عدالت صحابہ اہل سنت کے نزدیک اعتقادی مسئلہ ہے یا یوں کہیے کہ ضروریات دین میں سے ہے۔
وہ اپنے اس عقیدہ پر کتاب و سنت سے کئی دلائل رکھتے ہیں۔ ملاحظہ ہوں:
قرآنی دلائل
١۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
''اللہ تعالیٰ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کرنے والے مؤمنوں سے راضی ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے باطن کی عدالت و طہارت سے بخوبی واقف ہے، اس نے انہیں اطمینان و سکون نصیب کیااور عنقریب فتح سے ہمکنار بھی کرے گا۔''
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
''اس وقت ہم چودہ سو افراد تھے۔''
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عدالت بیان کی۔ دل کی خبر صرف اللہ ہی دے سکتا اور یہ باطن کی تعدیل ہے۔ تب ہی اللہ تعالیٰ نے ان سے راضی ہونے کا اعلان فرمایا ہے۔
علامہ ابن حجر ہیتمی کہتے ہیں:
'' اللہ تعالیٰ جس سے اپنی رضا کا اعلان کردے، وہ کفر پر فوت نہیں ہوسکتا۔ لہٰذااللہ کی رضا اسی کے لیے ہوگی، جو اللہ کے علم میں اسلام پر فوت ہوگا، کیوں کہ اعتبار خاتمے کا ہوتا ہے۔''
اس کی تائید اس نبوی فرمان سے ہوتی ہے:
'' اللہ نے چاہا تودرخت کے نیچے بیعت کرنے والوں میں سے کوئی بھی جہنم میں نہیں جائے گا۔''
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اللہ تعالی کی صفت ِ قدیمہ ہے۔ وہ اسی سے راضی ہوتا ہے، جو اس کے علم میں رضا کے تقاضوں کو پورا کرے گا۔ راضی ہونے کے بعد کبھی اس سے ناراض نہیں ہوگا۔... اللہ تعالی نے جس کے متعلق اپنی رضا کی خبردے دی، وہ پکا جنتی ہے۔ قبولِ ایمان اور عمل صالح کے بعد اللہ کی رضا ہو تو یہ مدح و ثنا ہے۔نیز معلوم ہوجائے کہ اس نے رضا کے بعدایسی معصیت کا ارتکاب کیا، جو اللہ کی ناراضی کا موجب ہو ،تو وہ ا س مدح کا اہل نہیں ہو گا۔''
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' اللہ تعالی نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایمان کی خبر دی ، وہ ان سے راضی ہو ا اور ان پر تسکین نازل کی،ان کے ایمان میں ذرا برابر شک یا توقف کی گنجائش نہیں۔ ''
٢۔فرمان الٰہی ہے:
''محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں ۔ آپ کے ساتھی(صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) کفار پر انتہائی سخت اور آپس میں بے حد مہربان ہیں۔ آپ انہیں رکوع و سجدہ کی حالت میں اپنے مالک و مختار کے فضل اور رضا کے متلاشی پائیں گے۔ان کی پیشانیوں پرسجدہ کے نشان ہیں۔ ان کی مثال تورات و انجیل میں اس کھیتی کی مانند ہے، جو انگوریاں نکال کر انہیں مضبوط و گنی کرتی ہے اور تناور ہو جاتی ہے۔ کسان کو بھلی لگتی ہے۔ اللہ تعالی نے ان کے ذریعے کافروں کو غیظ و غضب دلایا ہے۔ نیز اس نے مومنوں اور نیکو کاروں سے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کر رکھا ہے۔''
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دیگر انبیا ورسل علیہم السلام کے اصحاب سے افضل ہیں۔ امت محمدیہ کی آسمانی کتابوں میں عظمت بیان ہوئی ہے اور اس امت میں سب سے افضل اورا شرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں۔ بلا شبہ اللہ تعالی نے کتب سماوی میں صحابہ کرام کا ذکر ِخیرفرمایا ہے۔ فرمان باری تعالی ہے:
علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''جمہور مفسرین کے ہاں یہ اوصاف جلیلہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں تھے۔''
٣۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
