اور اُن کے وارث حضرت یحییٰؑ ہوتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ زکریاؑ نے کن اوصاف کا ذکر کر کے اپنے لئے وارث طلب کیا۔
ترجمہ:
جو میرا اور یعقوبؑ کے خاندان کا بھی وارث ہو، اور میرے رب اسے پسندیدہ بنا۔
ترجمہ:
اے یحیٰی کتاب کو مضبوطی سے پکڑ، اور ہم نے اسے بچپن ہی میں حکمت عطا کی۔
ترجمہ:
پھر ہم نے اپنی کتاب کا ان کو وارث بنایا جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا۔
1> یہاں قواعد کیسے بدل گئے کیا زکریاؑ کو مال کی زیادہ فکر تھی..؟؟
جب کہ سارے قرینے آپ کے استدلال کے خلاف ہیں۔۔؟؟
2> کیا زکریاؑ کو اللہ کے حکم کا علم نہیں تھا کہ رشتے دار بھی مال کے وارث ہوتے ہیں۔۔؟؟
جب کہ اللہ تعالیٰ نے رشتے داروں کو مالی وارث بنایا ہے۔
3> اہلِ تشیع کے استدلال کے مطابق تمام انبیاءؑ تو امت کی بھلائی کی فکر کریں اور حضرت زکریاؑ مال کی فکر کریں۔
4> کیا "مِنۡ وَّرَآءِیۡ" کا جو مفہوم آپ نے لیا ہے وہ قران کی دوسری آیات سے متصادم نہیں۔جو انبیاءؑ کی اُمت کی فکر میں بیان کی گئی ہیں..؟؟
5> فرائض کی دوسری آیات جن کا ماقبل ذکر کیا گیا ہے، کیا تمام قرینے علومِ نبوت پر دلالت نہیں کرتے..؟؟
ترجمہ: اور سلیمان داؤد کا وارث ہوا، اور کہا اے لوگو ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہمیں ہر قسم کے ساز و سامان دیے گئے ہیں، بے شک یہ صریح فضیلت ہے۔
استدلال اہل تشیع:
اِس آیت سے شیعہ حضرات نے انبیاءؑ کی وراثت مال ہونا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
کہ داودؑ کے وارث سلیمانؑ ہوئے ہیں۔
اعتراض اہل سنت:
جناب حضرت داودؑ کی سلیمانؑ کے علاوہ بھی اولادیں تھیں.
اولادِ داودؑ:
(1) یہ داودؑ کے بیٹے ہیں جو حبرُون میں اُس سے پَیدا ہُوئے ۔پہلا امنون یزرعیلی اخِینُو عم کے بطن سے تھا.
2) دوسرا دانی ایل کرمِلی ابِیجیل کے بطن سے تھا۔
3) تیسرا ابی سلوم جو جسُور کے بادشاہ تلمی کی بیٹی معکہ کا بَیٹا تھا۔
4) چَوتھا ادُونیاہ جو حجِیّت کا بَیٹا تھا۔
5) پانچواں سفطیاہ ابی طال کے بطن سے تھا.
6) چھٹا اِترعام اُن کی بِیوی عِجلہ سے تھا۔
اِس کے علاوہ یروشلم میں پیدا ہونے والی داودؑ کی دیگر اولادیں تواریخ کی روشنی میں مندرجہ ذیل ہیں۔
1) سِمعا، سُوباب، ناتن اور سُلیمان۔ یہ چاروں عمّی ایل کی بیٹی بت سُوع کے بطن سے تھے۔
2) اِبحار، الِیسمع، الِیفلط، نُجہ، نفج، یفِیعہ، الِیدع اور الِیفلط۔ یہ سب حرموں کے بطن سے تھے اور تمر اِن کی بہن تھی۔
حضرت داودؑ کی ننانوے (99) بیویاں تھیں اور بیس (20) کے قریب بیٹے بیٹیوں کا ذکر ملتا ہے
یہاں بھی اہل تشیع اپنی روایتی مکر و فریب کے ذریعے سے باطل تاویل اور استدلال کرتے ہوئے صرف سلیمانؑ کو وارث بنا کے دیگر بیٹے، بیٹیوں اور بیویوں کو محروم کررہے ہیں۔
اعتراض اہلِ تشیع:
اہلسنت کی طرف سے لفظ وارث کو مجاز کے بجائے اصل معنی میں کیوں مراد نہیں لیاجاتا اور مجاز میں استعمال کی دلیل کیا ہے۔۔؟؟
پہلا جواب:
ترجمہ: اور ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم دیا، اور کہنے لگے اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں بہت سے ایمان دار بندوں پر فضیلت دی۔
دوسرا جواب:
اسی آیت کی تفسیر میں اہل تشیع مفسرین نے لفظ "ورث" کو علم کی وراثت کے معنی میں لیا ہے نہ کہ مال کی وراثت کے معنی میں۔
روایت مندرجہ ذیل ہے۔
تیسرا جواب:
ترجمہ: اور سلیمان داؤد کا وارث ہوا، اور کہا اے لوگو ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہمیں ہر قسم کے ساز و سامان دیئے گئے ہیں، بے شک یہ صریح فضیلت ہے۔
موقف اہلِ سنت:
سورہ النمل کی آیت 16 میں داودؑ کی وراثت کا جو ذکر ہوا ہے وہ مُلک اور نبوت تھی نہ کہ مال، جس کے وارث سلیمانؑ ہوئے۔ اور اہل تشیع کی مابعد روایات بھی اسی موقف پر دلالت کرتی ہیں کہ مُلک اور نبوت وراثت تھی نہ کہ مال۔
اہل تشیع روایات:
تفسیر صافی میں جب وراثت داودؑ کے بارے امام جعفر صادق سے سوال کیا گیا تو انہوں نے بھی مُلک اور نبوت ہی وراثت فرمائی ہے
الکافی کی ایک اور روایت پیش ہے:
نتیجہ:
ان تمام روایات سے "ان الانبیاء لم یورثوا" کی بھی تصدیق ہوگئی کہ انبیاءؑ نہ مال کے وارث بناتے ہیں اور نہ ہی مال کے وارث بنتے ہیں
تضادات:
1> داودؑ کی دوسری اولادوں اور بیویوں کو وراثت سے کیسے محروم کردیا..؟؟
2> کیا انبیاءؑ کی وراثت مال ثابت کرتے ہوئے دوسری فرائض سے تعارض پیش نہیں آتا۔.؟؟
3> کیا آپ کا یہ استدلال خود آپ کے آئمہ معصومین کی روایات کے خلاف نہیں جنہوں نے مُلک اور نبوت کو وراثت فرمایا ہے..؟؟
4> الکافی کی روایت کے مطابق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سلیمانؑ کے کس چیز میں وارث ہوئے۔۔؟؟
*دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے*
*اِس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے*
جناب انبیاءؑ کی وراثت علوم نبوت ہوتی ہے نہ کہ مالِ دولت۔
علم و علماء کی فضیلت میں الکافی میں کثیر روایات ذکر ہوئی ہیں
ہم الکافی کی اِس روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ انبیاءؑ نہ کسی کے مال کے وارث ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی کو مال کا وارث بناتے ہیں.
