نام و نسب
حضرت ابوسفیانؓ صخر بن حرب کے مشہور فرزند کا پدری نسب یزیدؓ بن ابی سفیانؓ بن حرب بن امیہ بن عبدالشمس بن عبد مناف ہے۔
اور آپ کی والدہ کا نام زینب بنت نوفل بن خلف ہے۔
اور آپ حضرت امیر معاویہؓ بن ابی سفیانؓ کے سوتیلے بھائی ہیں۔
سیدنا یزید رضی اللہ عنہ بہت جلیل القدر شخصیت تھے اور فضلاء صحابہ میں ان کا شمار کیا جاتا تھا۔
آپ فطرتاً شریف النفس اور سلیم الطبع واقع ہوئے تھے اور اپنے بہترین کارناموں کی بدولت ان کو یزیدُ الخیر کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔
اور آپؓ بڑے عقیل، دانش مند اور جری لوگوں میں سے تھے ۔
چنان چہ علامہ الذھبی رح نے ان کا تذکرہ بالفاظ ذیل تحریڑ کیا ہے:
قبول اسلام اور غزوہ حنین میں شرکت
سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ جناب نبی اقدس ﷺ کے عہد میں فتح مکہ کے موقع پر اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ مشرف بہ اسلام ہوئےاور ان کا اسلام نبیﷺ نے قبول فرمایا۔ آپؓ عمر بھر اسلام پر مضبوطی سے قائم رہے اور اعلیٰ اسلامی خدمات سر انجام دینے میں پیش پیش رہے اور بڑے فعال ثابت ہوئے۔ آپؓ اسلام کے مجاہدین میں سے ایک نامور مجاہد تھے۔
سب سے اول آپؓ نے غزوہ حنین میں شرکت کی اور غنائم میں و افر حصہ پایا۔ان کی دینی خدمات کو محدثین اور مؤرخین نے بڑے عمدہ انداز میں ذکر کیا ہے۔
چنانچہ طبقات ابن سعد میں ہے کہ:
یعنی فتح مکہ کے روز سیدنا یزیدؓ بن ابو سفیانؓ اسلام لاۓ اور غزوہ حنین میں پیغمبرﷺ کی معیت میں شامل ہوۓ۔
اس غزوہ میں فتح کے بعد مال غنیمت میں سے نبیﷺ نے ان کو ایک سو اونٹ اور چالیس اوقیہ (دراہم) عنایت فرماۓ۔ اور لوگ ہمیشہ ان کو ” یزید الخیر" کے نام سے ذکر کرتے تھے۔
نسب کتابت
اہل سیرت جہاں نبی اقدسﷺ کے کاتبوں کا ذکر کرتے ہیں، وہاں سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ کو بھی کاتبِ نبوی شمار کرتے ہیں۔
چنانچہ ابن حزم نے *جوامع السیرة * میں نبیﷺ کے کاتبوں کے نام جہاں ذکر کیے ہیں ، وہاں ان کا نام آٹھویں مقام پر زیدؓ بن ثابت اور امیر معاویہؓ کے اسماء سے قبل ذکر کیا ہے۔
(جوامع السيرة لابن حزم اندلسی، ص26‘ تحت کتابہ ﷺ)
اسی طرح علی بن برہان الدین الحلبی رحمہ اللہ نے اپنی سیرۃ حلیبہ میں متعدد صحابہ کرامؓ کو کاتبین نبویؐ میں شمار کرتے ہوۓ ذکر کیا ہے کہ :
ترجمہ: یعنی حضرت امیر معاویہؓ اور ان کے بھائی یزیدؓ بن ابی سفیانؓ” (دونوں کاتب نبوی تھے)
دینی اعتماد کے سلسلہ میں کاتب نبوی ہونا اس شخص کے لیے وثاقت کی دلیل اور صداقت کا بہترین نشان ہے اور یہ شرف خاص خاص لوگوں کو ہی حاصل تھا۔
منصب امارت
سیدنا یزیدؓ بن ابو سفیانؓ اپنی طبعی صلاحیتوں کی بنا پر بڑے مستعد کار کن تھے۔ چنانچہ جس طرح نبیﷺ نے ان کے چھوٹے بھائی سیدنا معاویہؓ کو مختلف امور پر عامل بنا کر روانہ فرمایا تھا اسی طرح انؓ کو بھی نبیﷺ نے علاقہ تیماء پر امیر بنا کر روانہ فرمایا۔
چنانچہ مؤرخین نے لکھا ہے کہ :
اور ایک اور مقام پر مؤرخین نے لکھا ہے کہ:
” نبیﷺ نے سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ کو قبیلہ بنی فراس (جو آپ کے ننھالی رشتہ دار تھے) کے صدقات پر عامل بنا کر روانہ فرمایا:
دورِ نبوت میں فرمانِ نبویﷺ سے کسی علاقہ کا امیر بنایا جانا یا بعض قبائل کے حصول صدقات پر عامل مقرر کیا جانا خاص دینی اعتماد و اخلاصِ عمل پر ہوتا تھا۔ ہر شخص اس منصب کا اہل نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ فضل و شرف سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ کو بھی نصیب ہوا اور امیر و عامل بنائے گئے۔
