حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: یہ قرآن سات حروف پر نازل کیا گیا ہے، پس جو ان میں سے تمہارے لیے آسان ہو، اس طریقے پر پڑھا کرو۔
یہ حدیث متواتر ہے یہ حدیث معنی کے اعتبار سے متواتر ہے۔چنانچہ حدیث وقراءت کے معروف امام علامہ محمد بن محمد الجزری رحمہ اللہ [م833ھ] فرماتے ہیں:
”مشہورمحدث امام ابو عبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ نے اس کے متواتر ہونےکی تصریح کی ہے اور فرماتے ہیں:
میں نے ایک مستقل جزء میں اس حدیث کے تمام طرق جمع کئے ہیں، ان کے مطابق یہ حدیث 19 صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین سے مروی ہے ۔“
امام ابو یعلی الموصلی رحمہ اللہ نے اپنی مسند کبیر میں ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے منبر پر اعلان فرمایا : وہ تمام حضرات کھڑے ہو جائیں جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہو:
[ کہ قرآن کریم سات حروف پر نازل کیا گیا ہے، جن میں ہر ایک شافی اور کافی ہے] چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی اتنی بڑی جماعت کھڑی ہو گئی جسے شمار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس پر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں بھی ان کے ساتھ گواہی دیتا ہوں۔
سبعہ احرف سے مراد: حدیث میں ”حروف کے اختلاف“ سے مراد ”قراءتوں کا اختلاف“ ہے اور سات حروف سے مراد ”اختلاف قراءات“ کی سات نوعیتیں ہیں، چنانچہ قراءتیں تو اگرچہ سات سے زائد ہیں لیکن ان قراءتوں میں جو اختلاف پائے جاتے ہیں وہ سات اقسام میں منحصر ہیں۔ یہ قول امام مالک، امام ابو الفضل رازی، قاضی ابو بکر بن الطیب باقلانی اور ابن جزری کا ہے۔
حتیٰ کہ محقق ابن جزری جو فنِ قراۃ کے مشہور امام ہیں، اس قول کو بیان کرنے سے قبل فرماتے ہیں :
کہ میں اس حدیث کے بارے میں اشکالات میں مبتلا رہا اور اس پر تیس سال سے زیادہ غور وفکر کرتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اس کی ایسی تشریح کھول دی جو ان شاء اللہ صحیح ہو گی ۔ یہ سب حضرات اس بات پر تو متفق ہیں کہ حدیث میں ”سات حروف“ سے مراد اختلاف قراءت کی سات نوعیتیں ہیں لیکن پھر ان نوعیتوں کی تعیین میں ان حضرات کے اقوال میں تھوڑا تھوڑا فرق ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ایک نے قراءات میں اختلاف کی نوعیتوں کا استقرء اپنے طور پر الگ الگ کیا ہےمگر سب سے زیادہ منضبط ، مستحکم اور جامع مانع قول امام ابو الفضل رازی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ قراءات کا اختلاف سات اقسام میں منحصر ہے ۔
1: اسماء کا اختلاف جس میں افراد ،تثنیہ ،جمع، اور تذکیر وتانیث دونوں کا اختلاف داخل ہے۔ اس کی مثال سورت الانعام آیت نمبر 115
ہے جو ایک قراۃ میں
بھی پڑھا گیا ہے۔
2: افعال کا اختلاف کہ کسی قراۃ میں صیغہ ماضی ہو، کسی میں مضارع اور کسی میں امر ۔ اس کی مثال سورت سبا آیت
ہے، کہ ایک قراۃ میں اس کی جگہ
بھی آیا ہے۔
3: وجوہ اعراب کا اختلاف کہ جس میں اعراب یا حرکات مختلف قراتوں میں مختلف ہو ں اسکی مثال سورت البقرۃ آیت
اور
اور سورت البروج آیت نمبر 115
اور
4: الفاظ کی کمی بیشی کا اختلاف، کہ ایک قراۃ میں کوئی لفظ کم اور دوسری میں زیادہ ہو مثلا سورت اللیل آیت نمبر 3 کی ایک قراۃ میں
ہے اور دوسری میں
ہے اور اس میں
کا لفظ نہیں ہے، اس طرح سورت توبہ آیت نمبر 100 کی ایک قراۃ میں
اور دوسری میں
5: تقدیم تاخیر کا اختلاف، کہ ایک قراءۃ میں کوئی لفظ مقدم اور کوئی موخر ہو، مثلاً سورت ق آیت
اور
6: بدلیت کا اختلاف، کہ ایک قراءۃ میں ایک لفظ ہے اور دوسری قراۃ میں اس کی جگہ دوسرا لفظ ۔مثلاً سورت البقرۃ آیت
میں لفظ
اور
،نیز سورت الحجرات آیت نمبر 6
میں لفظ
اور
اور سورت الواقعہ آیت
میں لفظ
اور
7: لہجوں کا اختلاف جس میں تفخیم ،ترقیق،امالہ،قصر،مد ،اظہاراور ادغام وغیرہ کے اختلافات شامل ہیں۔مثلاً مُوْسیٰ ایک قراءۃ میں اِمالہ کے ساتھ ہے اور اسے مُوْسَیْ کی طرح پڑھا جاتا ہے اور دوسری میں بغیر امالہ کے ہے۔