کسی ایسی چیز میں دخل اندازی نہ کی جائے جس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف دل میں کچھ میل پیدا ہوتی ہو۔اہل سنت والجماعت اعتدال پسند شریعت کے حامل لوگ ہیں جو کہ غلوو جفا اور افراط وتفریط سے بہت دور ہیں ۔اس لیے وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عالیشان منزلت کا عقیدہ و ایمان رکھتے ہیں ؛ مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ لوگ معصوم نہیں تھے؛ اور ان سے کسی غلطی یا لغزش کے سرزد ہوجانے سے ان کی عدالت پر فرق نہیں آتا اور جو کچھ ان سے وقوع پذیر ہوا اسے کسی دوسرے سے سرزد ہونے والے فعل پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ یہ فرق وہی انسان سمجھ سکتاہے جو دونوں گروہوں کی سیرتوں کے مابین فرق کو سمجھتا ہو۔
پھر وہ روایات جن کی بنا پر یہ محسوس ہو رہا ہو کہ ان میں سے کسی ایک سے گناہ یا خطا ہوئی ہے؛اس بات کا بھی بھرپور امکان ہے کہ اس روایت میں کمی بیشی کی گئی ہو۔یا وہ روایت سرے سے ثابت ہی نہ ہو۔۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تنقید والی اکثر روایات کایہی حال ہے۔۔تو ایسی روایات کو بغیر کسی تردد اورحیل و حجت کے دیوار پر ماردیا جائے گا۔
یا پھر اس روایت کی کوئی مناسب اور صحیح تاویل دیکھی جائے گی۔
جب کسی بھی سچے اور مخلص مسلمان سے مطلوب یہ ہے کہ وہ کسی دوسرے عام مسلمان کے بارے میں حسن گمان رکھے؛ تو پھر مسلمانوں کی سردار ہستیوں اور اس قدسی جماعت کے متعلق کیا خیال ہے جو دین اسلام کے رموز سمجھے جاتے ہیں ؟
اس کا سب سے ادنی درجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایسے ویسے افعال کو ان کی مناسب تاویل؛یا پھر سہو اورغفلت پریا ایسے اجتہاد پر محمول کیا جائے جس میں ہر صورت میں ان کے لیے کوئی نہ کوئی اجر ضرور ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے خواہ کیسا ہی کوئی کام ہوگیا ہو؛اس کے کفارہ کے لیے پانچ باتیں کفایت کرجاتی ہیں :
اوّل:.... یہ کہ انہوں نے اس گناہ یا غلطی سے توبہ کرلی ہوگی۔یہ بات کسی پر بھی مخفی نہیں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم توبہ کرنے میں سب لوگوں پر سبقت لے جانے والے تھے۔
اور حدیث میں واضح طور پر آیا ہے:
’’ گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسے ہی ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو۔‘‘
یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی کرامت و بزرگی اور منزلت کی وجہ سے اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ ان کی توبہ جلدی قبول کرلی جائے۔
دوم:.... ان کے گناہ ان نیک اعمال کے بدلے میں معاف کردیے جائیں جو اعمال وہ بجا لائے ہیں ۔ بیشک نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں اور یہ بات معلوم ہوچکی ہے کہ : اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کی قدر اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت زیادہ ہیں اور اسی طرح ان کے اعمال پر بدلہ بھی بہت بڑا ہے۔ اس کی تفصیل گزرچکی ہے۔
سوم:.... ان کے اسلام کی طرف سبقت لے جانے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر جہاد کرنے کی وجہ سے ان کے گناہ معاف کردیے گئے ہوں ۔جیسا کہ اہل بدر کے حق میں فرمایا ہے:’’تمہیں کیا خبر کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کی طرف جھانک کردیکھا اورفرمایا: ’’اے اہل بدر! اب جو مرضی ہے کرو؛بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہاری مغفرت کردی ہے۔‘‘
چہارم:.... نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے سبب سے مغفرت۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر دی ہے کہ آپ کی شفاعت ان اہل توحید کے لیے ہوگی جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کچھ بھی شریک نہیں ٹھہرایا ہوگا۔‘‘
تو پھر اہل توحید کے ان سرداروں کے متعلق کیا گمان ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریب تھے؟اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ وہ دوسرے لوگوں سے بڑھ کر شفاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق دار ہیں ۔
