اہل سنت والجماعت اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی کے لیے اصحاب و اہل بیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی اور مخلصانہ محبت رکھتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ جو کوئی ان سے محبت اور دوستی رکھے؛ ان کے حقوق کا خیال رکھے اور ان کی فضیلت کا اعتراف کرے؛ وہ بھی کامیاب ہونے والوں کے ساتھ کامیاب ہوجائے گا اور جو کوئی ان سے بغض رکھے؛ اس قدسی جماعت پر سب و شتم کرے اور ان کی طرف ایسی چیزیں منسوب کرے جو کہ دین اسلام کے دشمن ان پر الزام لگاتے ہیں تو وہ بھی ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ہلاک ہوجائے گا۔
اس کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے:
’’اور جو ان کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جنھوں نے ایمان لانے میں ہم سے پہل کی اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے لیے کوئی کینہ نہ رکھ جو ایمان لائے، اے ہمارے رب! یقیناً تو بے حد شفقت کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘
صحیحین میں ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ ایمان کی نشانی انصار سے محبت اور نفاق کی نشانی انصار سے بغض و عداوت ہے ۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی ایک احادیث میں ان سے محبت کے واجب ہونے کا حکم دیا ہے اوریہ بھی بتایا ہے کہ ان [صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ] کی محبت ایمان کی نشانی ہے ، اور ان سے بغض و نفرت منافق ہونے کی نشانی ہے۔
جب انصار کے حق میں یہ بات ثابت ہوگئی تو بلاشبہ مہاجرین اس کے زیادہ حق دار اور درجہ میں اولویت رکھتے ہیں ۔ اس لیے کہ اجمالی طور پر مہاجرین انصار سے افضل ہیں ۔ کیونکہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی نصرت بھی ہر طرح سے کی ہے اور آپ کی خاطر اپنے گھربار کو چھوڑ کر ہجرت بھی کی ہے۔
’’ انصار سے مؤمن کے علاوہ کوئی بھی محبت نہیں کرسکتا ؛ اور منافق کے علاوہ کوئی بھی ان سے بغض نہیں رکھ سکتا۔ جس نے ان سے محبت کی ، اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتے ہیں ، اور جس نے ان سے بغض رکھا ،اللہ تعالیٰ اس سے بغض رکھتے ہیں ۔‘‘
اورصحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ جو انسان اللہ تعالیٰ پر او رآخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، وہ انصار سے بغض نہیں رکھ سکتا ۔‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اس ذات کی قسم ! جس نے دانے کو پھاڑا ؛ اورنفس [جان] کو پیدا کیا !بیشک نبی أمی صلی اللہ علیہ وسلم کامیرے ساتھ یہ عہد ہے ، مجھ سے مؤمن کے علاوہ کوئی محبت نہیں کرے گا اور منافق کے علاوہ کوئی بغض نہیں رکھے گا۔‘‘
ان نصوص کی بناپر ؛اور ان کے علاوہ وہ نصوص جو اس معنی میں آئی ہیں ؛ [ان کی بناپر] اہل سنت و الجماعت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے ہیں اور ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے اوراسی بات کا انہوں نے اپنے اقوال اور کتب میں حکم دیا ہے ۔
کتاب و سنت کے وہ تمام دلائل جو کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کی جانے والی محبت کی فضیلت پر دلالت کرتے ہیں ؛ وہ تمام اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر بھی دلالت کرتے ہیں ؛ اس لیے کہ وہ تمام لوگوں سے بڑھ کر اس محبت اور دوستی کے حق دار ہیں ۔
امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے محبت کرتے ہیں ‘ اور ان میں سے کسی ایک کی محبت میں افراط سے کام نہیں لیتے اور نہ ہی ان میں سے کسی ایک سے برأت کا اظہار کرتے ہیں اور جو کوئی ان سے بغض رکھتا ہے ‘ یا انہیں اچھے لفظوں میں یاد نہیں کرتا ہم اس سے بغض رکھتے ہیں ۔ ان کی محبت دین، ایمان اور احسان ہے اور ان سے بغض رکھنا : کفر ‘ نفاق ‘ اور سر کشی ہے ۔‘‘ [العقیدۃ الطحاویہ مع شرحہا لابن ابی العز : ص: ۶۸۹۔]
یہاں پر اس سلسلہ میں ایک بہت ہی لطیف اور عمدہ قول نقل کیا جا رہا ہے ۔امام لالکائی نے امام مالک رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے ؛ [وہ فرماتے ہیں ] :
’’ سلف صالحین اپنے بچوں کوحضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے محبت کرنا ایسے سکھاتے تھے جیسے قرآن کی سورت سکھائی جاتی ہے ۔‘‘
امام ابو نعیم نے اپنی کتاب ’’الحلیۃ‘‘ میں حضرت بشر بن حارث رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے‘ آپ فرمایا کرتے تھے:
’’اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں میرا سب سے زیادہ پختہ [اور پر امید ] عمل أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہے ۔‘‘
حضرت بشر بن حارث رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میں نے مالک بن مغول رحمہ اللہ سے کہا : مجھے وصیت کیجیے ۔ فرمایا: ’’میں تمہیں جناب شیخین حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما سے محبت کی وصیت کرتا ہوں ۔‘‘ کہتے ہیں میں نے [پھر دوبارہ] کہا: مجھے وصیت کیجیے ۔ فرمایا: ’’میں تمہیں جناب شیخین حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما سے محبت کی وصیت کرتا ہوں ۔‘‘ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے اس سے بہت زیادہ بھلائی عطا کی ہے ؟ فرمایا: ’’ ہاں ؛ اللہ کی قسم ! میں تمہارے لیے ان دونوں حضرات کی محبت پر وہ [انعام و بدلہ ملنے کی] امید کرتا ہوں ، جس انعام وبدلے کی امید تمہارے لیے توحید بجالانے پر کی جاسکتی ہے۔ ‘‘
نیز آپ نے حضرت شعیب بن حرب رحمہ اللہ سے یہ بھی روایت کیا ہے؛ فرمایا:
’’عاصم بن محمد رحمہ اللہ کی مجلس میں حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ کا ذکر کیا گیا؛ اور ان کے مناقب شمار کیے جانے لگے ۔ یہاں تک کہ تقریباً پندرہ مناقب شمار کیے گئے تو عاصم بن محمد رحمہ اللہ نے پوچھا: کیا تم لوگ اپنی گفتگو سے فارغ ہوگئے؟
مجھے ایک ایسی منقبت کا بھی علم ہے جو ان تمام سے افضل ہے؛وہ یہ ہے کہ : آپ کا سینہ أصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بالکل صاف تھا۔‘‘
دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین
مصنف: قسم الدراسات والبحوث جمعیۃ آل واصحاب
ناشر: دار المعرفہ ،پاکستان
مترجم: الشیخ شفیق الرحمٰن الدراوی