روایت:
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا. جو شخص علم کی طلب میں کسی راستے پر چلا، تو اللہ تعالیٰ اسے جنت کے راستے پر چلائے گا۔ بے شک فرشتے اپنے پروں کو بچھاتے ہیں اس شخص کیلئے جو اللہ کی رضا کیلئے علم حاصل کرتا ہے اور تمام مخلوقات جو آسمانوں میں اور جو زمین میں یہاں تک کے سمندر کی مچھلیاں استغفار طلب کرتی ہیں طالبعلم کیلئے، اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے چودہویں کے چاند کی تمام ستاروں پر بے شک علمائے کرام انبیاء کے وارث ہیں اور بے شک نہیں بناتے انبیاء وارث کسی کو دینار یا درہم کا، بلکہ ان کی وراثت تو علم ہے۔ اور جو اس سے فائدہ اٹھاتا ہے اسے کافی حصہ ملتا ہے۔
روایت نمبر 1:
یہ بھی اسی حدیث کی تائیدی ہے اور اس میں انما سے حصر ہے اور اہل زبان جانتے ہیں کہ انما اور لکن دونوں استدراک کے لیے ہوتے ہیں اور شک کو دور کرتے ہیں اور مابعد میں داخل ہونے والے شکوک وشبہات کو دور کرتے ہیں.
روایت نمبر 2:
ترجمہ: حضرت ابو جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک رسول ﷺ نے کسی کو درھم و دینار یا غلام یا باندی یا بکری یا اونٹ کا وارث نہیں بنایا، بلاشبہ آنحضور ﷺ کی روح اس حال میں قبض ہوئی جب کہ آپ کی زرہ مدینہ کے ایک یہودی کے پاس صاع جو کے عوض رہن تھی، آپ نے اس سے اپنے گھر والوں کے لئے بطور نفقہ یہ جو لئے تھے۔
روایت نمبر 3:
جناب اہل تشیع حضرات اپنی اِس روایت پر درجنوں اعتراض کرتے ہیں
اعتراض اہل تشیع:
یہاں سونا چاندی درھم دینار کا ذکر ہے زمین کا ذکر نہیں تو زمین میں وراثت جاری ہوگی۔
جواب:
1> آپ کا اعتراض اصول پر نہیں قیاسِ باطل پر مبنی ہے کیونکہ لکن و انما حصر کے لیے ہیں۔
اور ما بعد میں پیدا ہونے والے شکوک کو دور کرتے ہیں اصولوں کے مطابق اِس جملے کی نحوی، صرفی و بلاغی ترکیب کریں۔
اور پھر ترجمہ کریں آپ کا اعتراض ہی نہیں بنے گا۔
2> استدلال اہل تشیع سے پہلے ہم اس مسئلے پر وضاحت کے ساتھ بیان کر چکے ہیں کہ اہل تشیع کے نزدیک غیر منقولہ جائیداد کی وراثت میں عورت کا حِصہ نہیں ہوتا۔
اعتراض اہل تشیع:
جناب آپ نے اِس کا ترجمہ غلط کیا ہے اس سے مراد ہے کہ علماء علم کے وارث اور اہل بیت مال کے وارث ہیں۔
جواب:
1> عبارت ان الانبیآء لم یورثوا درھما ودینارا…
جہالت کی حد ہے جو لوگ عربی قواعد کو جانتے ہیں وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ جو ترجمہ اہل سنت نے کیا وہ درست ہے اور اہل تشیع ترجمہ کی وجہ سے عوام کو دھوکا دینا چاہتے ہیں وہ غلط ہے۔
*مثال:
ان دونوں عبارتوں میں لفظ احداً مفعول، محزوف اورعام یا نکرہ ہے۔
تو جو ترجمہ ہم نے کیا وہ درست اور اہل تشیع کا غلط ہے۔
2> کتاب اہل تشیع تنزیہ الانبیاء صفحہ 45 حدیث کے اِس حصے کا اہل تشیع کا کیا ہوا فارسی ترجمہ ملاحظہ کریں۔
البتہ میراث انبیاء درہم ودینار نبودہ بلکہ علوم واخلاق ومقامات وصفات مرضیہ ایشاں بودہ است
یہ اہل تشیع کی اپنی کتاب کا کیا ہوا ترجمہ ہے کاش کہ اعتراض کرنے والے جانتے کہ اہل تشیع نے بھی وہی ترجمہ کیا جو ہم نے کیا ہے۔
تو اعتراض ختم۔۔!!
پہلے اِس کا جواب دیں جو اہل تشیع علماء نے ترجمہ کیا ہے.
اعتراض اہل تشیع:
اہل سنت لم یورثوا کو فعل مجہول پڑھتے ہیں جبکہ لم یورثو فعل معروف ہے۔ اِس صورت میں لم یورثو کا فاعل علماء ہونگے، علماء انبیاء کے علم کے وارث ہونگے اور اہل بیت مال کے وارث ہونگے۔
جواب:
اہل بیت اطہار ہر مرد و زن سے بڑھ کر کون عالم ہے اور آئمہ اہل بیت سے روایات موجود ہیں۔
روایت نمبر 1:
اِس آیت کے بارے میں امام باقر فرماتے ہیں جو جانتے ہیں وہ ہم ہیں اور جو نہیں جانتے وہ ہمارے دشمن۔
اِس کے ہم معنی اور بہت ساری روایات موجود ہیں۔
روایت نمبر 2:
لأمالي للصدوق
روایت نمبر 3:
یہ تمام روایات مطلقاً اہل بیت کے علم کے بارے میں مذکور ہیں۔ تو اب یا تو آپ کی سوچ فاسد ہے، یا یہ روایات۔
اعتراض اہل تشیع:
یہ حدیث (لم یورثو) اِن قرانی آیات کے خلاف ہے.