پنجم:.... دنیا میں ان پر آنے والی آزمائشوں اور امتحانات کی وجہ سے ان کی مغفرت کردی گئی ہو۔ اس لیے کہ مصائب اور آفات گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں جیسا کہ امور شریعت سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہے۔
مقصود یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت کے ہاں اصول یہ ہے کہ : ان کے دل اور زبانیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق بالکل صاف رہیں ۔خصوصاً کسی بھی مسلمان کویہ زیب نہیں دیتا کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی برائیوں کے بیان یاان کی شان میں کوتاہی کرے یا ان پر طعنہ زنی یا دشنام طرازی سے اپنی زبان کوآلودہ اور گنہگار کرے اور جو کوئی بھی اس صراط مستقیم سے بھٹک جاتا ہے اس کے دل میں کچھ نہ کچھ میل ضرور داخل ہوجاتا ہے۔
حضرت سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ جو کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق ایک لفظ بھی زبان سے نکالتا ہے وہ یقیناً خواہشات نفس کا پجاری ہے ۔‘‘
حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’جو کوئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک کی شان میں کوئی کوتاہی کرتا ہے ‘ یا ان میں سے کسی ایک سے ہوجانے والی لغزش کی وجہ سے اس سے بغض رکھتا ہے؛ یا ان کی برائیوں کا تذکرہ کرتا ہے ؛ توایسا انسان یقیناً بدعتی ہے۔ [اوراس بدعت کا ازالہ اسی وقت ہوگاجب] وہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کرے تو اس کا دل پاک ہوجائے گا۔‘‘
جو کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین پیش آیا‘ان کے مابین جنگیں اور لڑائیاں ہوئیں ؛ ان کے حوالے سے مسلمان پر واجب ہوتا ہے کہ اپنی زبان کو قابو میں رکھے؛اور ان معاملات میں نہ پڑے۔ اہل سنت والجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایسے معاملات پر خاموشی اختیارکرتے ہیں ؛ اور کہتے ہیں کہ یہ ان کے اجتہادی فیصلے تھے جن پر ان کے لیے اجر ہے۔
اہل سنت و الجماعت کے عقائد کی سبھی کتابوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین پیش آنے والے ایسے معاملات میں پڑنے ؛ یا گہرائی میں جانے سے منع کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ایسے واقعات ان کے اجتہاد کی وجہ سے پیش آئے ؛ جس میں ان کے لیے ہر حال میں اجر ہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ :
اولاً: ....نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ جب میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاذکر کیا جائے تو اپنی زبانوں کو روک لو۔‘‘
ثانیاً:.... ایسی باتیں کرکے علم و عمل کسی بھی چیز میں کسی فائدہ کی امید نہیں رکھی جاسکتی۔تو ایک اچھے مسلمان کی نشانی یہ ہے کہ وہ ایسی چیزوں کو ترک کردے جو اس کے فائدہ کی نہیں ۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین لڑائیوں اور جنگوں کے جتنے بھی واقعات پیش آئے؛
وہ سارے ان کے اجتہادی فیصلے تھے۔ان میں سے ہر ایک گروہ اپنی رائے کے مطابق حق کی نصرت کررہا تھا۔اس میں کوئی کوتاہی یادھوکہ بازی والی بات نہیں ۔ یہ معاملہ زیادہ سے زیادہ اس قاضی کی طرح ہوسکتا ہے جو کسی کو ادب سکھانے کے لیے سزادے۔ اب اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق بدگمانی رکھنا؛اور اپنے دلوں کو ان کے متعلق میلا اور کینہ پسند رکھناصرف ذلت اوررسوائی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔نہ ہی انہیں گھوڑا حاصل نہ ہی سامان سفر۔
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے کتنی ہی خوبصورت بات کہی ہے؛فرمایا:
’’ اللہ تعالیٰ نے اس خون سے میرے ہاتھ کو بچا کر رکھا؛مجھے یہ بات نا پسند ہے کہ میں اپنی زبان اس میں ڈبو دوں ۔‘‘
وہ عظیم مبادیات جنہیں اس امت کے سلف نے مقررکیا ہے ؛ اور ان کے بعد آنے والے ائمہ اس پر چلتے رہے ہیں ، اورتمام اہل ِ سنت اس پر کاربند رہے ہیں [وہ] : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی چپقلشوں پر خاموشی اختیار کرنا ؛ اوران تمام کے لیے رحمت کی دعا کرنا ، اور ان سب سے محبت رکھنا ،اور انہیں صرف اچھے لفظوں میں ایسے یاد رضي الله عنهم کرنا ہے جیسے سلف اوران کے بعد کے اہل علم کا طریقہ رہا ہے ۔]