''(مال فے) فقرا مہاجرین صحابہ کا حق ہے، جنہیں بے گھر اور بے زر کر دیا گیا۔ وہ (صحابہ) فضل ورضا ئے الہی کے طلبگار اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (کے دین) کے مددگار ہیں، یہی سچے لوگ ہیں۔ (اورمال فے) ان کے لئے بھی ہے، جنہوں نے ان سے قبل (مدینہ) کو مسکن بنایا اور ایمان کو دل میں راسخ کرلیاتھا۔ وہ مہاجرین سے محبت کرتے ہیں۔ ان کے شرف و فضل پر دل میں حسد نہیں رکھتے، اپنی ضرورت پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں۔ جو بخل سے بچ گی، فوز و فلاح اسی کا مقدر ہے۔ ان (صحابہ) کے بعد مشرف بہ اسلام ہونے والے دعا گو رہتے ہیں، ہمارے رب! ہمیں اور ایمان میں سبقت لے جانے والے ہمارے بھائیوںکو بخش دے اور مومنوں کے بارے میں ہمارے دلوں میں بغض و کینہ پیدا نہ کیجئے، بلاشک تو مشفق و مہربان ہے۔''
اللہ تعالی نے ان آیات میں مال فے کے مستحقین کی صفات و احوال بیان کیے ہیں۔ یہ تین طرح کے لوگ ہیں:
مذکورہ بالا آیات سے عیاں ہے کہ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سب و شتم کا نشانہ بنائیں، ان کا مال ِفے میں کوئی حصہ نہیں، کیونکہ ان میں
والا وصف مفقود ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
''انہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے استغفار کا کہا گیا تھا، لیکن وہ انہیں برا بھلا کہنے لگے۔''
امام ابو نعیم اصبہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
'' اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مخالف اور نافرمان سے بڑھ کر کون برا ہو سکتا ہے؟ ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی کو صحابہ سے درگزر، ان کے لئے استغفار اور نرم گوشہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے :
آپ ترش رو اور سخت دل ہوتے، تو لوگ آپ کے حلقہ بگوش نہ رہتے۔ اپنے صحابہ سے درگزر کریں، ان کے لیے مغفرت و معافی مانگیں، اہم معاملات میں ان سے مشورہ کریں۔ عزم ِمصصم کے بعد اللہ پر توکل کریں، کیونکہ اسے توکل کرنے والے بہت بھاتے ہیں۔''
مزید فرمایا:
''آپ اپنے مومن متبعین کے لیے نرم گوشہ اختیار کریں۔''
جس نے صحابہ کرام کو برا کہا، ان سے بغض رکھا اور ان کی تاویلات اور جنگوں کو بطورِ مذمت پیش کیا، تو وہ ان کے بارہ میں اللہ کے حکم اوراس کے بیان کردہ ادب و وصیت سے عدول کر رہا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام، اسلام اور اہل اسلام کے بارے میں زبان درازی کرتا ہے۔''
٤۔فرمان باری تعالیٰ ہے:
''ایمان میں سبقت و اولیت حاصل کرنے والے مہاجرین و انصار اور احسان کے ساتھ ان کی پیرو ی کرنے والوں سے اللہ راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں۔ ابدالاباد تک ان کے لیے ایسے باغات کا انتظام کیا ہے، جن کے نیچے دریا جاری ہیں۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔''
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''سابقین کے ساتھ رضا کیلئے احسان کی کوئی شرط نہیں، جبکہ بعد والوں کیلئے رضا ''اتباع باحسان'' کے ساتھ مشروط ہے۔''
احسان کے ساتھ اتباع وپیروی کرنے سے مراد صحابہ سے راضی ہونا اور ان کیلئے استغفار کرنا بھی شامل ہے۔
٥۔فرمان خداوندی ہے:
'' فتح مکہ سے قبل خرچ اور قتال کرنے والے کے برابرکوئی نہیں ہو سکتا۔ وہ تو فتح مکہ کے بعد خرچ اور قتال کرنے والوں سے کہیں افضل ہیں۔ ہاں جنت کا وعدہ دونوں کیلئے ہے۔ اللہ تعالی تمہارے اعمال سے بخوبی واقف ہے۔''
ثابت ہواکہ تمام اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم قطعی جنتی ہیں۔
٦۔اللہ کریم فرماتے ہیں:
'' اللہ تعا لیٰ نے محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور وہ مہاجرین و انصار، جو مشکل گھڑی میں آپ کے وفادار ساتھی بنے، سے درگزر فرمایا۔ قریب تھا کہ بعض دل کبیدہ خاطر ہو جاتے، مگر اللہ تعالی نے انتہائی شفقت و مہربانی سے انہیں بھی معاف فرما دیا۔''