جواب:
1> پہلی تین آیات میں وراثت کا ذکر ہے لیکن مخاطب اُمت ہے نبیؑ نہیں اور کوئی اشارہ، کنایہ اور قرینہ بھی نہیں ہے۔
جبکہ آخری دو آیتوں میں انبیاءؑ کا ذکر ہے مالی وراثت کا ذکر نہیں اِن کی تفصیل استدلال اہل تشیع میں بیان کرچکے ہیں
2> ما قبل بیان کی جانی والی الکافی، بخاری اور تائیدی روایات "لم یورثو" اِن آیات کی تفسیر کرتی ہیں کہ انبیاءؑ کی وراثت مال نہیں ہوتا اور یہ روایات قران کے مخالف نہیں بلکہ اہل تشیع کی کج عقل کے خلاف ہے۔
جو عمل اور طریقہ جناب رسول پاک ﷺ نے اموالِ فئے فدک وغیرہ کے متعلق اپنے عہد مبارک اور حیات طیبہ میں مقرر اور جاری فرمایا تھا وہی تمام خلفائے راشدینؓ کی خلافت، حتیٰ کہ حضرت علیؓ اور حضرت حسنؓ کے دور تک اِس میں کسی قسم کا کوئی تغیر و تبدل واقع نہ ہوا۔
تمام سنی و شیعہ مورخین، محدثین اور مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ جو عمل رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں کیا وہی عمل تمام خلفائے راشدینؓ نے اپنی حیات میں کیا۔
اہل تشیع روایات:
اہل تشیع کی ان تمام روایات میں خلفائے راشدینؓ کا فَدَک کے حِصّے کی تقسیم پر طرزِ عمل بیان کیا گیا ہے۔
روایت نمبر 1:
اموال و احوال خودرا از تو مضائقہ ندارم آنچہ خواہی تو سیدہ امت پدرخودی و شجرہ طیبہ از برائے فرزندان خود انکار فضل تو کسے نمے تو اندکرد و حکم تو نافذ است درمال من۔ امادر گفتہ پدر تو نمے تو انم کرد
ترجمہ:
میں اپنا مال جائیداد دینے میں تم سے دریغ نہیں کرتا،جو کچھ مرضی چاہے لے لجیئے۔ آپ اپنے باپ کی اُمت کی سیدہ ؓ ہیں اور اپنے فرزندوں کے لئے پاکیزہ اصل اور شجرہ طیبہ ہیں۔ آپ کے فضائل کا کوئی انکار نہیں کرتا آپ کا حکم میرے ذات مرے مال میں بلا چوں و چرا جاری و منظور ہے۔ لیکن عام مسلمانوں کے مال میں آپ کے والد بزرگوار ﷺ کے حکم کی مخالفت ہرگز نہیں کرسکتا۔
روایت نمبر 2
کان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یاخذ من فدک قوتکم ویقسم الباقی ویحمل فیہ فی سبیل اﷲ ولک علی اﷲ ان اصنع بہاکما کان یصنع فرضیت بذلک واخذت العہد علیہ بہ وکان یاخذ غلتھا فیدفع الیہم منھاما یکفیہمم ثم فعلت الخلفاء بعدہ ذلک
ترجمہ:
تم سب سچے ہو۔ مگر اس کاتصفیہ یہ ہے کہ رسول اﷲ ﷺ فَدَک کی آمدنی سے تمہارے گزارے کے لئے رکھ لیتے تھے، اور باقی جو بچتا تھا اس کو تقسیم فرما دیتے تھے اور اﷲ کی راہ میں اس میں سے اٹھا لیتے تھے اور میں تمہارے لئے ﷲ کی قسم کھاتا ہوں کہ فَدَک میں وہی کروں گا جو رسول کرتے تھے تو اس پر فاطمہ راضی ہوگئیں اور فَدَک میں اسی پر عمل کرنے کو ابوبکر سے عہد لے لیا اور ابوبکر فَدَک کی پیداوار کرلیتے تھے اور جتنا اہل بیت کا خرچ ہوتا تھا ان کے پاس بھیج دیتے تھے، اور پھر ابوبکر کے بعد اور خلفاء نے بھی اسی طرح کیا۔
روایت نمبر 3:
عمل أمير المؤمنين، وإنما أمنع أن يكون أمير المؤمنين عليه السلام قد سار علی طريقة الصديق، فإن التاريخ لم يصرح بشئ من ذلك، بل صرح بأن أميرالمؤمنين كان يرى فدك لأهل البيت، وقد سجل هذا الرأي بوضوح في رسالته إلى عثمان بن حنيف كما سيأتي. فمن الممكن أنه كان يخص ورثة الزهراء وهم أولادها وزوجها بحاصلات فدك، وليس في هذا التخصيص ما يوجب إشاعة الخبر، لأن المال كان عنده وأهله الشرعيون هو وأولاده. كما يحتمل أنه كان ينفق غلاتها في مصالح المسلمين برضى منه ومن أولاده عليهم الصلاة والسلام ، بل لعلهم أوقفوها وجعلوها من الصدقات العامة.
متعلقہ ترجمہ:
اِس روایت میں حضرت علیؓ کے فَدَک کے استعمال کا طریقہ کار بیان کیا گیا ہے ابن ابی حدید نے بتایا کہ جس طریق پر ابوبکر صدیقؓ باغِ فَدَک کو استعمال کرتے تھے اسی طریق پر حضرت علیؓ نے باغ فَدَک کو استعمال کیا ہے۔
روایت نمبر 4:
ابوبکرؓ باغِ فدک کے غلہ میں سے اتنا حصہ اہلِ بیت کو دے دیا کرتے تھے جو ان کی ضروریات کے لیے کافی ہوتا۔ باقی سب تقسیم کردیا کرتے تھے، آپ کے بعد عمرؓ بھی ایسا ہی کرتے، عثمانؓ بھی ایسا ہی کیا کرتے اور ان کے بعد علیؓ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔
روایت نمبر 5:
زید بن علی بن حسین کہنے لگے: اللہ کی قسم اگر فیصلہ میرے پاس آتا تو میں بھی وہی فیصلہ کرتا جو ابوبکرؓ نے کیا ہے۔
روایت نمبر 6:
زین العابدین بن حسین بن علی فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! اگر فَدَک کی تقسیم کا مقدمہ میری طرف لوٹ کر آتا تو میں بھی اس کا وہی فیصلہ کرتا جو ابوبکر صدیقؓ نےفیصلہ کیا تھا۔
باغِ فَدَک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والا طریقہ کار حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ نے اپنایا، اور پھر حضرت علیؓ اور حضرت حسنؓ کے خلیفہ بننے کے بعد یہی طریقہ کار اپنانے سے یہ بات تو ثابت ہوئی کہ فَدَک مال فئے تھا۔
1> حضرت علیؓ نے باغِ فَدَک کے مسئلے میں خلفائے ثلاثہ (ابوبکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ) کا طریق کیوں اختیار کیا۔۔؟؟
2> حضرت حسنؓ نے خلفائے راشدینؓ کا طریق کیوں اختیار کیا..؟؟
3> کیا یہ معقول جواب ہے کہ اہل بیت جو چیز چھوڑ دیں وہ واپس نہیں لیتے۔۔؟؟
4> غصب باغِ فَدَک میں جو الزامات خلفائے ثلاثہؓ پر لگائے جاتے ہیں کیا انہیں الزامات کی زد میں حضرت علیؓ اور حضرت حسنؓ نہیں آتے۔۔؟؟
5> کیا اِن تمام الزامات کی زد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی ذاتِ مبارکہ نہیں آتی۔۔؟؟