اعتماد نبویﷺ
علاقہ یمن سے ایک شخص ھانی ابو مالک جو الکندی قبیلہ کے ایک معزز فرد تھے نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ نبی کریم ﷺ نے ان پر خصوصی شفقت فرمائی اور ان کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے برکت کی دعا فرمائی اور انہیں یزیدؓ بن ابی سفیانؓ کے ہاں ٹھہرایا۔ حضرت ھانی نے یزیدؓ کے ہاں کچھ عرصہ قیام کیا اور پھر جب حضرت ابو بکرصدیقؓ نے یزیدؓ کو ملک شام کی طرف امیر جیش مقرر فرما کر روانہ کیا تو ھانی یزیدؓ کے ساتھ ملک شام چلے گئے اور پھر وہیں مقیم ہو گئے۔ چنانچہ ابن سعد نے طبقات میں لکھا ہے کہ:
مذکورہ بالا واقعہ سے نبی اقدس ﷺ کا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ“ پر کامل اعتماد واضح ہو تا ہے اور ان کی جانب سے فرمان نبوی ﷺ کی قدر دانی اور اطاعت ثابت ہوتی ہے۔ یہ چیزیں حضرت یزیدؓ کے حق میں بہترین فضیلت کی ہیں۔
روایت حدیث کا شرف
نبی اقدس ﷺ سے دیگر صحابہ کرامؓ کی طرح یزیدؓ کے بن ابی سفیان ؓ نے بھی حدیث نقل کی ہے اور یہ شرف ان کو دوسرے رواۃ حضرات کی طرح حاصل ہے اور پھر ان سے دیگر صحابہؓ کا روایت نبوی نقل کرنا بھی ثابت ہے ۔ فلہذا ان کو راوی اور مروی ہونے کے دونوں شرف نصیب ہوئے ۔
امیر جیش اور صدیقی ؓ وصایا
اہل تاریخ و التراجم ذکر کرتے ہیں کہ 12ھ میں جب حضرت ابو بکر الصدیقؓ حج سے واپس تشریف لائے تو 13ھ کی ابتداء میں ملک شام کی طرف اسلامی افواج بھیجنے کی ضرورت پیش آئی۔ اس موقعہ پر حضرت صدیق اکبر ؓ نے اسلامی لشکر کے چار حصے تجویز فرماۓ اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ ، عمرو بن العاص ؓ ، شرجیل بن حسنہ ؓ اور یزید بن ابی سفیان ؓ کو ایک ایک حصہ پر امیر جیش مقرر فرما کر روانہ فرمایا۔
البدایہ لابن کثیر میں ہے کہ:
اور الذہبی رحمہ اللہ نے یہاں اس چیز کو بعبارت ذیل ذکر کیا ہے:
ابن کثیر رحمہ اللہ تحریر کرتے ہیں کہ
حضرت صدیق اکبر ؓ نے یزید بن ابی سفیان ؓ کو ایک علم (جھنڈا) عنایت فرمایا۔ سہیل بن عمروؓ اور اہل مکہ میں سے ان جیسے حضرات کو ان کے ہمراہ روانہ فرمایا اور خود کچھ دیر تک ان کے ساتھ چل کر وصایا فرماتے ہوئے اس جیش کو رخصت فرمایا اور ان کے لیے دمشق کی ولایت تجویز فرمائی اور علامہ الذہبی ذکر کرتے ہیں کہ حضرت صدیق اکبر ؓ یزیدؓ کی سواری کے ساتھ بطور مشایعت کے چلے اور ان کو رخصت کیا اور وصایا فرمائیں۔ اور یہ بات یزید ؓ کی فضیلت اور کمال دین کے لحاظ سے آنموصوف ؓ نے اختیار فرمائی۔
دیگر صدیقیؓ وصایا
اس موقعہ پر اکابر محدثین اور فقھاء اور اہل تراجم نے حضرت صدیق اکبر ؓ کی ھدایات و وصایا جو آپ نے اسلامی جیش کے امیر یزیدؓ کو دمشق کی طرف روانہ کرتے ہوئے فرمائیں ، بڑے عمدہ طریقہ سے مفصل ذکر کی ہیں ۔ چنانچہ امام مالک رحمہ اللہ نے موطاء میں اس چیز کو بعبارت ذیل درج کیا ہے:
ان ھدایات صدیقیؓ کا مفہوم حسب ذیل ہے
حضرت صدیق اکبرؓ نے ملک شام کی طرف افواج اسلامی روانہ فرمائیں ، وہ چار حصوں پر منقسم تھیں۔ ان میں سے ایک حصہ پر یزیدؓ بن ابی سفیان ؓ امیر جیش تھے ۔ حضرت صدیق اکبر ؓ دور تک پا پیادہ یزیدؓ بن ابی سفیان ؓ کو رخصت کرنے کے لیے چلے گئے ۔ یزید ؓ نے امیرالمومنین صدیقؓ سے عرض کیا کہ آپؓ سواری پر تشریف لائیں یا مجھے سواری سے اتر جانے کی اجازت بخشیں تو حضرت صدیق اکبر ؓ نے فرمایا کہ آپ ؓ سواری سے نہ اتریں اور میں سوار بھی نہیں ہوتا۔ وجہ یہ ہے کہ میں فی سبیل اللہ اپنے قدموں پر چل کر ثواب حاصل کر رہا ہوں۔
