Sunni Library



صحابہ کرام و خلفائے راشدین کے متعلق ضروری عقائد

خادم صحابہ


 صحابہ کرام و خلفائے راشدین کے متعلق ضروری عقائد
.................
♦️عقیدہ  
رسول خداﷺ کی صحبت بہت بڑے شرف کی بات ہے اسی لئے اس امت میں صحابہ کرام کا رُتبہ سب سے بڑا ہے۔ ایک لمحہ کے لیے بھی جس کو رسول خداﷺ کے ساتھ صحبت حاصل ہوگئی مابعد والوں میں بڑے سے بڑا بزرگ ولی بھی اس کے برابر نہیں ہوسکتا ۔
 فائدہ :
صحابہ کرام کی تعداد غزوہ بدر میں تین سو تیرہ تھی اور حدیبیہ میں پندرہ سو ، فتح مکہ میں دس ہزار ، حنین میں بارہ ہزار ، حجۃ الوداع یعنی آنحضرتﷺ کے آخری حج میں چالیس ہزار ، غزوہ تبوک میں ستر ہزار، بوقت وفات نبوی ایک لاکھ چوبیس ہزار اور جن صحابہ سے کتب حدیث میں روایات منقول ہیں ، ان کی تعداد ساڑھے سات ہزار ہے۔
♦️عقیدہ  
صحابہ کرام میں مہاجرین وانصار کا رُتبہ باقی صحابہ سے زیادہ ہے اور مہاجرین وانصار میں اہل حدیبیہ کا مرتبہ سب سے بڑھ کر ہے اور اہل حدیبیہ میں اہل بدر اور اہل بدر میں چاروں خلفاء کا مرتبہ سب سے زیادہ ہے اور چاروں خلفاء میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، پھر حضرت عمر فاروق ، پھر حضرت عثمان غنی پھر حضرت علی المرتضی رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مرتبہ ہے۔
 فائدہ :
مہاجرین ان صحابہ کرام کو کہتے ہیں جنہوں نے خدا و رسول کے لیے اپنے وطن مکہ معظمہ کو چھوڑ دیا ، جن کی مجموعی تعداد ایک سوچودہ تھی ۔ اور انصار ان صحابہ کرام کو کہتے ہیں کہ جو مدینہ منورہ کے رہنے والے تھے اور انہوں نے آنحضرتﷺ کو اور مہاجرین کو اپنے شہر میں جگہ دی اور ہر طرح کی مدد کی۔
♦️عقیدہ  
چاروں خلفاء کا افضل امت ہونا خلافت کی وجہ سے نہیں ہے، اگر بالفرض بجائے ان کے دوسرے حضرات خلافت کے لیے منتخب ہوجاتے تو بھی یہ حضرات افضل اُمت مانے جاتے۔
♦️عقیدہ  
خلیفہ رسول مثل رسولﷺ کے معصوم نہیں ہوتے ، نہ اس کی اطاعت مثل رسول کی اطاعت کے واجب ہوتی ہے ، بالفرض کوئی خلیفہ سہوا یا عمدا کوئی حکم شریعت کے خلاف دے تو اس حکم میں اس کی اطاعت نہ کی جائے گی ۔ عصمت خاصۂ نبوت ہے ، آنحضرتﷺ کے بعد کسی کو معصوم ماننا عقیدہ نبوت کے خلاف ہے۔
♦️عقیدہ  
خلیفہ رسول کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ دین میں نئے احکام دے ، نہ اس کو کسی چیز کے حلال وحرام کرنے کا اختیار ہوتا ہے،بلکہ اس کا صرف یہ کام ہے کہ قرآن وحدیث پر لوگوں کو عمل کرائے،احکام شریعہ کو نافذ کرے اور انتظام امور کو سرانجام دے۔
♦️عقیدہ  
خلفۂ رسول کا مقرر کرنا خدا کے ذمہ نہیں ہے،بلکہ مسلمانوں کے ذمہ ہے،جس طرح امام نماز کا مقرر کرنا مقتدیوں کے ذمہ ہوتا ہے۔
 فائدہ :
اہلسنت وجماعت جو خلفائے راشدین کی خلافت کو منجانب اللہ مانتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ چاروں خلفاء مہاجرین میں سے ہیں اور مہاجرین میں اہل بیت کا خلافت ہونا اور جو ان میں سے خلفہ ہوجائے اس کی خلافت کا پسندیدہ خدا ہونا قرآن مجید میں وارد ہوچکا ہے ۔
(دیکھو رسالہ تفسیر آیت تمکین لکھنوی رحمہ اللہ)
اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یا تینوں خلفاء کی خلافت کو منصوص کہنا بایں معنی نہیں ہے ، خدا یا رسول نے ان کو خلیفہ کر دیا تھا بلکہ بایں معنی ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کو خلافت دینے کا وعدہ فرمایا اور خلیفہ موعود کے متعلق کچھ علامات اور کچھ پیشین گوئیوں وغیرہ کے علاوہ ایک بات یہ بھی ہے کہ رسول خداﷺ نے ان کو اپنی آخری بیماری میں اپنی جگہ پر امام نماز بنادیا تھا۔