اعتراض اہل تشیع:
اہل سنت کی کتابوں میں کثرت سے حضرت فاطمہؓ کی ناراضگی کی روایات ہیں۔
جواب:
1> حضرت فاطمہؓ اور حضرت صدیقؓ کے متعلق کسی دوسرے شخص کا یہ خیال کہ باہم ناراض تھے۔ اگرچہ وہ شخص بالفرض معصوم بھی ہو۔ یقیناً اس وقت تک صحیح نہیں ہوسکتا جب تک حضرت فاطمہؓ خود بنفس نفیس اپنی زبان سے ناراضگی کا اظہار نہ فرمائیں۔ اور یہ بات قطعاً کسی معتبر کتاب اہل سنت سے ثابت نہیں ہوسکتی۔
2> صحیحین میں ناراضگی کی چودہ روایات درج ہیں جن میں چار میں ناراضگی کا لفظ ذکر ہے اور اِن چار روایات کی سب سندیں امام زہری پر جا کر جمع ہوتی ہے تو تواتر کیسا؟؟ اور لفظ قال سے راوی کی زیادتی ثابت ہو رہی ہے۔ جو کہ راوی کا گُمان تھا جبکہ دس روایات میں ناراضگی کا لفظ ذکر نہیں ہے
3> اس کے برعکس شیعہ کی معتبر ترین کتابوں میں حضرت فاطمہؓ کی زبانی جناب علی المرتضیؓ سے فَدَک کی وجہ سے سخت ناراضگی ثابت ہے، جس کا ازالہ حضرت علیؓ نے اپنی خلافت میں بھی نہ کیا۔ بلکہ فَدَک کو جناب رسول کریم علیہ الصلوۃ السلام اور خلفائے ثلاثہ (ابوبکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ) والے طریقہ پر باقی رکھا اور سابقہ خلفائے راشدینؓ کے طرز عمل میں کسی تغیر و تبدیلی کو جائز نہ سمجھا۔
جناب علی المرتضیؓ جن پر حضرت فاطمہؓ کی ناراضگی شیعہ کے نزدیک یقینی ثابت ہے کہ ان کو حضرت فاطمہؓ نے خود ناراضگی کے سخت الفاظ فرمائے ان کو امام معصوم اور خلیفہ برحق سمجھنا۔ اور ابوبکر صدیقؓ جن پر حضرت فاطمہؓ کی ناراضگی کا کوئی یقینی ثبوت نہیں۔ ان کو ظالم، غاصب سمجھنا کس انصاف اور کس دیانت پر مبنی ہے۔
اہل تشیع روایات:
اہل تشیع کی کتابوں میں حضرت فاطمہؓ کا حضرت ابوبکر صدیقؓ سے راضی ہونا ثابت ہے اور اسی موقف پر اہل سنت و اہل تشیع کتابوں میں روایات موجود ہیں۔
روایت نمبر 1:
ترجمہ: حضرت ابوبکرؓ نے سیدہ فاطمہؓ سے کہاجو آپ کے والد محترم کا تھا وہ آپ کا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فدک میں سے آپ کیلئے کچھ رکھ لیا کرتے تھے باقی اللہ سبحانہ وتعالی کے راستے میں تقسیم کر دیا کرتے تھے اللہ کی قسم !میں آپ کے ساتھ ویسا ہی کروں گاجیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیا کرتے تھے یہ سُن کر فاطمہؓ خوش ہو گئیں اور اس بات کا آپ سے عہد لے لیا۔
روایت نمبر 2:
ترجمہ: اور یہ وہی ہے جو آپ کے والد نے کیا کہ خدا کے رسولؐ فَدَک کا بقدرِ ضرورت حصہ لے لیا کرتے تھے۔ اور باقی اللہ تعالیٰ کے راستے میں تقسیم کردیا کرتے تھے اور یہ آپ (رسول صلی الله عليہ وسلم) کیلئے اللہ کی طرف سے تھا، میں بھی وہی کروں گا اس معاملے میں، جیسے وہ کرتے تھے، پس وہ راضی ہوگئیں اور میں نے اس عہد کو اس طرح پورا کیا۔
روایت نمبر 3:
اہل سنت روایت:
ترجمہ:
اللہ کی قسم ! میں اپنا گھر بار مال اور اہل و عیال، قوم برادری، سب کچھ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول علیہ السلام کی رضاجوئی اور تم اہلبیت نبوت کی رضاجوئی کے لئے چھوڑ چھاڑ آیا تھا جس سے سیدہؓ کو خوش کیا تو سیدہؓ نہایت راضی خوش ہوگئیں اس روایت کی سند نہایت عمدہ، صحیح اور معتبر و مضبوط ہے۔
تعارضات:
1> کیا حضرت ابوبکر صدیقؓ کا کامل الایمان ہونا ثابت نہیں ہوتا، بوجہ اِس کے حضرت فاطمہؓ کے سوال کرنے پر فرمایا کہ انبیاء کی وراثت نہیں ہوتی، انبیاء جو کچھ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ اور فَدَک اور دوسرے اموالِ وقف میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا طریق اختیار کرنے کا حکم فرمایا۔
2> حضرت فاطمہؓ کی ناراضگی کی وجہ کیا تھی، فرمانِ رسولؐ کا سنایا جانا، یا فرمانِ رسولؐ کی وجہ سے مال کا نہ ملنا یا کہ فرمانِ رسولؐ کے بارے میں علم نہ ہونا؟؟ کیا حضرت فاطمہؓ کی ناراضگی بہر صورت رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف نہیں لوٹتی ؟؟
نتیجہ:
یہی وہ نقطہ ہے جس پر مشہور بریلوی عالم ڈاکٹر اشرف جلالی صاحب دامت برکاتہم عالیہ پر ایف۔آئی۔آر درج کروائی گئی۔
جس کے ضمن میں اہل تشیع اور کچھ درباری مُلاؤں کی طرف سے یہ الزام لگایا گیا کہ اشرف جلالی نے حضرت فاطمہؓ کی شان میں گستاخی کی ہے۔ جو کہ معصوم ہیں۔
عِصمت کی جس تعریف پر اہل تشیع نے اجماع کیا ہے۔ مُلا باقر مجلسی نے عِصمت کی جو تعریف کی ہے اس پر اہل تشیع کا اجماع ہے۔ وہ کہتا ہے کہ
"جان لو امامیہ کا اتفاق ہے کہ ائمہ صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے معصوم ہیں اُن سے اصلاً گناہوں کا صدور ممکن ہی نہیں ہے۔ وہ عمداً، نسیاناً، خطاً، تاویل یا تفسیر میں غلطی کرنا یا اللہ کو اُن کا بھلا دینا تو ایک طرف رہا"
یہ دعویٰ تو عِصمت کی اس تعریف کا کر بیٹھے لیکن اس کو کسی بھی صورت ثابت نہیں کرسکتے جیسا کہ انبیاء علیہم السلام کے نسیان اور خطا اجتہادی کے بہت سارے واقعات اہل تشیع نے اپنی تفاسیر میں ذکر کیے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ سہو، نسیان اور خطا اجتہادی کے بارے میں احادیث کی کتابوں میں ابواب باندھے ہیں اور فقہ کی کتابوں میں سہو اور نسیان کے باقاعدہ مسائل پیش کیے ہیں۔
چنانچہ اہل تشیع کی عِصمت کی اس تعریف کے مطابق اگر حضرت فاطمہؓ کا ناراض ہونا تسلیم کرتے ہیں تو ان کا معصوم ہونا ثابت نہیں ہوتا، اور اگر ناراض ہونا تسلیم نہیں کرتے تو ہمارا موقف ثابت.
