[یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تمام کے تمام عادل اور باقی امت کے تمام لوگوں سے افضل ہیں ؛اوروہ اس امت کے چنیدہ و برگزیدہ لوگ تھے؛ جو کہ ایمان میں کامل اور حق و صواب کے سب سے زیادہ قریب تھے] ۔پوری امت میں فضیلت ؛نیکی اور درست رائے میں کوئی دوسرا صحابہ جیسا نہیں ۔
اس عقیدہ پر تمام اہل اسلام کا اجماع ہے۔اور اس بارے میں ان بھٹکے ہوئے گمراہ اہل بدعت فرقوں کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں جو اس سے اختلاف رکھتے ہیں ۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اپنے قصیدہ نونیہ میں فرماتے ہیں :
’’ تمام علمائے کرام کااجماع ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انسانیت کے سب سے بہترین لوگ تھے۔یہ عقیدہ ضروری طور پر معلوم ہے‘ اور اس میں دو انسانوں کے مابین بھی کوئی اختلاف نہیں اور نہ ہی کوئی دوسرا قول نقل کیا گیا ہے ۔‘‘
اہل سنت والجماعت کا اجتماعی عقیدہ ہے کہ تمام صحابہ کرام عادل ہیں :ان کی عدالت کے متعلق پوچھ گچھ یا سوال کرنا جائز نہیں ۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :تمام صحابہ رضی اللہ عنہم عدول ہیں ۔ وہ بھی جو فتنوں میں مبتلا ہوئے اور دوسرے بھی۔اس پر تمام معتمد علما کا اجماع ہے۔
حافظ ابن صلاح رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’تمام امت کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عادل ہونے پر اتفاق ہے وہ صحابہ بھی عادل ہیں جو کہ فتنوں میں مبتلا ہوئے [اوردوسرے بھی] ۔
علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عدالت اللہ اور اس کے رسول سے ثابت ہے ۔ اب ان کے متعلق کسی سے سوال کرنے کی ضرورت نہیں ۔ عدالت کاسوال ان کے بعد کے لوگوں کے متعلق کیا جائے گا۔
اہل ِ سنت والجماعت کا ان سے محبت اور دوستی رکھنے پر اتفاق ہے اور اس میں اہل ِ بدعت کے علاوہ کوئی اس عقیدہ کا مخالف نہیں ہے ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل کے دلائل بہت زیادہ ہیں ۔ کتاب اللہ اس بزرگ جماعت کی مدح و تعریف میں خوشبوؤں کے جھونکے بکھیر رہی ہے۔اس لیے کہ دلوں کے راز جاننے والے اللہ تعالیٰ علام الغیوب اور علیم بذات الصدور کو ان کی صداقت اور ایمان کی درستگی، خالص محبت، وافر عقل پختہ رائے اور کمال خیر خواہی امانت داری اور اصلاح کا علم تھا۔
ان قرآنی دلائل میں سے ایک یہ فرمان الٰہی ہے:
’’اور مہاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے سب سے پہلے لوگ اور وہ لوگ جو نیکی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ؛یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘
سورۂ انفال میں فرمان الٰہی ہے:
’’بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے ہجرت کی اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کیا اور وہ لوگ جنھوں نے جگہ دی اور مدد کی، یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔‘‘
یہاں تک کہ آگے چل کر فرمایا:
’’اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے جگہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں ، انھی کے لیے بڑی بخشش اور باعزت رزق ہے۔‘‘
اور فرمان الٰہی ہے:
’’بلاشبہ یقیناً اللہ نے نبی پر مہربانی کے ساتھ توجہ فرمائی اور مہاجرین و انصار پر بھی، جو تنگ دستی کی گھڑی میں اس کے ساتھ رہے، اس کے بعد کہ قریب تھا کہ ان میں سے ایک گروہ کے دل ٹیڑھے ہو جائیں ، پھر وہ ان پر دوبارہ مہربان ہوگیا۔ یقیناً وہ ان پر بہت شفقت کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘
اور ایسے ہی اللہ تعالیٰ کا ایک فرمان یہ بھی ہے:
’’محمد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہیں اور وہ لوگ جوآپ کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر بہت سخت ہیں ، آپس میں نہایت رحم دل ہیں ،آپ انھیں اس حال میں دیکھیں گے کہ وہ رکوع اور سجدے کرنے والے ہیں ، اپنے رب کا فضل اور (اس کی)رضا ڈھونڈتے ہیں ، ان کی شناخت ان کے چہروں میں (موجود) ہے، سجدے کرنے کے اثر سے۔ یہ ان کا وصف تورات میں ہے اور انجیل میں ان کا وصف اس کھیتی کی طرح ہے جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اسے مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوئی، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئی، کاشت کرنے والوں کو خوش کرتی ہے، تاکہ وہ ان کے ذریعے کافروں کو غصہ دلائے، اللہ نے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے بڑی بخشش اور بہت بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:
’’جس دن اللہ تعالیٰ نبی کو اوران کے ساتھ اہل ایمان کو، رسوا نہیں کرے گاان کا نور ان کے آگے اور ان کی دائیں دوڑ رہا ہو گا وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! ہمارے لیے ہمارا نور پورا کر اور ہمیں بخش دے، یقیناً تو ہر چیز پرقادر ہے ۔‘‘
فرمان الٰہی ہے:
’’اور جان لو کہ بے شک تم میں اللہ کا رسول ہے، اگر وہ بہت سے امور میں تمھارا کہا مان لے تو یقیناً تم مشکل میں پڑ جاؤ اور لیکن اللہ نے تمھارے لیے ایمان کو محبوب بنا دیا اور اسے تمھارے دلوں میں مزین کر دیا اور اس نے کفر اور گناہ اور نافرمانی کو تمھارے لیے ناپسندیدہ بنا دیا، یہی لوگ ہدایت والے ہیں ۔اللہ کی طرف سے فضل اور نعمت کی وجہ سے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔‘‘
اور فرمان الٰہی ہے:
’’ تم میں سے جس نے فتح سے پہلے خرچ کیا اور جنگ کی وہ برابر نہیں ۔ یہ لوگ درجے میں ان لوگوں سے بڑے ہیں جنھوں نے بعد میں خرچ کیا اور جنگ کی اور ان سب سے اللہ نے اچھی جزا کا وعدہ کیا ہے اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو، خوب باخبر ہے۔‘‘
اور فرمان الٰہی ہے:
’’فرما دیجیے سب تعریف اللہ کے لیے ہے اور سلام ہے اس کے ان بندوں پر جنھیں اس نے چن لیا۔ کیا اللہ بہتر ہے، یا وہ جنھیں یہ شریک ٹھہراتے ہیں ؟
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ کی تفسیر کے مطابق اس آیت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں ۔
اورفرمان الٰہی ہے:
’’تم سب سے بہتر امت چلے آئے ہو، جو لوگوں کے لیے نکالی گئی، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ۔‘‘
اس آیت سے استدلال کی وجہ صاف ظاہر ہے ۔ یاتو اس سے صحابہ کرام متعین طور پر مراد ہیں ؛ یا پھر اس آیت میں اس پوری امت کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور اگر پوری امت کی فضیلت ہے تو پھر اس میں سب سے پہلا شمار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ہی ہوگا۔
اور فرمان الٰہی ہے:
’’اور اسی طرح ہم نے تمھیں سب سے بہتر امت بنایا، تاکہ تم لوگوں پر شہادت دینے والے بنو اور رسول تم پر شہادت دینے والا بنے ۔‘‘
اس آیت سے استدلال بھی سابقہ آیت کی طرح ہے۔بلکہ ہر وہ آیت اور حدیث جس میں اس امت کی فضیلت بیان ہوئی ہے؛اس میں سب سے پہلے اور بدرجہ اولیٰ داخل ہونے والی جما عت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ہے۔ جب کہ حدیث شریف میں بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عظمت کھلے الفاظ میں بیان ہوئی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ستارے آسمان کے لیے باعث امن ہیں جب ستارے رخصت ہو جائیں گے تو آسمان سے جس چیز کا وعدہ کیا گیا ہے وہ پورا کر دیا جائے گا۔ا سی طرح میری ذات صحابہ کے لیے باعث امن وسکون ہے جب میں نہیں ہوں گا تو صحابہ موعود مصائب سے دوچار ہوجائیں گے۔ میرے صحابہ میری امت کے لیے باعث امن ہیں جب میرے صحابہ رخصت ہو جائیں گے تو امن و امان اٹھ جائے گا۔‘‘