غزوہ تبوک میں خواتین اور معذوروں کے سواتمام صحابہ شریک ہوئے۔ تین صحابی جو بغیر کسی شرعی عذر کے پیچھے رہ گئے، اللہ نے انہیں معاف فرما دیا۔
حدیثی دلائل
١۔سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
'' سیدنا خالد بن ولید اور عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما کے مابین تنازع ہوا، خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کو نامناسب جملہ کہہ دیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے کسی بھی صحابی پر طعن و تشنیع مت کریں، آپ کا احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرنا ان کے مٹھی بھر جو خرچ کرنے کے اجر کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔''
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''امام احمد بن حنبل اور دیگر ائمہ محدثین رحمہم اللہ بھی اسی کے قائل ہیں کہ جس نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سال، ایک ماہ یا ایک دن صحبت کا شرف حاصل کیا یا صرف ایمان کی حالت میں دیدار نصیب ہوا، وہ صحابی شمار ہو گا، لیکن مقدار صحبت میں فرق ہو گا۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو صحابہ کے بارے میں طعن سے منع کیا، جبکہ وہ خود بھی صحابی ہیں؟ ہمارا جواب یہ ہو گا کہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ سابقین اولین میں سے ہیں۔ یہ تو اس سمے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی تھے، جب سیدنا خالد بن ولید وغیرہ رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاندین میں سے تھے۔ ان سابقین اولین نے فتح مکہ سے قبل خرچ اور قتال کیا ہے، مگر ہر ایک سے جنت کا وعدہ ہے۔ چونکہ سیدنا عبد الرحمن بن عوف و غیرہ رضی اللہ عنہم کو شرف صحابیت کے ساتھ ساتھ ایک منفرد خوبی بھی حاصل ہے، جس میںسیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور فتح مکہ یعنی صلح حدیبیہ کے بعد قبول اسلام اور قتال کرنے والے شریک نہیں ہیں، لہذا ان سے قبل شرف صحبت حاصل کرنے والوں پر طعن سے منع فرمادیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نہ پانے والوں کی نسبت صحبت پانے والوں کے ساتھ ویسے ہی ہے، جیسے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سابقین واولین صحابہ کی ساتھ ہے۔ اسی طرح بعد والوں کی پہلوں کے ساتھ۔''
٢۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
''کیا آپ جانتے نہیں! اللہ تعالی نے بدریوں پر جھانک کر فرمایا : جو چاہو کرو، میں نے تمہیں بخش دیا ہے۔''
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''ایک قول کے مطابق مذکورہ حدیث میں امر(إعملوا) تکریم کے لیے ہے۔ مراد یہ ہے کہ اہل بدر کی ہر خطا معاف ہے۔ ایک قول میں بدریوں کی خطائیں واقع ہوتے ہی معاف کر دی گئیں، گویا کہ ان سے صادر ہی نہیں ہوئیں۔''
حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
''اہل علم کہتے ہیں کہ اس سے آخرت میں معافی مراد ہے، ورنہ بدری پر حد واجب ہو جاتی، تو دنیا میں حد قائم ہو جاتی۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہنے ( سیدنا قدامہ بن مظعون رضی اللہ عنہ )پر حد قائم کر کے فرمایا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سیدنا مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ پرباوجود بدری ہونے کے حد قائم کی تھی۔''
شیخ الاسلام ثانی ، عالم ربانی، ابن قیم جوزیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