پھر حضرت صدیق اکبرؓ نے حضرت یزید ؓ کو قتال کے متعلق ہدایات و وصایا ارشاد فرمائیں، جن میں درج ذیل امور پر عمل کرنے کی تاکید فرمائی:
1-کسی خاتون کو قتل نہ کرنا۔۔۔۔
2- کسی بچے کو قتل نہ کرنا۔
3- کسی عمر رسیدہ شخص کو قتل نہ کرنا۔
4- کسی پھل دار درخت کو نہ کاٹنا اور قطع نہ کرنا۔
5- کسی آبادی کو برباد نہ کرنا۔
6- کسی بکری یا اونٹ کو نہ کاٹ ڈالنا مگر کھانے کے لیے ذبح کر نا مباح ہے ۔
7- کسی کھجور کے درخت کو نہ جلا دینا۔
8- توڑ پھوڑ نہ کرنا۔
9- مال غنیمت میں خیانت نہ کرنا۔
10- دشمن کے مقابلہ میں بزدلی نہ دکھانا۔
چنانچہ حضرت یزید ؓبن ابی سفیانؓ” ان زریں نصائح و وصایا کو حاصل کر کے ارض شام کی طرف روانہ ہوۓ اور ان پر پورا عمل در آمد کیا اور اس مہم میں کامران و کامیاب ہوۓ۔
حضرت صدیق اکبرؓ کی طرف یزیدؓ بن ابی سفیانؓ کا ایک مکتوب
مؤرخین نے لکھا ہے کہ رومیوں کے بادشاہ ہرقل کو جب اسلامی افواج کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ روم میں داخل ہورہی ہیں تو اس نے اپنی اقامت گاہ چھوڑ کر انطاکیہ شہر کا رخ کیا۔ امیر افواج یزیدؓ بن ابی سفیانؓ نے پیش آمدہ حالات سے مطلع کرنے کے طور پر مرکز میں امیرالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیقؓ کی طرف ایک مراسلہ تحریر کیا جو کتاب فتوح الشام میں منقول ہے۔
مکتوب کا مفہوم اس طرح ہے
یزیدؓ بن ابی سفیانؓ نے بسم اللہ کے بعد اس طرح ذکر کیا کہ شاہ روم کو جب ہماری اس کی طرف پیش قدمی معلوم ہوئی تو اللہ تعالی نے اس کے دل میں اہل اسلام کا رعب ایسا ڈالا کہ وہ اپنے مقام سے چل کر انطاکیہ کے مقام پر نازل ہوا اور مدائن شام پر اپنے لشکر کے امراء کو مقرر کر کے ہمارے ساتھ قتال کا انہیں حکم ديا..... الخ)
ان حالات میں اے امیر المومنین! اپنے حکم اور اپنی راۓ سے ہمیں جلد مطلع فرمائیں ۔ ان شاءاللہ تعالی ہم اس پر عمل در آمد کریں گے۔
ہم اللہ تعالی سے اس کی نصرت اور فتح طلب کرتے ہیں اور مسلمانوں کی عافیت کے طلب گار ہیں ۔ آپ پر سلام اور اللہ تعالی کی رحمت ہو ۔
مکتوب ہذا کی اصل عبارت
امیرالمؤمنین حضرت صدیق اکبرؓ کی طرف سے مکتوب کا جواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد حضرت صدیق اکبرؓ نے مرکز کی طرف سے لکھا کہ :
آپ کا مرسلہ( خط ) ہمیں پہنچ گیا ہے اس میں درج ہے کہ ملک روم نے انطاکیہ کی جانب کوچ کیا اور مسلمانوں کی اجتماعی قوت سے اس کے قلب میں اللہ تعالی نے خوف ڈالا ہے ۔ اللہ تعالی (ہمیں کافی ہے اور اس کے لیے حمد و ثنا ہے۔ ہم نبی کریم ﷺ کی معیت میں ہوتے تھے اللہ تعالی ہماری مدد فرماتا تھا۔ اور اپنے ملائکہ کرام کے ذریعے ہماری خصوصی نصرت فرماتا تھا۔ یہ وہ دین ہے جس کے ذریعہ سے اللہ تعالی نے رعب ڈالا ہے اور وہی دین ہے جس کی آج ہم لوگوں کو دعوت دیتے ہیں۔ اللہ تعالی کی قسم ! اللہ تعالی مسلمانوں کو مجرموں کی طرح نہیں بناۓ گا۔ ( بلکہ اہل اسلام کو غالب کر دے گا۔) جب ان کفار کے ساتھ آمنا سامنا ہو تو اپنے معاونین سمیت ان کے خلاف قتال کرو۔ اللہ تعالی آپ کو رسوا نہیں کرے گا۔ اللہ تعالی نے ہمیں خبردی ہے کئی بار قلیل جماعت کثیر جماعت پر باذن اللہ غالب رہتی ہے۔ پھر اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ ملک شام کی طرف فوج بعد از فوج روانہ فرمانے لگے۔
جوابی مکتوب کی اصل عبارت
جنگ جمل میں سیدنا ابو سفیانؓ کی ہدایات
