اہل سنت و الجماعت کے ہاں یہ طے شدہ ہے کہ فضیلت میں تمام صحابہ کرام برابر ہیں ؛ مگر ان کے درمیان افضلیت کا فرق ہے۔ ان میں سے بعض کو ایسی افضیلت حاصل ہے جس سے دوسرے کی فضیلت میں کچھ کمی نہیں آتی۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں مطلق طور پر عشرہ مبشرہ افضل ہیں ۔ان میں سے چار حضرات خلفائے راشدین ہیں اور چھ ان کے علاوہ ہیں ۔ان میں حضرت سعید حضرت سعدحضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت طلحہ حضرت عامر اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم شامل ہیں ۔
ان عشرہ مبشرہ میں سے افضل چاروں خلفائے راشدین ہیں اور ان کی افضلیت کی ترتیب خلافت کی ترتیب کے اعتبار سے ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرات شیخین جناب ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کا مقام و مرتبہ ان چاروں میں سے بلند و بالا ہے۔ یہ حضرات علی الاطلاق انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد افضل ترین ہستیاں ہیں ۔ان دو میں سے بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مقام زیادہ بلند و بالا ہے۔
یہاں پر ایک بہت ہی عمدہ عقیدہ اور ایک سنہری قول ذکر کرنا ضروری ہے جو کہ سادات اہل بیت کے سردار جناب حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ سے منقول ہے ۔ آپ فرماتے ہیں :
’’ جو کوئی ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی فضیلت نہیں پہچانتا تو وہ سنت سے جاہل ہے۔‘‘
امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما سے محبت رکھنا اور ان کی فضیلت کی معرفت حاصل کرنا سنت میں سے ہے ۔‘‘
اہل علم کی ایک جماعت جیسا کہ ابن کثیر رحمہ اللہ اور ابن صلاح رحمہ اللہ اور امام نووی رحمہ اللہ نے ایسے ہی لکھا ہے۔
بعض علمائے کرام نے اہل بیعت رضوان کو اہل احد سے مقدم کیا ہے اوربعض نے اہل احد کے بعد ان لوگوں کو شمار کیا ہے جو غزوہ خندق میں ثابت قدم رہے؛ اورپھر بیعت رضوان والوں کو شمارکیا ہے۔
اہل سنت و الجماعت اجمالی طور پر کہتے ہیں : ’’مہاجرین انصار سے افضل ہیں اور سابقین اولین صحابہ رضی اللہ عنہم بعد میں آنے والوں سے افضل ہیں ۔‘‘
جہاں تک حضرات صحابیات رضی اللہ عنہم کا تعلق ہے؛ ان میں سب سے افضل تین ہیں : حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’اس امت کی افضل ترین عورتیں سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا، سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں ۔ ان کو آپس میں ایک دوسری پر فضیلت دینے میں اختلاف اور لمبی تفصیل ہے۔‘‘
یہاں پر یہ جاننابہت ضروری ہے کہ جمہور اہل علم کہتے ہیں :
’’صحابہ میں سے ہر ایک بعد میں آنے والے ہر ایک سے افضل ہے اور اس کے خلاف بھی کیسے سوچا جا سکتا ہے؟ جب کہ یہی تو وہ لوگ ہیں جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی۔ [اور اپنا تن من دھن ایسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اخلاص کی بناپر فرمایا] ’’ اگر ان کے بعد آنے والے احد پہاڑ کے برابر سونا بھی اللہ کی راہ میں خرچ کردیں تو ان کے خرچ کردہ ایک مٹھی برابر جو ؛ یا اس کے آدھے حصے کے ثواب کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔تو پھر ان کی باقی نمازوں ؛ صدقات اور جہاد اور باقی اعمال کا کیا عالم ہو گا۔‘‘
اور اس کے خلاف تصور بھی کیسے کیا جاسکتا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں فرماتے ہیں :
’’ لیکن اللہ نے تمھارے لیے ایمان کو محبوب بنا دیا اور اسے تمھارے دلوں میں مزین کر دیا اور اس
نے کفر اور گناہ اور نافرمانی کو تمھارے لیے ناپسندیدہ بنا دیا، یہی لوگ ہدایت والے ہیں ۔‘‘