اس لیے کہ ان جھگڑوں میں ہر دو فریق مجتہد تھے۔ ان میں سے حق پانے والے کے لیے دو اجر ہیں اور خطا کرجانے والے کے لیے ایک اجر ہے۔ آپ کو یہ اچھی طرح سے جان لینا چاہیے کہ بروز قیامت اللہ تعالیٰ آپ سے آپ کے اعمال کے بارے میں سوال کریں گے ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے گروی پڑا ہوا ہے۔‘‘ اور جو لوگ آپ سے پہلے گزر چکے ہیں یا کسی دوسرے کے بارے میں آپ سے کوئی سوال نہیں کیا جائے گا اور آپ سے یہ بھی نہیں پوچھا جائے گا کہ حق کس کے ساتھ تھا؟ اور ان میں سے کون ٹھیک تھا اور کون غلط؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’یہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی۔ جو کچھ اس جماعت نے اعمال کیے وہ ان کے لیے ہیں اور جو کچھ تم کمائو گے وہ تمہارے لیے ہے اور تم سے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے۔‘‘
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں :اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال آنکھ کی مثال ہے اور آنکھ کی بہتری اس سے چھیڑ چھاڑ نہ کرنے میں ہے۔
حضرت امام حمد بن حنبل رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا :حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کے مابین ہونے والی جنگوں کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا:میں ان کے متعلق صرف خیر کے کلمات کہتا ہوں اللہ تعالیٰ ان سب پر رحم فرمائیں ۔‘‘
ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جو کچھ حضرت علی ،حضرت زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کے مابین پیش آیا، بیشک وہ تاویل اور اجتہاد کی وجہ سے تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ امام [حکمران] تھے، اوریہ سب لوگ اہل اجتہاد تھے اوریقیناً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے جنت کی گواہی دی ہے ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس اجتہاد میں حق پر تھے۔‘‘
ایسے ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے مابین بھی جو کچھ پیش آیا ،وہ تاویل اور اجتہاد کی وجہ سے تھا۔ تمام صحابہ امانت دار ائمہ ہیں ،ان میں سے کسی ایک کی بھی دین داری پر کوئی تہمت نہیں ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول نے ان سب لوگوں کی ثنا([تعریف] کی ہے اور ہم ان کی عزت ،ومحبت وتوقیراور دوستی کوعبادت سمجھتے ہیں اورہر انسان سے برأت کا اظہار کرتے ہیں جوان کی شان میں کمی کرتا ہے ،اللہ تعالیٰ ان تمام [صحابہ ] پر راضی ہوجائے ۔‘‘
امام مزنی رحمہ اللہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل بیان کیے جائیں گے اور ان کے اچھے افعال کا ذکر کیا جائے گا اور ہم ان کے باہمی جھگڑوں میں پڑنے سے بچ کر رہتے ہیں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد روئے زمین پر سب سے بہترین لوگ یہی ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے ان کواپنے نبی کے لیے پسند کر لیا تھا، اور ان کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی نصرت کے لیے پیدا کیا تھا۔یہ لوگ دین کے آئمہ اور مسلمانوں کے راہنما ہیں ؛ اللہ تعالیٰ ان تمام پر رحم فرمائے ۔‘‘
امام بر بہاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ جب آپ کسی کو دیکھیں کہ کوئی شخص اصحاب ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر طعن کررہا ہو ؛ تو جان لیجیے کہ وہ انتہائی بری بات کہنے والا خواہش نفس کا پجاری ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ’’ جب میرے صحابہ کا ذکر کیا جائے تو اپنی زبانوں کو روک لو۔‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا پتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کیا لغزشیں ہوں گی۔ پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صحابہ کے بار ے میں خیر اور بھلائی کی بات ہی کہی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ’’ میرے صحابہ کو چھوڑ دو ؛ اور ان کے بارے میں خیر کے علاوہ کچھ نہ کہو۔‘‘
