الجواب اہلسنّت ♦️
*▪️حضرت سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں:-*
*(معاویہؓ کے ڈر سے لبیک نہ پڑھنا)*
کہ میں حضرت ابن عباس کے ساتھ عرفات میں تھا وہ فرمانے لگے :کیا وجہ ہے کہ میں لوگوں کو لبیک پکارتے نہیں سنتا: میں نے کہا وہ حضرت معاویہ سے ڈرتے ہیں ۔ حضرت ابن عباس اپنے خیمے سے نکلے اور بلند آواز سے پکارا :
تعجب ہے کہ انھوں نے حضرت علی سے بغض رکھنے کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کی سنت چھوڑ دی ہے۔
*حوالہ:- سنن نسائی ۔ حدیث نمبر3009.*
*حدیث:-* صحیح
Sunnan e Nisai - 3009
کتاب:کتاب: حج سے متعلق احکام و مسائل
باب:عرفات میں لبیک کہنا
ترجمہ:
حضرت سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ عرفات میں تھا ۔ وہ فرمانے لگے : کیا وجہ ہے کہ میں لوگوں کو لبیک پکارتے نہیں سنتا ؟ میں نے کہا : وہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے ڈرتے ہیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اپنے خیمے سے نکلے اور بلند آواز سے پکارا :
تعجب ہے کہ انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنے کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کی سنت چھوڑ دی ہے ۔
1: اس روایت کی سند میں ایک راوی کا نام خالد بن مخلد ہے۔
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں "تشیع“ کہ یہ صاحب شیعہ ہیں۔ اس کے بارے میں مانا کہ یہ روایت اہلسنّت کی کتاب میں مذکور ہے مگر اس کتاب میں یہ روایت شیعہ کی طرف سے داخل کی گئی ہے اور شیعہ قوم سے خیر کی توقع کہاں ہو سکتی ہے۔ لہٰذا یہ روایت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف الزام دینے کے لئے قابل قبول نہیں ہے کیونکہ اس کا راوی شیعہ ہے.
2: یہاں جو واقعہ منقول ہے وہ سعید بن جبیر سے یوں نقل کیا گیا ہے کہ میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ میدانِ عرفات میں تھا انہوں نے فرمایا کیا بات ہے کہ میں لوگوں سے تلبیہ اونچی آواز سے نہیں سن رہا تو میں نے جواب دیا کہ لوگ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے ڈرتے ہیں اس لئے اونچی آواز سے نہیں پڑھتے تو ابن عباس رضی اللہ عنہ اپنے خیمہ سے نکل آئے اور با آواز بلند تلبیہ لبيك اللهم لبيك الخ پڑھنے لگے۔ لوگوں نے بغض علی کی وجہ سے سنت چھوڑ دی۔(عکسی صفحہ )
اس روایت میں دو جملے ہیں:
1: لوگ معاویہ رضی اللہ عنہ سے ڈرتے ہیں،
2: بغض علی رضی اللہ عنہ کی وجہ سے سنت ترک کر دی، قابلِ غور ہیں.