قران مجید سے دلائل:
1> اَللّٰهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَآءُ يَقْدِرُ
ترجمہ: اللہ جس کی روزی چاہتا ہے بڑھا دیتا ہے اور جس کی چاہتا ،گھٹا دیتا ہے۔
2> كُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَ اشْكُرُوْا لَهٗ
ترجمہ: اپنے رب کی دی ہوئی روزی کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو۔
3> اَمْ يَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى مَا اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِه
ترجمہ: یا یہ لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اُنہیں دے رکھا ہے۔
4> وَاللّٰهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلٰى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ
ترجمہ: اللہ تعالیٰ ہی نے تم میں سے ایک کو دوسرے پر رزق میں زیادتی دے رکھی ہے۔
5> فَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَيِّبًا١۪ وَّ اشْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ
ترجمہ: جو کچھ حلال اور پاکیزہ روزی اللہ نے تمہیں دے رکھی ہے اسے کھاؤ اور اللہ کی نعمت کاشکر ادا کرو۔
6> وَمَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ
ترجمہ: تمہارے پاس جتنی بھی نعمتیں ہیں سب اللہ ہی کی دی ہوئی ہیں۔
احادیث رسول اللہ ﷺ سے دلائل:
رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ عالی ہے:
إن هذا الصدقات إنما هي أوساخ الناس لا تَحل لمحمد ولا لآل محمد ﷺ
ترجمہ: صدقات لوگوں کے ہاتھوں کی میل کچیل ہے جو میرے لیے اور آلِ محمد ﷺ کے لیے حلال نہیں۔
(صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 345)
اقوالِ فقہاء:
1> شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں:
وفي هذا الحکم سر آخر و هو أنه ﷺ إن أخذها لنفسه وجوز أخذها لخاصته والذین یکون نفعهم بمنزلة نفعه کان مظنة أن یظن الظانون ویقول القائلون في حقه ما لیس بحق
*ترجمہ:* رسول اللہ ﷺ اور آپ کی آل پر صدقہ کے حرام ہونے میں دوسرا راز یہ ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ اپنے مال کو اپنی ذات کے لیے یا اپنے خاص افراد کے لیے جن کا نفع آپ کا اپنا نفع ہے، کے لیےجائز قرار دیتے تو آپ کے خلاف بدگمانی کرنے والوں اور ناحق اعتراض کرنے والوں کو موقع ہاتھ آجاتا کہ یہ نبی دنیا کا کتنا حریص ہے کہ غربا و مساکین کا حق کھانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔
(حجۃ اللہ البالغہ جلد 2 صفحہ 46)
2> والفرق بین الأنبیآء وغیرهم إن الله تعالىٰ صان الأنبیاء عن أن یورثوا الدنیا لئلا یکون ذلك شبهة لمن یقدح في نبوتهم بأنهم طلبوا الدنیا وورثوها لورثتهم
*ترجمہ:* اگر انبیاءؑ کے ترکہ میں عام قانونِ میراث جاری رکھا جاتا تو دشمنانِ نبوت کو یہ اعتراض کرنے کا موقع ہاتھ آجاتا کہ اُنہوں نے اپنے اور اپنے وارثوں کے لیے مال و دولت جمع کرنے کے لیے نبوت کو آڑ لیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے «لا نورث ما ترکنا صدقة» کا قانون جاری کروا کر اپنے انبیاءؑ کو اس جاہلانہ اعتراض سے ہمیشہ کے لیے بچالیا۔
(منہاج السنۃ جلد 2 صفحہ 157)
نتیجہ:
اِن آیات، احادیث اور فقہاء کے قول اور اس مفہوم کی دوسری بیسیوں آیاتِ مقدسہ کے مطابق اس دنیا میں انسان کے پاس جو کچھ ثروت و دولت، مال اور زندگی کا دوسرا ساز و سامان ہے۔ اس کا حقیقی مالک صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے، جو خالق کائنات ہے۔ انسان کے پاس یہ مال و متاع محض چند روز کے لیے بطورِ امانت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و احسان سے رفع حاجات اور روز مرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے یہ چیزیں مستعار عطا فرما رکھی ہیں جن پر ہمارا کوئی ذاتی استحقاق نہیں ہے
. وَ مَا اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ١ۚ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ
ترجمہ: میں تمہیں جو تبلیغ کررہا ہوں، اس کا کوئی اجر تم سے نہیں مانگتا بلکہ اس کا اجر ربّ العالمین ہی کے ذمہ ہے جوقیامت کو وہ عطا فرمائے گا۔
۔ قُلْ لَّا اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى
ترجمہ: آپ کہہ دیجئے میں اس (تبلیغ) پر تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا مگر محبت رشتہ داری
انبیاءؑ اپنی اپنی اُمت کے روحانی باپ ہوتے ہیں۔ نبی کا یہ روحانی رشتہ ہرفرد بشر سے ہوتا ہے۔ ہر کالے گورے اور سرخ و سپید پر برابر کی شفقت ہوتی ہے۔ اس لیے نبی کا ترکہ تمام اُمت پر صدقہ ہوتا ہے جو بلا کسی امتیاز کے آقا و غلام، مرد و زن، بُرے بھلے، صالح و فاسق، قریب و بعید اور ہر خاص و عام تمام مسلمانوں کے مشترکہ مصالح پر صرف کیا جاتا ہے۔ پس اگر نبی کا ترکہ صرف اُس کے اُصول و فروع پر ہی تقسیم کیا جاتا تو اس کے اقربا کے ساتھ تعلق و شفقت کا خاص ظہور ہوتا جو اُمت کے دوسرے افراد سے بے رخی اور ان کی دل شکنی کامظہر ہوتا جو کہ شفقت عام کے سراسر منافی ہے۔ فافهم ولا تکن من القاصرین
اور مذکورہ بالا احادیث میں فرمایا :«ماترکنا فهو صدقة» ان دونوں احادیثِ صحیحہ کو باہم ملانے سے ثابت ہوا کہ انبیاءؑ کا ترکہ اُن کے ورثا پر حرام ہے کیونکہ وہ صدقہ ہے۔
اگر انبیاءؑ کے ترکہ میں عام رائج قانونِ میراث جاری رکھا جاتا تو ممکن تھا کہ بشری تقاضوں اور دنیا کی حرص کی وجہ سے ان کے ورثا اُن کی موت کا انتظار کرنے لگے جاتے جو ان کے حق میں وَبال ثابت ہوتا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے نبی کے ورثا کی بہتری کے پیش نظر ان کو ترکہ سے محروم کرکے دنیا کا عارضی نقصان برداشت کروا کر آخرت کے وبالِ عظیم اور ہمیشہ کی ہلاکت سے بچالیا۔ میرے علم کے مطابق یہ وہ حکمتیں ہیں جن کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کے ترکہ میں قانونِ وراثت جاری نہیں فرمایا گیا۔
اہل تشیع روایات:
روایت نمبر 1:
فَدَک اطراف خیبر کی ایک آباد و زرخیز و وسیع سرزمین تھی اور اس کے نخلستان خیبر سے زیادہ تھے۔ فَدَک میں چند یہودی زندگی بسر کرتے تھے کہ جو خیبریوں سے ارتباط میں تھے اور ان کا رئیس ایک یوشع بن نون نام کا آدمی تھا۔سب سے پہلا شخص جس نے اس زمین پر سکونت اختیار کی تھی فَدَک بن حام تھا لہذا یہ سرزمین اسی کے نام سے معروف ہے۔
(معجم البلدان ،جلد 4 ،صفحہ 238)
روایت نمبر 2:
جب علی المرتضیؓ اُم ایمنؓ کو بطورِ گواہ پیش کرتے ہیں تو اُم ایمنؓ فرماتی ہیں کہ اہل فَدَک نے 24،000 دینار سالانہ ادائیگی کا معاہدہ کیا۔
(بحار الأنوار جلد 29 صفحہ 117-116)
(سرّه في البحار جلد 17 صفحہ 378 حديث 46)
(إثبات الهداة جلد 2 صفحہ 116 حديث 515)
(مجمع البحرين جلد 1 صفحہ 333)
(مجمع البحرين جلد 5 صفحہ 127)
روایت نمبر 3:
پیغمر اکرم ﷺ کے زمانے میں فَدَک کی سالانہ آمدنی کا 24 سے 70 ہزار دینار تک کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
(قطب راوندی، الخرائج و الجرائح، جلد 1 صفحہ 113)
(سفینۃ البحار، جلد 2 صفحہ 351)
(ناسخ التواریخ، حضرت فاطمہ زہراؑ صفحہ 121)
روایت نمبر 4:
مورخین نے باغ فَدَک کی سالانہ در آمد 70،000 سے 120،000 طلائی سکہ لکھی ہے۔
(بحار الانوار ،جلد 29 صفحہ 118)
روایت نمبر 5:
کہا جاتا ہے کہ جس وقت عمرؓ نے حجاز سے یہودیوں کو نکالنا چاہا تو فَدَک میں موجود نصف درختوں کے مقابلے میں یہودیوں کو 50 ہزار درہم ادا کیا۔
(جوہری بصری، السقیفۃ و فدک، 14ق، صفحہ 98)
اہل سنت روایت:
خیبر کے یہودی زراعت اور باغبانی کے ماہر تھے اگرچہ اُن کی جلا وطنی طے ہو چکی تھی مگر انہوں نے اِس موقع پر تجویز پیش کی کہ انہیں زمین پر صرف کام کرنے کے لیے دیا جائے پیداوار میں سے نصف ان کا ہوگا اور نصف مسلمانوں کا، حضور اکرم ﷺ نے غور کیا تو اس تجویز میں مصلحت محسوس کی؛ کیوں کہ مسلمانوں کی تعداد اتنی نہیں تھی کہ بیک وقت جہاد بھی کرتے اور زراعت بھی، آپ ﷺ نے مسلمانوں کو جہاد کے لیے فارغ رکھنے کے خیال سے اس تجویز کو منظور فرمالیا مگر یہ واضح فرما دیا کہ جب ہم چاہیں گے یہ معاملہ ختم کردیں گے آپ ﷺ نے خیبر کی پیداوار سے حصہ وصول کرنے کی ذمہ داری عبداللہ بن رواحہؓ کو سونپ دی وہ جب بھی خیبر آتے اتنی دیانتداری اور انصاف سے پیداوار تقسیم کرتے کہ یہودی کہہ اٹھتے کہ "زمین و آسمان ایسے ہی عدل کی وجہ سے قائم ہیں" یہود حضرت عمر فاروقؓ کے دور تک یہیں آباد رہے مگر چونکہ حضور ﷺ کی یہ وصیت تھی کہ جزیرۃ العرب میں دو دین باقی نہ رہنے دیا جائے اور یہود و نصاریٰ کو یہاں سے نکال دیا جائے اس لئے حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دورِ خلافت میں خیبر اور گردونواح سے تمام یہودیوں کو جلاوطن کرکے شام بھیج دیا اور انہیں متبادل زمینیں فراہم کردیں۔
(صحیح بخاری حدیث 3169)
سیرۃ ابنِ ہشام جلد 2 صفحہ 338-337)
(طبقات ابنِ سعد جلد 2 صفحہ 201)
(التاریخ الاسلامی العام صفحہ 200)
(المعجم الکبیر الطبرانی جلد 2 صفحہ 108)
(فتوح البلدان علامہ بلاذری صفحہ 42)
(تاریخ الخمیس علامہ دیار بکری جلد 2 صفحہ 64)
(تاریخ کامل ابنِ اثیر جلد 2 صفحہ 85)
(روض الانف علامہ سُہیلی جلد 2 صفحہ 247)
خلاصہ روایات:
بستی فَدَک کا نام نوح علیہ السلام کی نسل فَدَک بن حام بن نوح کی وجہ سے فَدَک پڑا جو اِس علاقے کا پہلا آباد کار تھا۔
حضور ﷺ نے محیصہ ابن مسعودؓ کو اسلام کی دعوت دینے کیلئے اہل فَدَک کی طرف بھیجا، تو اہل فَدَک نے باہمی مشورے سے طے کیا کہ مسلمانوں نے خیبر فتح کرلیا ہے آخر ہم کب تک فَدَک کی حفاظت کریں گے، جو کہ ناممکن ہے چنانچہ یوشع بن نون جو اُس وقت فَدَک کا مالک تھا رسول اللہ ﷺ کے سامنے معاہدے کیلئے پیش ہوا اس معاہدے کی بنیادی شق یہ تھی کہ فَدَک بدستور فَدَک کے رہائشیوں کے پاس رہے گا لیکن اس کی نصف سالانہ آمدنی مسلمان کو دی جائے گی۔
جیسا کہ ہم ماقبل اہل سنت اور اہل تشیع روایات سے بیان کر چکے ہیں کہ اہل فَدَک سالانہ 24،000 دینار ادا کیا کرتے تھے۔ اور اس رقم کی وصولی کیلئے حضرت عبداللہ بن رواحہؓ جایا کرتے تھے یہ ایک ہنگامی جنگی معاہدہ تھا جو کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں، اور پھر اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں بھی اسی انداز میں قائم رہا۔ لیکن جب حضرت عمر فاروقؓ کا دورِ خلافت آیا تو رسول اللہ ﷺ کے اِس فرمان کے مطابق کہ جزیرۃ العرب سے غیر مسلموں کو نکال دیا جائے، تو حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دورِ خلافت میں باغِ فَدَک اور اُس سے ملحقہ جائیداد کو 50،000 درہم میں خریدا۔
جناب ان تمام روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ کوئی خاندانی، انفرادی یا ذاتی معاہدہ نہیں تھا، بلکہ یہ ایک ریاستی، ہنگامی جنگی معاہدہ تھا جس میں صرف اور صرف 24،000 دینار سالانہ یا فَدَک کی نصف آمدنی سالانہ کی ادائیگی مسلمانوں کو کی جاتی تھی۔
نتیجہ:
نتیجے کے طور پر یہ بات سامنے آئی کہ باغِ فَدَک نہ کسی کی ذاتی ملکیت، نہ مکمل حاصل ہوا، نہ کسی کی ملکیت میں دیا گیا، اور نہ ہی وصالِ رسول ﷺ کے بعد کسی کو اس کا مالک بنایا جا سکتا تھا، بلکہ یہ تو ایک ریاستی معاہدہ تھا جیسا کہ نجران وغیرہ کے علاقوں کے معاہدے ہوئے۔
چنانچہ جس فرد نے باغِ فَدَک کی اصلی حیثیت کو سمجھا کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں اِس کی حیثیت کیا تھی، پھر حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کے دور میں کیا حیثیت تھی وہ اہل تشیع کے باغِ فَدَک کے بارے میں تمام مکر و فریب کو یقینی طور پر سمجھ جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں ان معاہدوں میں حاصل ہونے والے اموال کے مصارف اللہ رب العزت نے قرانِ مجید میں خود بیان فرمائے ہیں تو اِن اموال کو اسی طریق پر تقسیم کیا جائے گا۔ اور یہ تمام اموال وقف کے حکم میں ہیں۔
دعوے جھوٹے، دلیلیں جھوٹی
وعدے جھوٹے، قسمیں جھوٹی
ہم نے جن کو سچا جانا
نکلی وہ سب باتیں جھوٹی
مالِ غنیمت کا حلال ہونا:
رسول اکرم ﷺ فرمایا: فُضِّلْتُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ بِسِتٍّ."