ان کی لغزشوں اور جنگوں کے بارے میں آپ کچھ بھی نہ کہیں اور کوئی ان کی برائی بیان کررہا ہو تو اسے سنیں بھی نہیں ‘ کیونکہ اگر آپ نے ایسی باتیں سن لیں ‘ تو آپ کا دل سلامت نہیں رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو صحابہ کے مابین پیش آنے والے قتال کے بارے میں آگاہ کردیا تھا]۔ مگر آپ نے ان کے بارے میں خیر کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہا ۔
امام ابن بطہ رحمہ اللہ عقیدۂ أہل سنت والجماعت کے بارے میں فرماتے ہیں : ’’اور اس کے بعد ؛ جو کچھ صحابہ کے مابین پیش آیا ، اس میں دخل اندازی سے رک جاتے ہیں ۔ یقیناً ان لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معرکوں میں شرکت کی ہے؛ اور فضیلت حاصل کرنے میں لوگوں پر سبقت لے گئے اور یقیناً اللہ تعالیٰ نے ان کی مغفرت کردی ہے اور آپ کو ان کے لیے استغفار کرنے کا اور ان کی محبت سے اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے اور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی آپ پر یہ فرض کیا ہے اور آپ جانتے تھے کہ ان کے ساتھ کیا ہوگا اوربیشک یہ لوگ آپس میں جنگ کریں گے ۔
امام ابو عثمان الصابونی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’اور ان کا عقیدہ ہے کہ جو کچھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے مابین پیش آیا ، اس کے بیان کرنے سے رک جانا چاہیے اور اپنی زبانوں کو ان کے عیوب بیان کرنے سے ؛ اور ان کی شان میں گستاخی کرنے سے پاک رکھنا چاہیے اور ان کا عقیدہ ہے کہ ان تمام پر رحم کی دعا کی جائے ،اور ان تمام سے دوستی رکھی جائے۔‘‘
ثالثا:.... صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معاملات میں پڑنا ایسا معاملہ ہے جس کاانجام اچھانہیں ہوتا ۔ ایک انسان اچھا بھلا صراط مستقیم پر چل رہا ہوتا ہے ؛مگر ایسے معاملات کو زیر بحث لاکر گمراہی کا شکار ہوجاتاہے۔اس کے دل میں اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی ایک کے خلاف حسد و بغض پیدا ہوجاتا ہے۔ یہی کسی بھی بڑی گمراہی کا ابتدائی مرحلہ ہے۔دین اسلام سد ذرائع کے طور پر ایسے امور سے منع کرتا ہے۔
علامہ بربہاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی لغزشوں اور ان کے مابین پیش آنے والے واقعات کے متعلق گفتگو نہ کریں اور نہ ہی کسی ایسے معاملہ پر گفتگو کریں جس کا آپ کو صحیح علم نہیں اور اگر کوئی انسان اس کے متعلق گفتگو کررہا ہو تو اس کی بات بھی نہ سنیں اگر آپ اس کی بات سنیں گے تو آپ کا دل صحیح سلامت نہیں رہے گا۔‘‘
رابعاً:.... اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ منافقین اور زندیق لوگوں نے اس باب میں بہت ساری چیزوں کا اپنی طرف سے اضافہ کردیا ہے۔جب یہ عالم ہو کہ اکثر روایات من گھڑت اور جھوٹ ہوں تو پھر درست فیصلہ کرنا کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟
ایسے جھگڑوں سے متعلق روایات کے بارے میں زیادہ تر اعتماد تاریخ کی کتابوں پر ہوتا ہے اور تاریخ کی کتابیں ایسی روایات سے بھری پڑی ہیں جن میں اچھے اوربرے ؛سچ اور جھوٹ ؛خشک اور گیلا ملاکربھر دیاگیا ہے۔مؤرخین کی یہ عادت رہی ہے کہ وہ ہر اس بات کونقل کردیتے ہیں جو لوگوں کے مابین مشہور ہو۔ تو پھر ایسے خطرناک معاملہ کے فیصلہ کے لیے ایسی جھوٹی روایات یا کمزور اور من گھڑت تاریخ پر کیسے اعتماد کیا جاسکتاہے۔حالانکہ ھوا پرست مؤرخین کے ایسی روایات گھڑنے کے پیچھے اپنے مذموم مقاصد ہوا کرتے تھے۔
پھر ان میں سے جو روایات صحیح ہیں ان کااس صحیح اور مناسب موقع محل پر رکھنا آسان ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان اور ان کے مقام کے لائق ہے۔ جیسا کہ پہلے گزر چکا۔
علامہ ابن دقیق العید رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جھگڑوں اور اختلافات کے بارے میں جو کچھ تاریخ میں نقل کیا گیا ہے؛ ان میں سے کچھ باتیں تو باطل اورجھوٹ ہیں اور اگر کوئی بات صحیح ہے تو ہم اس کی مناسب اور درست تاویل تلاش کرتے ہیں ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف ان کی تعریف اس سے پہلے کی جاچکی ہے اور جو کچھ ان کے بارے میں بعد میں روایت کیا گیاہے اس میں تاویل کا احتمال ہے۔ایسی چیز جس میں وہم ہو یا جو مشکوک ہو؛اس کی بنا پر معلوم شدہ حق کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