جنگ یرموک دشمنان اسلام کے خلاف (علی الاختلاف اقوال)ھ١٣/١٥ھ میں لڑی گئی اور اسلام میں جنگ نہایت اہم تھی۔اس جنگ میں سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ اسلامی لشکر کے ایک حصہ یعنی میسرہ پر امیر تھے اور آپ کے والد گرامی سیدنا ابو سفیانؓ بن حرب ضعف و پیری کے باوجود شریک ہوئے اور دوسری آنکھ کی بھی قربانی پیش کر کے نابینا ہوگئے۔اور بصارتِ چشمی سے معذور ہو گئے۔اس موقع پر مسلمانوں کو شدید قتال کا سامنا کرنا پڑا،مگر سیدنا یزیدؓ نے دیگر صحابہ کرامؓ کی طرح نہایت ثابت قدمی اور جرات کا مظاہرہ کیا ۔ اس دوران بعض دفعہ سیدنا ابو سفیانؓ اپنے فرزند سیدنا یزیدؓ کو تاکید فرماتے تھے کہ:
مطلب یہ ہے کہ:
اے بیٹے !(صرف) اللہ تعالی سے خوف کیجیے۔آپ کے ساتھیوں میں سے کوئی فرد جنگی معاملہ کے متعلق اجر و ثواب میں آپ سے زیادہ راغب نہ ہوں اور دشمنان اسلام کے خلاف آپ سے زیادہ کوئی جرات مند نہ ہو، تو سیدنا یزیدؓ نے اپنے والد گرامی کے فرمان کے جواب میں عرض کیا ان شاء اللہ تعالی آپ کی نصیحت پر عمل کروں گا۔
چنانچہ سیدنا یزیدؓ نے نہایت شدید قتال کیا (اور فتح مندی سے ہمکنار ہوئے آئے۔) یہ واقعہ قبل ازیں ہم نے کتابچہ" حضرت ابوسفیانؓ " تحت "اپنے بیٹے کو وصایا" درج کیا تھا.
اہم معرکہ میں فتح
ملک شام کے علاقہ میں مختلف مقامات پر اہل اسلام کو دشمن کے ساتھ قتال کرنے اور معارضہ کے بہت مواقع پیش آئے ۔چنانچہ طبری نے ان ایام میں ایک جنگی معارضہ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہےکہ :
مخالفین کی افواج میں ایک توزرا نامی شخص بڑا جنگجو بہادر تھا۔اس کے ساتھ سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ کا شدید مقابلہ ہوا اس کے بعد عام جنگ شروع ہوئی۔قتال کے دوران
ہی پیچھے سے حضرت خالدؓ بن ولید آپہنچے اور اہل اسلام میں مخالفین کے ساتھ سخت قتال کیا اور وہاں سے بھاگ جانے والوں کو بغیر دشمن کے لشکریوں کو قتل کر ڈالا اور ان میں سے کوئی بچ کر نہیں گیا۔اس موقع پر مسلمانوں کو مال غنیمت (سواریاں لباس اور دیگر مال ومتاع) بے شمار حاصل ہوا-پھر تمام مال غنیمت کو سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ نے اپنے مجاہدین رفقاء اور سیدنا خالدؓ بن الولید کے ساتھیوں میں حسب دستور تقسیم کر دیا۔
غنائم کی تقسیم کے بعد سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ دمشق کی طرف اور سیدنا خالدؓ بن الولید اپنے امیر جیش سیدنا ابو عبیدہ بن الجراحؓ کی طرف روانہ ہوگئے۔
فتح مدینہ و دمشق
شہر دمشق محاصرہ پر مؤرخین نے لکھا ہے صورت ذیل میں اکابر حضرات محاصرہ کئے ہوئے تھے۔مدینہ دمشق کے بعد الشرق پر سیدنا خالدؓ بن الولید ،باب توما پر سیدنا عمرو بن العاصؓ،باب الفرادیس پر سیدنا شرحبیل بن حسنہؓ ،باب الجابیہ پر سیدنا ابو عبیدہ ابن الجراحؓ اور باب الصغیر جسے کسیان کہتے تھے اس پر سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ محاصرہ کیے ہوئے تھے۔
(فتوح البلدان للبلازری صفحہ 127 تحت فتح مدینہ دمشق۔)
پھر ابو عبیدہ القاسم بن سلام نے اپنی تصنیف کتاب الاموال میں اس طرح تحریر کیا ہے کہ:
اور سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ نے فلسطین اور اردن کے علاقہ جات میں بہت فتوحات حاصل کیں اور بصری وغیرہ کو صلح کے ساتھ فتح کیا۔(فتوح البلدان للبلازری صفحہ 133 تحت فتح مدینہ و دمشق)۔
فتوحات سواحل دمشق
نیز دمشق کے علاقہ کی فتوحات کے سلسلہ میں مؤرخ ابن اثیر نے الکامل میں لکھا ہے کہ جب فتح مدینہ دمشق تمام ہوگئی تو اسلامی عساکر کے امیر سیدنا ابو عبیدہؓ بن الجراح نے سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ کو امیر دمشق مقرر فرمایا اور خودمقام فحل کی جانب روانہ ہوئے۔
سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ کے سواحل دمشق مقامات کی طرف اپنا لشکر سمیت عازم سفر ہوئے۔صیدہ،عرقہ جیل اور بیروت وغیرہ یہ دمشق کے سواحل پر شمار ہوتے تھے سیدنا یزیدؓ موصوف کے لشکر کے مقدمہ الجیش پر ان کے برادر خورد سیدنا امیر معاویہؓ بن ابی سفیانؓ امیر نگران مقرر تھے۔مذکورہ کئ مقامات کے لوگوں کو وقتی مصالحت کے تحت وہاں سے نکال کر جلا وطن کیا اور سواحل کے دیگر مواضع کو فتح کرکے اسلام کے زیر نگیں کردیا اور خصوصا عرقہ وغیرہ کو سیدنا معاویہؓ نے سیدنا یزیدؓ موصوف کی نگرانی و تولیت کے تحت خود فتح کیا
تین صحابہ کرامؓ کا طلب کیا جانا
ملک شام میں اسلامی فتوحات کا سلسلہ جاری تھا کہ حضرت صدیق اکبرؓ 13 ہجری میں انتقال فرما گئے سیدنا فاروق اعظمؓ ان کے بعد خلیفہ منتخب ہوئے اس دور میں کثرت فتوحات کی بنا پر دینی مسائل کی تعلیم کی ضرورت بڑھ گئی تو اس وقت سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ ﷺ نے حضرت عمرؓ کی خدمت میں مکتوب(خط) ارسال کیا کہ :
یعنی سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ نے سیدنا فاروق اعظمؓ “ کو لکھا کہ ارض شام میں کثرت سے اسلام پھیلا ہے اب یہاں ان کو قرآنی تعلیم اور دینی مسائل سمجھانے کی ضرورت درپیش ہے اس مقصد کے لیے کم از کم تین حضرات روانہ فرما کر ہماری اعانت کیجئے ، تو حضرت فاروق اعظمؓ ” کی جانب سے اس کام کے لیے تین انصاری صحابہ سیدنا معاذ بن جبلؓ” سیدنا ابودرداءؓ” اور سیدنا عبادة بن صامتؓ کو شام بھیجا گیا تھا۔ ان حضرات نے علاقہ شام میں پہنچ کر دینی تعلیمات بڑے احسن طریقہ سے سرانجام دیں اور ملک کے مختلف جوانب و اطراف میں ملی خدمات کا فریضہ ادا کیا اور تعلیم عام کر کے اسلام کے فروغ کا باعث ہوۓ ۔
*یہ تمام پروگرام سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ کی نگرانی میں ہوا۔
ایک مراسلہ فاروقیؓ
سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ جس دور میں شام کے علاقے
میں فتوحات کے سلسلہ میں مقیم تھے اس زمانے میں مرکز اسلام مدینہ طیبہ سے حضرت سیدنا عمر فاروقؓ کی جانب سے مختلف احکامات اور ہدایات جاری ہوتے تھے ، اس ضمن میں صاحب کنز العمال علی متقی الہندی نے ایک فاروقیؓ مکتوب کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ سیدنا عمرؓ نے سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ” کو ایک مراسلہ ارسال کیا اور ہدایت فرمائی کہ : "
حسب دستور ایک اسلامی لشکر روانہ کیجئے اور ربیعہ کے قبیلہ سے ایک شخص کو اس کا امیر جیش بنا کر اس کو پرچم دیجئے کیونکہ میں نے ایک بار نبی کریم ﷺ سے سنا کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ جیش شکست نہیں کھاۓ گا جس کا جھنڈا ربیعہ قبیلہ کے شخص کے ہاتھ میں ہوگا۔"
چنانچہ سیدنا فاروق اعظمؓ کی ہدایات کی روشنی میں سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ نے عمل در آمد کیا اور مجاہدانہ کارنامے سرانجام دیئے اور فروغ اسلام کی خاطر مساعی کیں۔
شرب خمر کا واقعہ
حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ ملک شام میں اپنی فتوحات کے سلسلہ میں علاقہ دمشق کے والی اور حاکم تھے ۔ ان کی امارت کے ایام میں اہل شام کے بعض لوگ شراب خوری کے مرتکب ہوۓ اور ساتھ ہی یہ دعوی کرنے لگے کہ یہ فعل ہمارے لیے حلال ہے ، اور قرآن مجید کی آیت :
سے اپنے اس فعل کا غلط جواز پیدا کرنے کے لیے اس میں تاویل کرنے لگے ۔ اس صورت حال سے سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ نے امیرالمومنین حضرت عمرؓ کو بذریعہ مکتوب مطلع کیا۔ تو حضرت عمرؓ نے جوابا" حکم نامہ ارسال فرمایا کہ اس سے قبل کہ یہ لوگ کسی فساد کا باعث بنیں انہیں ہماری طرف بھیج دیں۔