''اللہ اعلم! یہ خطاب ان سے ہے، جو اللہ کے علم میں مرتد ہو کر فوت نہیں ہوں گے، دوسروں کی طرح ان سے بھی گناہوں کا سرزد ہونا ممکن ہے، لیکن اللہ تعالیٰ انہیں گناہ پر مصر نہیں رہنے دیتا، بلکہ سچی توبہ و استغفار یا گناہوں کو مٹا دینے والی نیکیوں کی توفیق خاص سے نوازتا ہے۔ اس طرح اہل بدر دوسروں سے ممتاز ہیں، کیوں کہ ان خصائل جمیلہ کی بنا پر وہ مغفور ہیں۔ یقینا ان کی مغفرت کا موجب ان میں موجود چند اوصاف ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ فرائض کے تارک بن جائیں۔ یہ مغفرت اوامر و نواہی کے قیام کے بغیر ہی حاصل ہو جانی ہوتی، تو انہیں اس کے بعد کسی نماز، روزہ، حج، زکوۃ اور جہاد وغیرہ کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ ''
٣۔ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
''میرے امت کے بہترین لوگ میرے زمانہ کے ہیں، پھر بعد والے ، پھر ان کے بعد والے۔ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہفرماتے ہیں : مجھے یہ ازبر نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کے دو زمانوں کا ذکر فرمایا یا تین کا۔''
٣۔سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
''ستارے آسمان کی امان ہیں، جب یہ جھڑجائیں گے، توآسمان تباہ ہو جائے گا۔ میںآپ کی امان ہوں، میرے جانے کے بعد آپ فتنوں سے دو چار ہو جائیں گے اور میرے صحابہ میری امت کے لیے امان ہیں، یہ فوت ہو گئے، تو میری امت کو فتنے آن لیں گے۔''
٥۔ سیدنا واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''آپ خیر پر رہیں گے، جب تک میرا کوئی صحابی حیات رہے گا۔ اللہ کی قسم! جب تک آپ میںتابعی زندہ رہے گا، خیر پر ہی رہیں گے۔
٦۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
''ایمان کی علامت انصار سے محبت ہے ، نفاق کی علامت انصار سے بغض ہے۔''
مزید ارشاد فرمایا :
''ان سے مؤمن ہی محبت کرتے ہیں اور منافق ہی بغض رکھتے ہیں۔ ''
7۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا : لا تمس النار مسلما رآنی او رای من رآنی ۔ "اس مسلمان کو آگ نہیں چھو سکتی، جس نے مجھے دیکھا یا مجھے دیکھنے والے (صحابی) کو دیکھا۔"
ذکر کردہ قرآنی و حدیثی دلائل سے مندرجہ ذیل فوائد اخذ ہو تے ہیں:
١۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ظاہری و باطنی تزکیہ فرمایا ہے۔ مثلا ظاہری عدالت میں اعلی اخلاق حمیدہ سے متصف کرنا۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
اور فرمایا:
نیز اللہ کا فرمان ہے :
صحابہ کی باطنی عدالت کا معاملہ صرف اللہ علیم بذات الصدور ہی جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے کھرے پن اور نیک نیتی سے ہمیں باخبر کیا ہے۔ مثلا اللہ تعالیٰ کے فرامین عالی شان ہیں:
آخری آیت میں اللہ تعالی نے صحابہ کرام کی نیک نیتی اور سچی توبہ کی بنا پر گناہ بخشی فرما دی، کیونکہ توبہ دلی معاملہ ہے۔
٢۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ظاہری و باطنی خوبیوں کی توفیق خاص سے نوازا ہے، اس لیے تو ان پر اپنی رضا، ان کی توبہ قبول کرنے اور ان کو جنت کی ضمانت دینے سے آگاہ کیا ہے۔
٣۔ مذکورہ دلائل میں اللہ تعالیٰ کا صحابہ کے لیے استغفار کا حکم، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کی تکریم، حقوق کی حفاظت اور ان سے محبت کا حکم دینا اور ان سے بغض و عناد سے منع کرنا، بل کہ ان سے محبت کو علامت ایمان اور بغض کو علامت نفاق قرار دینا، عدالت صحابہ کا پتہ دیتا ہے۔
٤۔ ان فضائل کے بعد صحابہ کرام کا خیر القرون ہونا اور اس امت کے لیے امن و امان ہونا، ایک طبعی حقیقت ہے۔ یوں امت کے لیے ان کی اقتدا واجب ہے، بل کہ جنت کا یہی واحد راستہ ہے۔ جیسا کہ سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
''میرے اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقے کو اختیار کریں۔''