ان پر تہمتیں لگانے والوں سے ان کا دفاع کرنا اور ان کی دشمنی کے سامنے بند باندھنا۔
ایسا کرنا ان کے ساتھ سچی محبت رکھنے اور ان کے حقوق کی ادائیگی کا ایک حصہ ہے۔ ہم تمام اہل بیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے ہیں اور ان کے دفاع کا ارادہ کرتے ہیں اور ان لوگوں کی محبت کو ایمان و عقیدہ کا حصہ سمجھتے ہیں ۔
امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’اور جو کوئی ان سے بغض رکھتا ہے ‘ یا انہیں اچھے لفظوں میں یاد نہیں کرتا ہم اس سے بغض رکھتے ہیں ۔‘‘
اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان گرامی ہے:
’’بیشک ایمان کی سب سے مضبوط رسی اللہ کی رضا کے لیے محبت کرنا اور اس کی رضا کے لیے بغض و نفرت رکھنا ہے ۔‘‘
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اللہ کی رضا کے لیے بغض رکھنے کے سب سے زیادہ مستحق وہ لوگ ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر طعن و تشنیع کرتے ہیں ۔
دشمنان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ان کا دفاع کرنا؛ان کے جھوٹ پر رد کرنا‘ان کے شکوک و شبہات کا ازالہ کرنا اللہ کی راہ میں سب سے بڑا جہاد ہے۔
اہل سنت والجماعت کا منہج اس اساس پر قائم ہے کہ:ان کا افضل ترین علم وہ ہے جس میں وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علم کی اتباع و اقتداء کررہے ہوں اور ان کاافضل ترین عمل وہ ہے جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اعمال حضرت امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :جو کوئی اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی ایک کو گالی دے یا حضرت ابوبکر یا حضرت عمر یا حضرت عثمان یا حضرت علی یا حضرت امیر معاویہ یا حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک کو گالی دے اوراگر یہ کہے کہ:یہ صحابہ کفر اور گمراہی پر تھے تو اسے قتل کیا جائے گا اور اگر ایسے گالی دے جیسے لوگ آپس میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے ہیں تو پھر اسے بہت سخت سزا دی جائے گی۔
امام ابوبکر المروزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’میں نے ابو عبداللہ سے ان لوگوں کے متعلق حکم پوچھا جو حضرت ابوبکر و عمر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم پر دشنام طرازی کرتے ہیں ۔ تو آپ نے فرمایا :میں نہیں سمجھتا کہ ایسا کرنے والے اسلام پر ہیں ۔‘‘
امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’جب آپ کسی کو دیکھیں کہ وہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں کوتاہی [تنقیص] کررہا ہو تو جان لیجیے کہ وہ زندیق ہے۔‘‘
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’جب آپ کسی کو دیکھیں کہ وہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر برے الفاظ میں کررہا ہو تو اس کے اسلام میں شک کریں ۔‘‘
کے پیچھے چل رہے ہوں اور ان کا ایمان و عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہر میدان میں ان سے بلند و بالا اور فائق ہیں ۔‘‘
دین میں ان کی اقتدا فرض ہے۔پس ان کی اقتدا اور آیات اورسورتوں کی اتباع کرنا چاہیے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے عقیدہ کے اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:
’’ بیشک اصول یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی راہ کی اقتدا کی جائے۔‘‘
خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’اپنے نفس کے لیے اس چیز پر راضی ہوجاؤ جس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے نفوس کے لیے راضی ہوگئے تھے۔ بیشک و علم کی روشنی میں چلتے تھے اور انتہائی نافذبصیرت کے ساتھ رکتے تھے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پیروی کرنے والوں کی تعریف کی ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