شیعہ راوی خالد بن مخلد نے یہ دونوں باتیں اپنی طرف سے گھڑ کر روایت میں ملا دی ہیں۔
ورنہ نمبر (1) تلبیہ پڑھنا حکم خدا اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے بلند اور آہستہ دونوں طرح سے پڑھا جا سکتا ہے۔ کسی کے ڈر سے صحابہ کا سنت کو ترک کرنا بعید از عقل ہے۔
(2) بلند آواز سے نہ پڑھنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انہوں نے سرے سے تلبیہ پڑھا ہی نہیں۔
(3) سنت تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے نہ کہ حیدر کرار رضی اللہ عنہ کی پھر ترک تلبیہ کا بغض علی سے کیا تعلق؟
بہرحال ان تصرفات کی بنا پر یہ روایت اہلسنّت کے ہاں مقبول نہیں۔ بالخصوص اس وقت جبکہ یہ روایت راوی کے غلط نظریے کی مؤید بھی ہے۔
*سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مخالفین ( مرزائی جہلمی وغیرہ) آپ رضی اللہ تعالی عنہ پر یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ آپ نے لوگوں کو بلند آواز سے تلبیہ کہنے سے روک دیا تھا بغض علی رضی اللہ عنہ میں آکر جیساکہ جہلمی اپنے ریسرچ پیپر واقعہ کربلا ( حدیث:46) بحوالہ سنن نسائی ، ایک ضعیف روایت کا سہارا لیتے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔*
*سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ :میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ عرفات میں تھا تو وہ کہنے لگے: کیا بات ہے، میں لوگوں کو تلبیہ پکارتے ہوئے نہیں سنتا۔ میں نے کہا: لوگ معاویہ رضی اللہ عنہ سے ڈر رہے ہیں، ( انہوں نے لبیک کہنے سے منع کر رکھا ہے ) تو ابن عباس رضی اللہ عنہما ( یہ سن کر ) اپنے خیمے سے باہر نکلے، اور کہا: «لبيك اللہم لبيك لبيك» ( افسوس کی بات ہے ) علی رضی اللہ عنہ کے بغض میں لوگوں نے سنت چھوڑ دی ہے۔*
*یہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے اس روایت کے اندر (خالد بن مخلد ) راوی ہیں اس کے بارے میں امام ابن رجب الحنبلی رحمۃ اللہ علیہ ایک اصول ذکر فرماتے ہیں:*
*(امام الجرح والتعدیل، محدث، مفضل بن غسان )غلابی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تاریخ میں ذکر کیا ہے کہ خالدبن مخلد قطوانی سے وہ روایات قبول کی جائیں گی جو اس نے اپنے مدنی اساتذہ اور ابن بلال یعنی سلیمان بن بلال بیان سے کی ہیں۔ آگے اس کی وضاحت میں امام ابن رجب حنبلی نے فرمایا: اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے روایت نہیں لی جائے گی مگر وہ جو ہو اہل مدینہ سے اور سلیمان بن بلال سے ( بیان کرے)*
*سنن نسائی والی یہ روایت خالد بن مخلد نے علی بن صالح سے بیان کی ہے۔ اور علی بن صالح انکے مدنی استاد نہیں ہے بلکہ کوفی استاد ہیں، لھذا انکی کوفیوں سے بیان کردہ روایت رد سمجھی جائے گی*۔
*نوٹ:*
*جن علماء نے اس روایت کی تصحیح کی ہے ان کے سامنے یہ علت عیاں نہ ہو سکی، لھذا اس وجہ سے ضد کرنا جہالت ہے کہ فلاں نے اسکو صحیح کہا ہے یہ ضد تقلید جامد اور حرام ہے۔*
سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مخالفین آپ رضی اللہ تعالی عنہ پر یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ آپ رضہ نے لوگوں کو بلند آواز سے تلبیہ کہنے سے روک دیا تھا اور اس کے لیے وہ سنن نسائی کی ایک ضعیف روایت کا سہارا لیتے ہیں کہ سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ کے ساتھ عرفات میں آپ نے فرمایا کہ میں لوگوں کو نہیں سن رہا کہ وہ تلبیہ کہتے ہو تو میں نے کہا حضرت معاویہ رضہ سے ڈرتے ہیں ابن عباس رضہ نکلے اپنے خیمے سے بلند آواز سے لبیک الھم لبیک کہا پھر فرمایا ان لوگون نے چھوڑ دیا تھا سنت کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بغض میں یہ روایت پیش کرکے یہ لوگ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ دیکھو حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے لوگوں کو بلند آواز سے تلبیہ کہنے سے روک دیا تھا:
معزز ناظرین! اس کا جواب کا یہ ہے کہ یہ روایت سخت ضعیف و منکر ہیں اس کی چند وجوہات ہیں سنیے؛
آپ اس کی سند میں غور کریں اس میں ایک راوی ہے خالد بن مخلد اس کے بارے میں محدثین کی آراء مختلف ہیں۔ کئی حضرات کہتے ہیں ضعیف ہے کئی حضرات کہتے ہیں ثقہ ہے اور اس راوی کے بارے میں حضرت امام ابن سعد فرماتے ہیں کہ یہ شخص منکر الحدیث ہے اور شیعیت میں غلو کرنے والا ہے یعنی یہ شخص غالی شیعہ ہے
(طبقات ابن سعد6/406)
امام ابن سعد کے علاوہ بھی کئی حضرات اس کو شیعہ قرار دیا ہے اور آپ کو پتہ ہے کہ شیعہ کی وہ روایت قبول نہیں کی جاتی جو ان کے مذہب کو تقویت دیتی ہو اور آپ کو یہ بھی معلوم ہےکہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی مخالفت کرنا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پر تہمتیں اور بہتان لگانا یہ تو رافضیت کے مسلک کے عین مطابق ہے لہذا خالد بن مخلد غالی شیعہ کی یہ روایت سیدنا معاویہ رضہ کے خلاف بالکل قبول نہیں کی جائے گی.