[مصنف استاد محترم نے آیت کا آخری حصہ
بطور استشہاد پیش کیا تھا۔ میں نے آیت کے مضمون کا متعلقہ حصہ اہمیت کی وجہ سے مکمل کردیا ہے۔]
امام ابن بطہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اور تمام اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے مراتب اور منازل کے مطابق درجہ بدرجہ محبت کی جائے گی۔ جیسے اھل بدر ‘ حدیبیہ ‘ اور بیعت ِ رضوان ‘ اور أصحاب ِ احد ۔ یہ اعلی فضائل والے لوگ ہیں اور ان کی منزلت اونچی ہے۔ جن کو ہر میدان میں سبقت حاصل ہے ۔ اللہ ان سب پر رحم کرے ۔‘‘
اور فرمان الٰہی ہے:
’’اور ہر ایک سے اللہ نے بھلائی کا وعدہ کیا ہے۔‘‘
اس کے خلاف تصور بھی کیسے کیا جاسکتا ہے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے ہیں :
’’بہترین لوگ میرے زمانہ کے لوگ ہیں ۔‘‘
[تخریج گزرچکی ہے]
حضرت معافی بن عمران رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:حضرت عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے مقابلہ میں حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کا کیا مقام ہے؟ تو آپ اس سوال پر شدید غصہ ہوگئے؛ اور فرمانے لگے:
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ادنی صحابی پر بھی کسی کو قیاس نہیں کیا جاسکتا ؛ تو پھرامیر معاویہ کا کیا سوال؟ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سسرالی رشتہ دار [سالے] ہیں ؛ آپ کے صحابی اور کاتب وحی ہیں ؛ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی وحی پر آپ کے امین ہیں ۔‘‘
حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام پر کسی ایک کو قیاس کیا جاسکتا ہے ؟تو آپ فرمانے لگے:
’’معاذ اللہ ! حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے بدرجہا افضل ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’بہترین لوگ میرے زمانہ کے لوگ ہیں ۔‘‘
[حدیث کی تخریج گزرچکی ہے؛ مزید دیکھیں :
مزید آپ فرماتے ہیں :
’’ ایک ادنیٰ صحابی بھی بعد میں آنے والی صدی کے ان لوگوں سے بہتر ہے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا؛ اگرچہ وہ اپنے سارے اعمال لے کر اللہ کی بارگاہ میں پہنچ جائیں ۔‘‘
اگر یہ کہا جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی کیا تو جیہ ہوگی؟
[آپ کافرمان ہے:]
’’بیشک تمہارے پیچھے ایسے ایام ہیں جن میں صبر کرنا ایسے ہے جیسے انگارے کو پکڑ لینا۔ان ایام میں نیک اعمال کرنے والے کا اجر ایسے ہی ہوگا جیسے اس جیسے نیک اعمال کرنے والے پچاس افراد کا عمل۔‘‘ تو صحابہ نے عرض کیا: کیا ان میں سے پچاس نیک افراد کا عمل ؟تو آپ نے فرمایا: ’’تم میں سے پچاس افراد۔‘‘
اورکہاہے:یہ حدیث حسن غریب ہے۔
جواب:.... یہ فضیلت ایک متعین معاملہ میں ہے؛ اس سے مطلقاً فضیلت ثابت نہیں ہوتی اور وہ معاملہ یہ ہے کہ ان دنوں میں صبر کرنے والے کا اجر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے پچاس صبر کرنے والوں کے اجر کے برابر ہے۔پس پتا چلا یہ ایک خاص فضیلت ہے جو کہ ایک متعین مسئلہ میں ہے۔ یہ فضیلت مطلق طور پر نہیں ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’یہ حدیث کہ ’’ان میں سے ایک عامل کااجر تم میں سے پچاس کے اجر کے برابر ہوگا۔‘‘اس میں کسی غیر صحابی کی صحابی پر فضیلت کی کوئی دلیل نہیں ۔اس لیے کہ صرف اجر زیادہ ہونے کے ثبوت سے مطلق طورپر افضلیت کا ثبوت لازم نہیں آتا۔ نیز یہ کہ اجر میں تفاضل اس جیسے عمل کی نسبت سے ہوتا ہے۔ جب کہ وہ لوگ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی سعادت حاصل کرپائے ہیں ؛ کوئی فضیلت اس سعادت کا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔‘‘