امام ابوالعباس ؛قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’اس سے مراد یہ ہے کہ جب تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم موجود رہیں گے تو دین قائم رہے گا؛اور حق کو غلبہ و استحکام نصیب ہوگا؛دشمنوں پر فتح و نصرت ملتی رہے گی۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم چلے جائیں گے تو أھواء پرستی کادور دورا ہوجائے گا اور دشمن کے دن پھر جائیں گے اور اس دین میں کمی آتی رہے گی۔حتی کہ حالت یہ ہوجائے گی کہ زمین پر اللہ تعالیٰ کا نام لینے والا کوئی باقی نہیں رہے گا۔ یہی وہ چیز ہے جس کا اس امت سے وعدہ کیا گیا ہے ۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
’’میرے صحابہ کو گالی مت دو۔ اگر تم میں سے کوئی ایک احد پہاڑ کے برابر سونا بھی خرچ کردے‘وہ ان میں سے کسی ایک کی مٹھی یا اس کے آدھے کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔‘‘
[بخاری]
علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر بہت خوبصورت تبصرہ کیا ہے‘ فرماتے ہیں :
’’اس حدیث میں مخاطب لوگ جو کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد آنے والے ہیں ؛ان کا احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرنا بھی اپنے متقدمین کی ایک یا آدھی مٹھی جو کے خرچ کو نہیں پہنچ سکتی تو
ہمارے دور کے لوگوں کے بارے میں میرا خیال نہیں کہ ہمارا احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرنا ان کے ایک دانہ یا آدھے دانہ کے خرچ کے برابر ثواب کو پہنچ سکتا ہو۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ بہترین لوگ میرے زمانہ کے لوگ ہیں ۔ پھر جو ان کے بعد آئیں گے اور پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عدالت اور ان کے بہترین لوگ ہونے کے وصف پر یہ گواہی اس زبان سے مل رہی ہے جو اپنی مرضی سے بات تک نہیں کرتی ؛وہ مبارک زبان جب گفتگو کرتی ہے تو اس سے وحی کے پھول جھڑتے ہیں ۔ اب اس گواہی سے بڑھ کر کس کی گواہی اور کون سی تعدیل ہوسکتی ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کایہ قول کتنا ہی خوبصورت ہے ؛آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعریف اور تعارف میں فرماتے ہیں :
’’ اے لوگو! تم میں سے جو کوئی سنت اختیار کرنا چاہتا ہو‘اسے چاہیے کہ ان لوگوں کی راہ پر چلے جو وفات پاچکے ہیں ۔ اس لیے کہ زندہ کو فتنہ سے محفوظ نہیں سمجھا جاسکتا ۔ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہیں جو تمام امت سے افضل لوگ ہیں ۔ان کے دل سب سے نیک تھے ۔ ان کا علم سب سے پختہ اور گہرا تھا؛ اور تکلف بالکل نہیں کرتے تھے۔وہ ایسے لوگ تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی صحبت اور اس کے دین کی اقامت کے لیے چن لیا تھا۔ان کی فضیلت کو پہچانو؛ او ر ان کے آثار کی پیروی کرو اور اگر تم استطاعت رکھو تو ان کے اخلاق اور دین کومضبوطی سے پکڑے رہو۔ بیشک وہ لوگ صراط مستقیم پر قائم تھے۔‘‘
اگر منصف انسان انتہائی انصاف پسندی کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اوصاف و خصائل و شمائل پر غور و فکر کرے گا تو پتہ چلے گاکہ حقیقت میں یہ مقدس جماعت علم و فضل؛ عدل و انصاف؛ جہاد و قتال اور خیر و بھلائی کے ہر کام میں سبقت لے گئے تھے۔یہ اپنے سے پہلے والوں پر بھی سبقت لے گئے‘ اور بعد میں آنے والوں پر بھی اور دُوردُور تک اور رہتی دنیا تک ان کی فضیلت و برتری کا ڈنکا بجتا رہے گا۔ یہی جماعت تھی جن کی وجہ سے اسلام ہم تک پہنچا۔