چنانچہ جب یہ لوگ حضرت عمر فاروقؓ کی خدمت میں پیش کیے گئے تو اس مسئلہ کے متعلق آپ نے اکابر صحابہؓ کرام سے مشورہ طلب فرمایا تو صحابہ کرامؓ نے اپنی راۓ کا اظہار کرتے ہوۓ فرمایا کہ اے امیرالمومنینؓ! ہماری راۓ میں ان لوگوں نے اللہ تعالی کے کلام کی غلط تاویل کرتے ہوۓ تکذیب کی ہے اور دین میں ایسی چیز کو مشروع قرار دیا ہے جس کا اللہ تعالی نے حکم نہیں فرمایا ۔
پس ان کی گردن اڑا دینی چاہیے۔ اس موقعہ پر حضرت علی المرتضیؓ بھی موجود تھے مگر خاموشی اختیار کیے ہوۓ تھے ۔ سید نا عمرفاروقؓ نے سیدنا علی المرتضیؓ" سے فرمایا کہ اے ابوالحسنؓ! آپ کی
اس مسئلہ میں کیا رائے ہے ؟ تو حضرت علی المرتضیؓ نے جواب میں فرمایا کہ : میری رائے یہ ہے کہ انہیں پہلے اس فعل سے رجوع اور توبہ کرنے کا موقعہ فراہم کیا جائے اگر یہ لوگ اپنے اس فعل سے توبہ کر لیں تو ان کو شراب خوری کی بنا پر اسی (80) درے لگوائے جائیں اور اگر یہ اپنے مؤقف سے توبہ ہی نہ کریں تو ان کی گردن اڑ دی جاۓ کیونکہ انہوں نے اللہ تعالی کے کلام کی تکذیب کی ہے۔ اور اپنے دین میں انہوں نے ایسی چیز کو مشروع کیا ہے ، جس کا اللہ تعالی نے حکم نہیں فرمایا۔
چنانچہ ان لوگوں سے توبہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تو انہوں نے اپنے مؤقف سے رجوع کر کے توبہ کر لی اور پھر انہیں شراب خوری کی سزا کے طور پر اسی درے لگواۓ گئے۔ اکابر محدثین نے اس واقعہ کو بعبارت ذیل نقل کیا ہے ۔
مقام سرغ میں ملاقات
ملک شام کی فتوحات کی طرف حضرت عمر فاروقؓ کی خاص توجہ تھی۔ وہاں اسلامی جیوش کے امراء بڑی محنت کے ساتھ کام پر لگے ہوئے تھے اور فتوحات کا سلسلہ شروع تھا۔ پھر ان حالات میں حضرت عمر فاروقؓ کا وہاں خود تشریف لے جانا بعض دفعہ ضروری ہو جاتا تھا۔ اس سلسلہ میں مؤرخین نے تصریح کی ہے کہ کم و بیش چار دفعہ حضرت عمر فاروقؓ ملک شام میں تشریف لے گئے ۔ دو بار 16ھ میں اور دو بارے 17 ھجری میں ۔ مؤرخ طبری نے اس مسئلہ کو بعبارت ذیل ذکر کیا ہے ۔
چنانچہ ۱۷ھ میں ایک دفعہ حضرت فاروق اعظمؓ شام کی طرف عازم سفر ہوئے متعدد مهاجرین و انصار حضرات شریک سفر اور ہم رکاب تھے ۔ " سرغ " کے مقام پر جاکر فروکش ہوئے۔ علاقہ کے امراء الجیوش کو اطلاع ملی تو ذیل حضرات سیدنا فاروق اعظمؓ کی ملاقات کے لیے حاضر خدمت ہوئے ۔سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح ؓ ،سیدنا یزید بن ابی سفيان ؓ اور سیدنا شرجیل بن حسنہ ؓ یہ حضرات جیوش کے امراء تھے اور حضرت سیدنا ابو عبیدہ بن الجراحؓ امیرالامراء تھے ۔
ان اکابرین حضراتؓ کے اجتماع ہذا میں علاقہ کے اہم حوائج اور احوال امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروقؓ کی خدمت میں پیش کیے گئے ۔
اس ضمن میں ان حضرات نے اطلاع دی کہ فاخبروه أن الارض سقيمہ
یعنی جس علاقہ کی طرف حضرت تشریف لے جانا چاہتے ہیں وہاں کی فضا خراب ہے اور بیماری پھیلی ہوئی ہے ۔
اس موقعہ پر مختلف مشورے پیش ہوۓ اور آگے سفر جاری رکھنے یا یہاں سے واپس ہونے میں بحث تبحیث ہوئی۔ آخر کار بقول مؤرخین حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کے مشورہ اور قول کو ترجیح دی گئی اور حضرت عمرؓ واپس مدینہ طیبہ تشریف لاۓ۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے ذیل فرمان نبوی ﷺ سب حضرات کے سامنے بیان کیا کہ آنجناب ﷺ کا ارشاد ہے کہ کسی شہر یا علاقہ میں بیماری کی وبا معلوم کرو تو اس مقام میں مت جاؤ اور جہاں تم مقیم ہو وہاں وبا پھیل جاۓ وہاں سے بھاگ کر مت نکلو۔