♦️عقیدہ  
رسول خداﷺ کی ازواج مطہرات گیارہ تھیں ، حضرت خدیجہ ، حضرت زینب بنت خزیمہ ان دونوں کی وفات آپﷺ کے سامنے ہی ہوگئی ، حضرت عائشہ ، حضرت حفصہ ، حضرت ام حبیبہ ، حضرت زینب بنت جحش ، حضرت ام سلمہ ، حضرت صفیہ ، حضرت سودہ، حضرت میمونہ ، حضرت جویریہ ۔ رضی اللہ عنہن یہ سب بیبیاں خدا و رسول کی برگزیده اور تمام ایمان والوں کی ماں ہیں اور سارے جہاں کی ایمان والی عورتوں سے افضل ہیں ، ان میں بھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عائشہ رضی عنہا کا رتبہ زیادہ ہے۔
♦️عقیدہ  
رسول خداﷺ کی صاحبزادیاں چار تھیں ، حضرت زینب رضی اللہ عنہا جن کا نکاح حضرت ابو العاص رضی اللہ عنہ سے ہوا،
حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا ان دونوں کا نکاح یکے بعد دیگرے حضرت عثمان ذوالنورین کے ساتھ ہوا،
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جن کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوا ، یہ چاروں صاحبزادیاں بڑی برگزیدہ اور صاحب فضائل تھیں اور ان چاروں میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا رتبہ سب سے زیادہ ہے وہ اپنی ماؤں کے سوا سب جنتی بیبیوں کی سردار ہیں ۔
 فائدہ :
رسول خداﷺ کی صرف ایک بیٹی حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کو کہنا نص قرآنی کے خلاف ہے ۔
♦️عقیدہ  
آنحضرتﷺ کے دس چچاؤں میں سے صرف حضرت حمزہؓ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ ایمان لائے تھے ، ان دونوں کے فضائل بہت زیادہ ہیں اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا رتبہ خصوصیت کے ساتھ زیادہ ہے ان کو رسول خداﷺ نے سیدالشہداء کا خطاب دیا تھا جب کہ وہ غزوہ احد میں شہید ہوئے تھے اور آپﷺ کی پانچ پھوپھیوں میں سے صرف حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا مشرف باسلام ہوئیں۔
♦️عقیدہ  
مہاجرین وانصار بالخصوص اہل حدیبیہ میں باہم رنجش وعداوت بیان افتراء اور بے دینی ہے ، قرآن مجید کی نصوص صریحہ کے خلاف ہے۔
♦️عقیدہ  
صحابہ کرام کے مشاجرات یعنی ان کے باہمی جھگڑوں کا بیان کرنا حرام ہے مگر بضرورت شرعی وبہ نیت نیک اور جن صحابہ کرام میں باہم کوئی جھگڑا ہوا تو ہمیں دونوں فریق سے حسن ظن رکھنا اور دونوں کا ادب کرنا لازم ہے جس طرح دو پیغمبروں کے درمیان اگر کوئی بات اس قسم کی ہوجائے تو ہم کسی کو برا نہیں کہہ سکتے ، بلکہ دونوں پر ایمان لانا نص قرآنی سے ہم پر فرض ہے۔
 فائدہ :
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے زمانہ خلافت میں دو خانۂ جنگیاں پیش آئیں اول جنگ جمل جس میں ایک جانب حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے اور دوسری جانب ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی عنہا تھیں اور ان کے ساتھ حضرت طلحۃ رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ تھے جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں ، دونوں جانب اکابر صحابہ تھے ، مگر یہ لڑائی دھوکہ میں چند مفسدوں کی حیلہ سازی سے پیش آگئی ورنہ ان میں باہم رنجش نہ تھی ، نہ آپس میں لڑنا چاہتے تھے :
مفسدوں کی فتنہ پردازی ہوئی
باعث خونریزی جنگ جمل
ورنہ شیر حق سے طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ
چاہتے ہرگز نہ تھے جنگ وجدل
اس لڑائی میں ہر فریق سے دوسرے کے فضائل منقول ہیں ، جیسا کہ اسی کتاب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے تذکرہ میں انشاء اللہ بیان ہوگا ۔
دوم جنگ صفین ، جس میں ایک جانب حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دوسری طرف حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ، دونوں صحابی رسول اور جلیل القدر صحابی ہیں اور دونوں میں لڑائی کوئی زاتی مفادات کے نہیں تھی دونوں کے لشکر میں باغی لوگ موجود تھے حقیقتاً باغی وہی تھے جو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل تھے اور بغاوت کر کے شہید کیا، یہ دونوں جنگیں میں عبداللہ ابن سباء یہودی کی تخریب کاری اور سازش سے رونما ہوئی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ صاحب فضائل ہیں
حضرت شیخ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ ازلۃ الخفاء میں فرماتے ہیں:
جاننا چاہیے کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ اعلیٰ حضرتﷺ کے ایک صحابی تھے اور زمرہ صحابہ میں بڑی فضیلت والے تھے،خبردار ان کے حق میں بدگمانی نہ کرنا اور ان کی بدگوئی میں پڑ کر فعل جرائم کے مرکتب نہ بننا۔
اگر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ باغی ہوتے جیسے کچھ نام نہاد اہلسنت شہرت پرست ممبروں پر دن رات ہانکتے ہیں تو سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی صلح و بیعت کے ہرگز نہ کرتے
♦️ عقیدہ  
فرق روافض جو تمام صحابہ کرام حتیٰ کے مہاجرین وانصار کی بدگوئی کرتا ہے اور ہجرت ونصرت کو فضیلت کی چیز نہیں کہتا کویہ صریح خلاف وزری قرآن مجید کی ہے اور اس کا لازم نتیجہ یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کی نبوت اور دلائل نبوت مشکوک ہوجائیں لیکن اس بناء پر ان کو کافرکہنا خلاف احتیاط ہے، اہل سنت کا مسلک یہ ہے کہ جب تک صریح انکار ضروریات دین کا نہ ہو اس وقت تک کسی کلمہ گوکو کافر کہنا ناجائز ہے امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں
’’ہم اہل قبلہ میں سے کسی کو کافر نہیں کہتے۔‘‘
روافض کا کفر اس بنیاد پر قطعی ہے کہ وہ قرآن مجید کی تحریف کے قائل ہیں اور معاذ اللہ اس کو اصلی قرآن نہیں مانتے۔
یہ بارہ عقیدے جو بیان کیے گئے اہلسنت کے لیے نہایت ضروری ہیں ان میں اکثر وبیشتر عقیدے وہ ہیں جن کا ماخذ قرآن مجید ہے حق تعالیٰ ہم سب کو ان پاک عقائد پر استقامت عطافرمائے۔ آمین


اس کیٹیگری میں موجود دیگر آرٹیکلز


نمبر عنوانات
1 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین افضلیت کا عقیدہ
2 فضیلت و عدالت صحابہ کا عقیدہ
3 صحابہ کرام و اہل بیت رضی اللہ عنہم سے محبت عین ایمان ہے۔
4 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی لغزشوں پر خاموشی
5 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ رضامندی کا اظہار کرنا
6 صحابہ کرام کے لئے جنتی ہونے کی گواہی دینا
7 صحابہ کرام کا ذکر خیر کرنا
8 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین افضلیت کا عقیدہ
9 فضیلت و عدالت صحابہ کا عقیدہ
10 مشاجراتِ صحابہ پر اصولی حکم
11 صحابہؓ میں مراتب
12 اجماع امت اور عدالت صحابہؓ
13 صحابہ کرام اور علماء دیوبند کا مؤقف
14 مشاجرات صحابہؓ میں امت کا عقیدہ اور عمل
15 عدالت صحابہ کرام کتاب وسنت کی روشنی میں