ہر خیر و بھلائی اورہدایت کی بات کی تعلیم اور سعادت و نجات کے حصول کا سبب یہی جماعت تھی۔ امت قیامت تک ان کے عدل و جہاد اور علم کے آثارپر کاربند رہے گی۔ کوئی بھی انسان کوئی علمی مسئلہ یا خیر و بھلائی کی بات ان کے علاوہ کہیں نہیں پاسکتا۔ یہ چیزیں تو ان کے ذریعہ سے ہی ہم تک پہنچی ہیں ۔زمین کے جس کسی کونے میں امن و امان ہے تو وہ ان کے جہاد اور فتوحات کے سبب سے ہے۔ کوئی بھی حاکم یا امام ان کی راہ چھوڑ کر عدل و انصاف سے فیصلہ نہیں کرسکتا؛ کیونکہ اس خیر و بھلائی کے امور ان تک پہنچنے میں اصل سبب یہی جماعت تھی۔یہی تو وہ لوگ تھے جنہوں نے اگر شہروں کو تلواروں سے فتح کیا تو دلوں کو ایمان سے فتح کیا۔ شہروں اور ملکوں کو عدل و انصاف سے بھر دیا۔ دلوں کو علم و ہدایت سے معمور کردیا۔ پس ان کے بعد آنے والے نیکی وبھلائی کے جتنے بھی کام کریں گے ؛ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کے ساتھ اس نیک عمل میں برابر کے شریک ہیں ۔اور ان کا یہ اجر قیامت تک بڑھتا ہی رہے گا۔ پس تمام تر تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو اپنی رحمت کے ساتھ جنہیں چاہتا ہے خاص کر دیتا ہے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کتنی ہی خوبصورت بات کہی ہے؛ فرماتے ہیں :
’’جو کوئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت کو علم و بصیرت کے ساتھ دیکھے گا کہ ان پر اللہ تعالیٰ نے کتنے ہی فضائل انعام کیے تھے؛تو اسے پختہ یقین ہوجائے گا کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد سب سے بہترین اور افضل ترین لوگ یہی ہیں ۔نہ ہی کوئی ان جیسا تھا اور نہ ہی ہوگا۔وہ اس امت کے انتہائی بزرگ اورچنیدہ لوگوں میں سے تھے جس امت کو اللہ تعالیٰ نے بہترین اور عزت والی امت بنایا ہے ۔‘‘
اس عالیشان فضیلت اور بلند مرتبت کی وجہ سے اہل سنت والجماعت یک زبان ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تمام کے تمام عادل ہیں ؛ان میں سے کسی ایک پر بھی جرح نہیں کی جاسکتی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی قدر کسی بھی جرح و قدح یا عیب اور طعن سے پاک کر دی تھی۔ یہ تمام کے تمام اس امت کے سردار اور قائد ہیں ۔یہ بات اس سے بھی پتا چلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو شرف صحبت کے لیے چن لیا تھا اور پھر ان کے پاکیزہ اور پاکباز ہونے کی خبر بھی تھی۔ یہی لوگ خیر القرون تھے اور وہ بہترین امت تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی بھلائی کے لیے پیدا کیا تھا۔ اس سے بڑی تعدیل کوئی نہیں ہوسکتی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے نبی کے ساتھی بنانے اور آپ کی نصرت کا حق ادا کرنے کے لیے چن لیا تھا۔ اس سے بڑھ کر نہ ہی کسی کا کوئی تزکیہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس سے زیادہ کامل کسی کی کوئی تعدیل ہوسکتی ہے۔‘‘
علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’بلا شبہ ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے احوال کے متعلق بحث کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اس لیے کہ اہل حق اہل سنت و الجماعت کا اجماع ہے کہ تمام کے تمام صحابہ عادل ہیں ۔‘‘
محدث علامہ سلیمان العلوان اپنی کتاب
20 پر] فرماتے ہیں :’’بعض خواہشات نفس کے مارے ہوئے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ صحابیت صرف ایک مہاجر اور ایک انصاری کے لیے ثابت ہوتی ہے۔ تو اس صورت میں بعد میں آنے والوں کی عدالت صرف اسی طرح ثابت ہوسکتی ہے جس طرح کہ تابعین اور بعد میں آنے والے دوسرے لوگوں کی عدالت ثابت ہوتی ہے۔یہ بہت بڑی غلط بیانی ہے۔ اہل سنت و الجماعت میں سے کسی ایک نے بھی ایسی کوئی بات نہیں کہی۔‘‘]