حضرت عمر فاروق ؓ نے یہ حدیث مبارکہ سن کر فرمایا :
۔ مختصر یہ ہے کہ اس مسئلہ پر حضرت عبدالرحمنؓ کے قول پر فیصلہ ہو جانے کے بعد حضرت عمر فاروقؓ اور ان کے ہم سفر حضرات مدینہ طیبہ کی طرف واپس تشریف لاۓ اور لشکروں کے امراء حضرات اپنے اپنے علاقہ جات کی طرف حسب موقع ہدایات لے کر واپس ہوئے۔ واقعہ ہذا کے ذریعہ سے واضح ہوا کہ سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیان ؓ اپنے منصب کے لحاظ سے ایسے اہم مراحل میں شامل ہوتے اور ضروری مجالس میں شرکت کرتے تھے اور ملی خدمات سرانجام دینے میں پیش پیش رہتے اور فروغ اسلام کے لیے ہمہ وقت مصروف رہتے تھے ۔
وفات
سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ کو حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے عہد خلافت میں ملک شام کے بعض علاقوں کا والی مقرر فرمایا تھا۔ جیسا کہ ماقبل میں بیان ہوا۔ اپنے عہدہ ولایت کے دوران دیگر صحابہ کرامؓ کی معیت اور رفاقت کے ساتھ بہت سے علاقوں کو فتح کیا۔ یرموک ، اجنادین ، اردن، فلسطین، حمص اور قیساریہ وغیرہ مقامات میں ان کے فاتحانہ کارنامے ایک امتیازی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان ایام میں دمشق کو فتح کر کے اسے اپنا مرکز قرار دیا ہوا تھا اور وہاں اقامت پذیر تھے۔اتفاق سے اس علاقے میں طاعون(عمواس) کی وبا پھیل گئی جس میں متعدد صحابہ کرامؓ حضرت ابو عبیدہ ؓ اور حضرت معاذ بن جبل ؓ وغیرھم کا انتقال ہوا اور سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیان ؓ نے بھی دمشق میں اس مرض سے 18ھ میں وفات پائی اور بعض مؤرخین نے اس طرح بھی لکھا ہے کہ سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیان ؓ کا انتقال دمشق میں فتح قیساریہ کے بعد 19ھ میں ہوا اور ان سے آگے ان کی نسل نہیں جاری ہوئی۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے
سیدنا یزید بن ابی سفیانؓ کی وفات کی خبر جب امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروقؓ کو پہنچی تو آپ نے حضرت معاویہ بن ابی سفیانؓ کو ان کے برادر حضرت یزیدؓ کی جگہ ملک شام کا امیر اور حاکم مقرر کر کے حکمنامہ شام روانہ کیا اور پھر حضرت ابو سفیانؓ کو ان کے فرزند حضرت یزیدؓ کی وفات پر تعزیت کی اور حضرت یزیدؓ کی جگہ ان کے برادر خورد حضرت معاویہؓ کو امیر مقرر کرنے کی خبر دی تو حضرت ابو سفیانؓ نے عرض کیا کہ
اے امیرالمؤمنین آپ نے صلہ رحمی کا تقاضا پورا کیا ہے اور قرابت داری کا لحاظ رکھا ہے۔
اور علامہ الذہبی نے مضمون ہذا کو بعبارت ذیل ذکر کیا ہے ۔
یعنی خلیفہ ابن خیاط لکھتے ہیں کہ حضرت یزیدؓ بن ابی سفیانؓ کے انتقال کے بعد حضرت فاروق اعظمؓ نے شام کا تمام علاقہ حضرت معاویہؓ کے زیر تحویل کر دیا پھر حضرت عثمانؓ نے اپنے دور خلافت میں حضرت معاویہؓ کو اس منصب پر بر حال رکھا۔
اور علامہ الذھبی نے اپنی تصنیف سیر اعلام النبلاء کے دوسرے مقام میں اس مسئلہ کو بالفاظ ذیل درج کیا ہے ۔
یعنی 18ھ والے طاعون ( عمواس) میں سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیان ؓ کا انتقال ہو گیا اور جب سیدنا یزیدؓ کی وفات قریب ہوئی تو انہوں نے اپنے منصب و مقام پر اپنے برادر حضرت معاویہؓ کو عامل بنایا۔
پھر حضرت عمرؓ کو اس چیز کا علم ہوا تو انہوں نے یزیدؓ کی تولیت کے نفاذ کے احترام کرتے ہوئے معاویہؓ کو اسی منصب پر فائز رکھا اور تبدیل نہیں کیا۔