اللہ رب العزت نے مجھے چھ چیزیں وہ عطا فرمائی ہیں جو گزشتہ انبیاء علیہم السلام کو عطا نہیں فرمائیں۔ ان میں سے ایک چیز "أُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ" ہے کہ اللہ نے میرے لیے میدان جنگ کے مال، مالِ غنیمت کو حلال قرار دیا ہے۔
(صحیح مسلم رقم :523)
سابقہ شرائع اور مال غنیمت:
گزشتہ انبیاء علیہم السلام کے لیے مالِ غنیمت حلال نہیں تھا یعنی ان انبیاء علیہم السلام کے لیے مالِ غنیمت کا استعمال کرنا ٹھیک نہیں تھا، جب جہاد میں نکلتے تھے اور میدان جنگ میں کفار کا مال جمع ہوتا تو اس مال کو کھلے میدان میں رکھ دیا جاتا تھا، آسمان سے آگ آتی اور اس مالِ غنیمت کو کھا جاتی۔ اگر وہ مال غنیمت آسمانی آگ کھا جاتی تو یہ اس بات کی علامت تھی کہ اللہ تعالیٰ نے جہاد کو قبول فرمالیا اور اگر آگ اس مال کو نہ کھاتی تو اس بات کی علامت ہوتی تھی کہ یہ جہاد قبول نہیں ہوا۔
لیکن رسول اکرم ﷺ کا یہ فرمان ہے کہ اللہ نے مجھے یہ اعزار بخشا ہے کہ مالِ غنیمت کو میرے لیے حلال کر دیا گیا ہے۔ اب اُمت جہاد کرے اور میدان جنگ میں کفار سے مال چھینے، اب آگ کے ذریعے اسے جلانے کی ضرورت نہیں، یہ اسے اپنے حلال اور پاکیزہ رزق کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں یعنی یہ ہمارےنبی ﷺ ایک اعجاز ہے۔
ہمارے نبی ﷺ کا دائرہ نبوت غیر محدود ہے:
اس کی وجہ کیا ہے کہ پہلے انبیاء علیہم السلام کے لیے تو مالِ غنیمت حلال نہیں تھا۔ہمارے پیغمبر ﷺ کے لیے مال غنیمت حلال کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے انبیاء علیہم السلام کا دائرہ نبوت محدود تھا، ہمارے نبی ﷺ کا دائرہ نبوت غیر محدود ہے، پہلے نبیوں نے ایک بستی میں رہنا ہے، ایک قوم میں رہنا ہے، ایک گاؤں میں رہنا ہے اور ایک خاص وقت تک اس نبی کی نبوت ہے، ہمارے نبی ﷺ کی نبوت کا دائرہ محدود نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں حضور ﷺ کی نبوت ہے اور رسول اللہ ﷺ کی امت نے پوری دنیا میں جانا بھی ہے۔
اگر مال غنیمت حلال نہ ہو:
اب اگر یہاں سے چلیں اور دنیا کے کسی دوسرے کونے جا کر جہاد کریں اور مالِ غنیمت بھی ان کے لیے حلال نہ ہو تو پھر کھانے کی دو صورتیں ہیں:
1) کمائیں اور کھائیں
2) مرکز سے مال لائیں اور کھائیں
میدان جہاد میں جاکر کمانا شروع کردیں تو یہ جہاد نہیں کر سکیں گے اور اگر مرکز سے مال لانا چاہیں تو دور ہونے کی وجہ سے مال لا بھی نہیں سکتے۔ تو یہ امت آگے کیسے بڑھے گی؟ اس کے لیے اللہ رب العزت نے ختم نبوت کی برکت سے اعزاز دیا ہے کہ تم بڑھتے چلے جاؤ، کمانا کافر نے ہے اورکھانا تم نے ہے۔
تمہیں کمانے کی ضرورت نہیں ہے، کافر کمائے گا اور تم کھاؤ گے اور یہ کھانا حلال بھی ہوگا اور طیب بھی ہوگا۔
مال کی تین اقسام:
میدان جنگ میں جو مال حاصل ہوتا ہے اس کی تین اقسام ہیں:
1> مالِ غنیمت:
مالِ غنیمت کا معنی کیا ہے؟ میدان جنگ میں گئے اور کفار سے مقابلہ ہوا اور مقابلے کے بعد آپ کو جو مال ملا اسے مالِ غنیمت کہتے ہیں۔
2> مالِ فئے:
بغیر جنگ لڑے کافر خود کو آپ کے حوالے کردے، اس سے جو مال ملتا ہے، اسے مالِ فئے کہتے ہیں۔ تو جو جنگ کے ذریعے مال ملے وہ ”مال غنیمت اور“ بغیر جنگ لڑے ملے تو ”مال فئے“ ہے.
3> انفال:
انفال عربی زبان کا لفظ ہے جو نفل کی جمع ہے، نفل کے لفظی معنی زائد، فضل، احسان اور اللہ کا کرم بھی ہے انفال کو محدثین اور مفسرین نے تھوڑا عام رکھا ہے۔
مالِ غنیمت اللہ اور رسول کا ہے:
﴿یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَنۡفَالِ ؕ قُلِ الۡاَنۡفَالُ لِلہِ وَ الرَّسُوۡلِ﴾ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:﴿یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَنۡفَالِ﴾
اے میرے پیغمبر! یہ صحابہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ مال غنیمت کا کیا کرنا ﴿قُلِ الۡاَنۡفَالُ لِلہِ وَ الرَّسُوۡلِ﴾
آپ فرمادیں یہ مال غنیمت اللہ کے حکم سے آپ کو ملا ہے اور اللہ کے حکم کے مطابق اور پیغمبر کے بتائے ہوئے طریقے سے تقسیم ہوگا، اس لیے تمہاری مرضی اور تمہاری رائے کو اس مال غنیمت کی تقسیم میں کوئی بھی دخل نہیں ہے۔
وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَىٰ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
*ترجمہ* اور جو (مال) خدا نے اپنے پیغمبر کو ان لوگوں سے (بغیر لڑائی بھڑائی کے) دلوایا ہے اس میں تمہارا کچھ حق نہیں کیونکہ اس کے لئے نہ تم نے گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے۔ اور خدا ہر چیز پر قادر ہے
(سورۃ الحشر آیت 6)
مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ ۚ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
ترجمہ: جو مال خدا نے اپنے پیغمبر کو دیہات والوں سے دلوایا ہے وہ خدا کے اور پیغمبر کے اور (پیغمبر کے) قرابت والوں کے اور یتیموں کے اور حاجتمندوں کے اور مسافروں کے لئے ہے۔ تاکہ جو لوگ تم میں دولت مند ہیں ان ہی کے ہاتھوں میں نہ پھرتا رہے۔ سو جو چیز تم کو پیغمبر دیں وہ لے لو۔ اور جس سے منع کریں (اس سے) باز رہو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بےشک خدا سخت عذاب دینے والا ہے۔
(سور الحشر آیت 7)
انفال کی ملکیت کے حصہ دار:
1 اللہ عزوجل
2 نبی ﷺ
3 نبی ﷺ کے قرابت دار
4 یتیم
5 حاجتمند
6 مسافر
مال کی تقسیم کا طریقہ کار:
جب میدان جنگ میں جائیں اور مال غنیمت ملے تو اس مال غنیمت کے پانچ حصے ہوتے ہیں۔ ان میں ایک حصہ جسے ”خمس“ کہتے ہیں یہ تو بیت المال میں جمع ہوتا ہے اور چار حصے ان مجاہدین کے درمیان تقسیم ہوتے ہیں جو جہاد میں شامل ہوتے ہیں، کبھی ان چار حصوں کو ”مال انفال“ کہتے ہیں اور کبھی میدان جنگ میں امیر لشکرکہتا ہے کہ جس شخص نے فلاں کافر
کو قتل کیا تو اس کافر کا مال اس قاتل کو دیں گے تو اس مال کو بھی نفل کہتے ہیں۔ اور کبھی جو پانچواں حصہ بیت المال میں جمع ہوا ہے اسی مال میں سے امیر المجاہدین کسی مجاہد کے خاص کارنامے کی وجہ سے اس مجاہد کو بطور اکرام کے دیتا ہے اس مال کو بھی ”مال انفال“ کہتے ہیں اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو مالِ خمس (پانچواں حصہ) بیت المال میں جمع ہوا ہے ایک شخص میدان جنگ میں تو نہیں گیا لیکن مجاہدین کی خدمت کرتا ہے، اس خدمت کرنے والے کو بھی امیر لشکر اس خمس میں سے کچھ مال دیتا ہے تو اس مال کو بھی “مال انفال“ کہتے ہیں۔
تعارضات:
فَدَک مال فئے تھا یا ذاتی مال تھا ؟؟
جواب: باغِ فَدَک بھی دوسرے اموال کی طرح مالِ فئے ہی تھا اور فَدَک کے مال فئے ہونے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔
مال فئے والانفال پر رسول اللہ ﷺ کے بعد تصرف کس کا ہوگا ؟؟
جواب: مالِ فئے کو انفال میں شمار کیا جاتا ہے اور انفال کے بارے میں سورہ انفال کی پہلی آیت میں صراحت کے ساتھ وارد ہوا ہے کہ انفال فقط اللہ اور اس کے رسولؐ کا ہے۔ انفال میں کسی غیر کا کسی قسم کا کوئی حق موجود نہیں۔ پس مالِ فئے چونکہ انفال میں سے ہے اس لیے یہ اموال رسول اللہؐ کے ساتھ مختص ہیں اور ان کی رحلت کے بعد ان کے برحق جانشین یاقائم مقام کے سپرد ہوگا۔
(شیح طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الامامیۃ، جلد 2، صفحہ 64)
(علامہ حلی، حسن بن یوسف، تذکرة الفقہاء، جلد 9 صفحہ 119)
"فما كان لله فهو لرسوله يضعه حيث يشاء وهو للامام من بعد الرسول"
پس جو اللہ کا ہے وہ رسول کا ہے جیسے چاہیے تصرف کرے اور اس کے بعد امام کا ہے
(العیاشی جلد 2 صفحہ، 35-36-37)
(بحارالانوار جلد 20 صفحہ 53-54-55)
(البرھان جلد 2 صفحہ 61-62-63)
(الوسائل جلد 2 ابواب الانفال)
(تفسیر القمی جلد 1 صفحہ 254-255)
"هو لله وللرسول وبعده للقائم
مقامه يصرفه حيث يشاء من مصالح نفسه ومن يلزمه مؤنته ليس لأحد فيه شئ"
(التبیان جلد 5 صفحہ 83)
"هي لله وللرسول، وبعده لمن قام مقامه، فيصرفه حيث شاء"
(البیان جلد 4 صفحہ 424)
"وهي لله ولرسوله ولمن قام مقامه بعده"
(تفسیر الآصفی جلد 1 صفحہ 423)
"وھو للأمام بعد الرسول"
(الکافی جلد 1 صفحہ 28 روایات باب الفئی الانفال)
حضرت فاطمہؓ نے کس حق سے مال فئے والانفال یعنی مال وقف کا سوال کیا جب کہ ماقبل تمام روایات بتا رہی ہیں کہ مال وقف پر حق اللہ اور رسولؐ کا ہے اس کی تقسیم کا طریقہ کار خود اللہ نے بیان فرما دیا اور رسولؐ کے بعد اس پر تصرف امام یا قائم مقام کا ہے۔
کیا فاطمتہ الزہرہؓ رسول تھیں ؟؟ امام تھیں ؟؟ خلیفہ تھیں ؟ یا رسولؐ کی قائم مقام تھیں ؟؟
روایت نمبر 1:
ابوبکرؓ فَدَک کا غلہ وصول کرتے اور اہل بیت کو ان کی ضرورت کے مطابق دے دیتے۔ان کے بعد حضرت عمرؓ بھی فَدَک کواسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے،اس کے بعد عثمانؓ بھی فَدَک اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے،اس کے بعد علیؓ بھی فَدَک کو اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے۔
(حجج النھج صفحہ 266)
روایت نمبر 2:
سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے مناسب ترین فیصلہ فرمایا کہ کسی کو مالکانہ حقوق دیے بغیر ان جائیدادوں کے متولی کی حیثیت سے ان کی آمدن اہل بیت پر خرچ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اسی میں اہل بیت و سادات کرام کی مصلحت بھی تھی کیونکہ چند افراد کو مالکانہ حقوق مل جاتے تو ممکن تھا چند پُشتوں بعد یہ ذریعہ آمدن ختم ہو جاتا اور بعد والے سادات کو اس سے حصہ نہ ملتا۔اِس جائیداد کے سرکاری سرپرستی میں محفوظ ہونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ تقریباً دو صدیوں تک اہل بیت کی آل اولاد کو اِن اموال سے حِصہ پہنچتا رہا اور وہ معاشی طور پر فارغ البال رہے۔
(سنن الکبریٰ للبیہقی حدیث 12734)
نتیجہ:
> اہل تشیع کا محل وقوع کا دعوی ان کی اپنی کتابوں سے متضاد ہے۔
> اہل تشیع کا ہِبہ کا دعوی جھوٹا، خود ساختہ اور خود اپنی روایات سے متضاد اور دجل پر مبنی ہے
> اہل تشیع کا وراثت کا دعوی بھی جھوٹ پر مبنی ہے کیونکہ وراثت ثابت ہونے کی صورت میں فرائض کی آیات سے تعرض پیش آتا ہے
> اہل تشیع کا باغِ فَدَک کی ملکیت رسول اللہ ﷺ یا فاطمہؓ کے لیے جھوٹ ہے کیونکہ فَدَک کی نصف پیداوار سالانہ کا معاہدہ تھا جوکہ ریاستی تھا اہل تشیع نے صحابہؓ پر الزام ثابت کرنے کے لیے خود اپنے استدلالی اصولِ فقہی اور دوسرے ہر قسم کے اصول کو روند دیا لیکن دجل وفریب کے سوا کچھ ثابت نہیں کر سکے۔
ظالم جفا جو چاہے سو کر مجھ پہ تو ولے
پچھتاوے پھر تو آپ ہی ایسا نہ کر کہیں