’’اور مہاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے سب سے پہلے لوگ اور وہ لوگ جو نیکی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ؛یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘
اورفرمان الٰہی ہے:
’’ اور اس شخص کے راستے پر چلو جو میری طرف رجوع کرتا ہے۔‘‘
اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد یہ وصف سب سے زیادہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں تھا اورفرمان الٰہی ہے:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ۔‘‘
امام ضحاک رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
’’یعنی ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ۔‘‘
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان لوگوں کے اوصاف پوچھے گئے جو جہنم کی آگ میں جانے سے بچ جائیں گے تو آپ نے فرمایا:
’’وہ لوگ نجات پائیں گے جو اس راہ کے راہی ہوں گے جس پر میں اور میرے صحابہ کرام چل رہے ہیں ۔‘‘
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’اے قراء کی جماعت! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور ان لوگوں کی راہ پر چلتے رہو جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں ۔ مجھے میری عمر کی قسم! اگر تم ان کی راہوں پر چلتے رہو گے تو بہت آگے سبقت لے جاؤ گے اور اگر ان کی راہ چھوڑ کر دائیں بائیں چل نکلو گے تو بہت دور کی گمراہی میں جاپڑو گے۔‘‘
اس سے پتا چلا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی راہ پر چلنے میں ہی ہدایت ہے اور اسی پر کامیابی اور نجات مل سکتی ہے۔
آخر میں ایک بہت خوبصورت کلام کے ساتھ اپنی بات ختم کرنا چاہتا ہوں ۔ حضرت علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ اس فرمان الٰہی کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’بیشک اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں کے دلوں میں دیکھا تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دل ان تمام سے افضل اور بہتر پایا تو اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی ذات کے لیے چن لیا اور آپ کو اپنا رسول بناکر مبعوث فرمایا۔پھر دوسری بار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام لوگوں کے دلوں میں دیکھاتو آپ کے صحابہ کے دلوں کو تمام لوگوں کے دلوں سے افضل پایا تو انہیں اپنے نبی کے وزیر بنانے کے لیے چن لیا جو کہ آپ کا دین پھیلانے کے لیے لوگوں سے جہاد کیا کرتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے:تم میں سے جو کوئی راہ سنت پر چلنا چاہتا ہو تو اسے چاہیے کہ ان لوگوں کی راہ پر چلے جو کہ انتقال کر چکے ہیں ۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تھے ۔جو کہ امت کے سب سے بہترین لوگ تھے۔ ان کے دل بڑے پاکیزہ اورنیک تھے۔ ان کا علم بہت گہرا تھا اور تکلف نہیں کرتے تھے۔وہ ایسی ہستیاں تھیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور آپ کے دین کی نشرو اشاعت کے لیے چن لیاتھا۔اپنے طور طریقہ اور اخلاق و عادات میں ان کی مشابہت اختیار کرو۔وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تھے جو کہ راہِ ہدایت پر گامزن تھے۔
’’اور جنھوں نے کفر کیا، ان لوگوں سے کہنے لگے جو ایمان لائے اگر یہ کچھ بھی بہتر ہوتا تو یہ ہم سے پہلے اس کی طرف نہ آتے۔‘‘
[آپ فرماتے ہیں :]
’’ اہل سنت والجماعت کہتے ہیں :’’ہر وہ قول و فعل جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہ ہو وہ بدعت ہے۔ اس لیے کہ اگر اس میں کوئی خیر و برکت ہوتی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ضرور اس کی طرف سبقت لے جاتے۔اس لیے کہ خیر و بھلائی کا کوئی کام ایسا باقی نہیں رہا جس کی طرف وہ سبقت نہ لے گئے ہوں ۔‘‘
امت پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے یہ دس بڑے حقوق ہیں جن میں اہل سنت والجماعت کا عقیدہ بھی اجمالی طور پر بیان کردیا گیاہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں راہ حق پر قائم رکھے اور ان مقدس جماعت کی اتباع اور ان کے دفاع کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
٭٭٭