مندرجہ بالا عبارت سے واضح ہو تا ہے کہ سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیان ؓ کا حضرت عمر ؓ کے نزدیک بہت اہم مقام و احترام تھا اور آپ نے سیدنا یزیدؓ کی صلاحیت اور اسلامی خدمات کی قدر دانی کے پیش نظر یہ صورت اختیار فرمائی۔
حاصل کلام
حضرت یزیدؓ بن ابی سفیانؓ کے متعلق مختصر سا اجمالی تذکرہ ناظرین کرام کی خدمت میں گزشتہ سطور میں پیش کیا ہے اس پر انصاف کے ساتھ نظر فرمائی جاۓ۔
1) سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ نسب کے اعتبار سے بہترین شرف کے حامل ہیں کہ حضرت ام المومنین ام حبیبہؓ کے علاتی (سوتیلے ) برادر ہیں اور حضرت امیرمعاویہؓ کے بھی سوتیلے برادر کلاں ہیں ۔
2) سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیان ؓ اسلام لانے کے بعد بلا تاخیر ملی کارناموں میں مصروف ہو گئے تھے اور اولاً اسلامی غزوات میں شریک ہو کر دیگر صحابہ کرامؓ کی
طرح غنائم سے وافر حصہ حاصل کیا اور ان سے منتفع ہوۓ ۔ غزوہ حنین کے شرکاء کے لیے قرآن مجید میں ان کے استعجاب کثرت پر تنبیہ کا ذکر ہے لیکن پھر ساتھ ہی اللہ کریم جل مجدہ کی جانب سے اپنے پیغمبر کریم ﷺ اور مومنین پر نزول سکینہ بیان فرمائی گئی ہے اور غیر مرئی (فوج ملائکہ ) کے نزول کا بیان فرمایا گیا ہے۔ اس میں ایمان والوں کے لیے عمدہ فضیلت مذکور ہے۔ اور جو صحابہ کرامؓ اس وقت غزوہ حنین میں شریک ہوئے تھے ان میں حضرت یزیدؓ بن ابی سفیان ؓ اور ان کے والد حضرت ابو سفیانؓ اور ان کے برادر خورد حضرت امیر معاویہؓ بر سه 3 حضرات شامل و شریک تھے۔
فلهذا یہ حضرات بھی اس موقع کی خیر و برکت اور فضیلت کی اشیاء سےکاملاً منتفع ہوئے ۔
3) سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیان ؓ کو کاتبان نبویﷺ میں شامل ہونے کا بھی شرف حاصل ہوا اور منصب کتابت سے نوازے گئے۔
4)اور سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ عہد نبویﷺ میں بعض قبائل کے لیے امیر و عامل بناۓ گئے ۔
5) نیز عہد رسالت میں انؓ پر پورا اعتماد کیا جاتا تھا اور آپ ایک اہم ذمہ دار شخصیت تھے ۔ اس بنا پر نبی کریم ﷺ کے ملاقاتیوں کو بعض دفعہ ان کے پاس ٹھہرایا جاتا تھا۔ یہ اعزاز بھی یزیدؓ بن ابی سفیانؓ کو حاصل ہوا ۔
6) روایت حدیث نبویﷺ کی فضیلت بھی انؓ کو حاصل ہوئی اور اس شرف سے مشرف ہوۓ۔
7) علاقہ شام میں افواج اسلامی کے امیر بن کر فتوحات کثیرہ کے باعث ہوۓ اور وہاں فروغ اسلام کے لیے بے شمار اہم خدمات سرانجام دیں اور اشاعت دین کا اہتمام کیا۔ ان چیزوں کا ذکر تاریخی کتب میں تفصیلات کے ساتھ موجود ہے اور مختصر سے حالات ہم نے بھی ذکر کر دیے ہیں۔ دور صدیقیؓ اور دور فاروقیؓ دونوں ایام میں موصوف کے ملی کارنامے قابل ستائیش ہیں۔
8) دین اور اسلام کے احیاء اور فروغ میں ہی سیدنا"یزیدؓ الخیر" کی زندگی کا خاتمہ بالخیر ہوا اور طاعون کی بیماری سے شرف شہادت حاصل کیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ اول سے آخر تک اپنی تمام عمر انہوں نے دینی خدمات میں اور اپنے اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کی رضا جوئی کے لیے صرف کر دی۔ یہ بخت اور نصیب انہی حضرات کا حصہ تھا۔ (رضی اللہ تعالی عنهم اجمعین) لہذا یہ حضرات اسلام میں اپنے مرتبہ و مقام کے اعتبار سے مدح و ستائش کے لائق ہیں نہ کہ نفریت و مذمت کے قابل۔ اور ان تمام امور فضیلت اور ملی کارناموں کے باوجود اگر بعض لوگوں کو یہ حضرات اسلام کے دشمن نظر آتے ہیں تو یہ ان کی نظر و فکر کا قصور ہے یہ مجاہدین اسلام کا قصور نہیں۔ خوب غور فرمائیں۔
ادارہ دارالتحقیق و دفاع صحابہؓ