وجہ نمبر دو
حضرت امام احمد بن حنبل شیبانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ راوی منکر روایت بیان کرنے والا ہے اس کے پاس منکر روایتیں تھیں
اب پتہ کیسے چلے گا کہ اس کی یہ روایت صحیح ہے اور یہ روایت منکر ہے اس کے بارے میں حضرت امام ابن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بڑی زبردست بات بتلائی ہے وہ فرماتے ہیں: کہ امام غلابی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تاریخ میں ذکر کیا ہے کہ خالدبن مخلد قطوانی سے وہ روایات قبول کی جائیں گی جو اس نے اپنے مدنی اساتذہ اور ابن بلال یعنی سلیمان بن بلال بیان سے کی ہیں۔ آگے اس کی وضاحت میں فرمایا امام ابن رجب حنبلی نے. اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے روایت نہیں لی جائے گی مگر وہ جو ہو اہل مدینہ سے اور سلیمان بن بلال سے۔ اس معلوم ہوا کہ خالد بن مخلد کی وہ روایتیں قبول کی جائیں گی جو وہ مدنی اساتذہ سے لیتا ہے اور وہ جو سلیمان بن بلال سے لیتا ہے اس کے علاوہ اس کے کسی اور استاد سے کی ہوئی روایت کو قبول نہیں کیا جائے گا
چونکہ سنن نسائی والی روایت خالد بن مخلد نے علی بن صالح سے لی ہے اور علی بن صالح مدنی استاد نہیں ہے بلکہ کوفی ہے جیسا کہ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے تاریخ الاسلام جلد نمبر 4 ص 155میں لکھا ہے علی بن صالح صالح بن ہمدانی ”الکوفی“ آپ نیچے دیکھیں اور اس کے شاگردوں میں خالد بن مخلد کا نام بھی لکھا ہوا ہے تو چونکہ یہ روایت خالد بن مخلد نے کوفی استاد سے لی ہے اور اس کی مدنی اساتذہ کے علاوہ سے روایت ضعیف ہوتی ہے لہٰذا یہ روایت بھی ضعیف ہے -
تیسری بات
خالد بن مخلد نے جو متن بیان کیا ہے بڑا عجیب و غریب قسم کا ہے اگر آپ اس کے متن پر غور کریں تب بھی آپ پر یہ بات کھل جائیگی کہ یہ روایت صحیح نہیں ہے کیوں لکھا ہوا ہے کہ لوگوں نے تلبیہ کہنا چھوڑ دیا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ڈر سے اور کیوں جی لوگوں نے کیوں سنت کوچھوڑا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بغض میں .بندہ ان سے پوچھے کہ بلند آواز سے تلبیہ کہنا یہ کوئی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے شروع تو نہیں کروایا تھا یہ ان کا ایجاد کردہ عمل نہیں تھا یہ تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا سنت عمل ہے اس عمل کو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ منسوب کرنا کس طرح درست ہے ؟
یا تویہ ہوتا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ایک عمل کو شروع کرتے بہت سارے لوگ قبول کرلیتے اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ کے حامی اس کو چھوڑ دیتے۔ پھر یہ کہناصحیح ہوتاکہ حضرت علی کے بغض میں چھوڑاہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور چھوڑ علی کے بغض میں! یہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے خلاصہ یہ بھی اس روایت کے کمزور ہونے کی دلیل ہے۔